0
Saturday 24 May 2014 21:06

دہشتگردی، امریکی معاشرہ اور مستقبل

دہشتگردی، امریکی معاشرہ اور مستقبل
تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکی محکمہ خارجہ نے دہشت گردی پر اپنی سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے، جس میں ماضی کے اس دعویٰ کی تردید کر دی گئی ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسامہ بن لادن کی موت کے بعد القاعدہ کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے۔ ماضی میں ایک نہیں بلکہ کئی بار دعویٰ کیا گیا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ کی ہلاکت دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بڑی کامیابی ہے، لیکن حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا اب بھی دہشت گردی کے اس عفریت سے جان نہیں چھڑا پائی۔ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ اب ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت افغانستان اور عراق میں القاعدہ نے چھوٹے چھوٹے لیکن خود مختار گروہ تشکیل دینا شروع کر دیئے ہیں، جو زیادہ متحرک ہیں اور سنگین نوعیت کی دہشت گردی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہوں نے یمن، شام، عراق، افریقہ اور صومالیہ میں حالیہ دنوں میں موثر کارروائیاں بھی کی ہیں۔
 
اس رپورٹ سے واضح ہو رہا ہے کہ ابھی دنیا میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جاری رہے گی۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ مسلم دنیا میں مسلمانوں کے دو اہم فرقوں کے درمیان کشیدگی نے القاعدہ کو تقویت بخشی ہے، کیونکہ فرقہ وارانہ بنیاد پر منظم ہونے والی قوتیں بالآخر مغرب کو ہی نشانہ بنا سکتی ہیں۔ رپورٹ میں تفصیل سے عراق، یمن، شام اور پاکستان کی صورت حال کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی گئی تھی۔ جس کا فائدہ مغرب مخالف قوتوں نے اٹھایا ہے اور اس بہانے انہوں نے خود کو زیادہ منظم کرنا شروع کر دیا ہے۔

اس رپورٹ کے بعد مسلم دنیا کو اب سوچنا چاہیے کہ یہ فرقہ واریت کس کی پیدا کردہ ہے اور مغرب اپنے مفادات کے تحفظ اور مسلمانوں سے خود ساختہ خوف کے تابع انہیں باہم دست و گریباں کئے ہوئے ہے۔ آج بھی مسلم حکمرانوں نے بیدار مغزی کا مظاہرہ نہ کیا تو مستقبل تاریک ہونے کا احتمال ہے۔ امریکہ سمیت دنیا بھر میں گیارہ مئی کو مائوں کا عالمی دن منایا گیا، اس موقع پر امریکہ میں لوگ اپنی مائوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ملاقات کرکے کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ خود ان کی مائیں اولڈ ہاؤسز میں ہوں یا پھر دور دراز علاقوں میں تنہا زندگی گزار کر رہی ہوں، اس حوالے سے باضابطہ میڈیا مہم بھی چلتی ہے۔ امریکہ میں یہ رواج ہے کہ اس دن ماؤں کو پھول بھیجے جاتے ہیں۔ یا کم از کم ایک خط ضرور تحریر کیا جاتا ہے، خواہ اس کے بعد سال بھر کی چھٹی ہوجائے اور اس ماں کو پھر کوئی نہیں پوچھتا، گیارہ مئی کا دن ان ماوں کے لئے غنیمت ہوتا ہے۔ جو اپنی اولاد کی راہ تکتے دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں، دراصل امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک میں فرد کے تحفظ کے لئے جو قانون سازی کی گئی ہے، اس میں انسانی اقدار پر کاری ضرب لگائی ہے۔

ایک بچہ اگر اس معاشرے میں پیدا ہوتا ہے تو اس کے حقوق کے تحفظ کے لئے جو اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، ان سے والدین اور بچوں کے درمیان دوری پیدا ہوگئی ہے۔ امریکہ میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے والدین تک کو ان پر سختی کرنے سے روک دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے باوجود کسی والد یا والدہ نے اپنے بچے پر سختی کی تو ریاست حرکت میں آجاتی ہے۔ اور ان بچوں کو بحق سرکار ضبط کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح بچے امریکہ میں والدین کی نہیں بلکہ ریاست کی ملکیت ہیں۔ بچوں پر والدین کا حق نہ ہونے کی وجہ سے والدین بھی ان بچوں سے لاپرواہ سے ہوجاتے ہیں اور بچے کو بھی یہ پتہ ہوتا ہے کہ ان کی نشوونما میں والدین کا حصہ کم اور ریاست کا زیادہ ہے، جو ان کی زیادہ دیکھ بھال کرتی ہے اور والدین کو بھی ان بچوں کی مد میں خصوصی وظائف ملتے ہیں، اس خیال کے تحت پروان چڑھنے والے بچوں میں والدین کے لئے وہ مقام نہیں رہتا جو ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے۔

اس پس منظر میں والدین اور بچوں کے درمیان تعلق کمزور ہوتا جاتا ہے۔ بچہ جب بلوغت کو پہنچتا ہے تو وہ تنہا پرواز کر جاتا ہے اور اسے ماں باپ کی کوئی پرواہ نہیں رہتی، اس ساری صورت حال کے باوجود سال میں ایک دن ماں کا دن منانا غنیمت نہیں؟ جہاں آپ اپنے بچے پر سختی کریں گے تو آپ کے بچے ریاست آپ سے لے لے گی اور پھر کبھی آپ اپنی اولاد کا منہ تک دیکھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بچے پالنے کا رجحان بھی کم ہو رہا ہے، کون اس مصیبت کو اپنے گلے لگائے، اس کے مقابلے میں زندگی کے ساتھی کے طور پر کتے پالنے کا مشغلہ زیادہ آسان ہے۔ کتا زیادہ وفا دار بھی ہوتا ہے اور کسی احساس کے بغیر مرتے دم تک آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ جو عورت امریکہ میں ماں بنتی بھی ہے تو ان کی بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو محض سرکاری وظائف وصول کرنے کے لئے ماں بنتی ہیں۔ ورنہ ان میں ماں بننے کی فطری خواہش کم ہی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ صورت حال ہر جگہ نہیں، جہاں جہاں خاندانی نظام قائم ہے وہاں یہ صورت حال نہیں۔ اب یہ پس منظر سمجھے بغیر ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بھی کتے پالنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ میں یہ ایک فیشن ہے۔

امریکہ روس کشیدگی گذشتہ دنوں یوکرائن کے مسئلے پر بڑھ گئی، جس کی وجہ سے امریکہ کمپنیوں نے روسی سرمایہ کاروں کے ساتھ کاروبار میں محتاط رویہ اختیار کر لیا ہے، لیکن اس موقع پر چینی اور امریکی سرمایہ کاروں کے درمیان کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ دنیا بھر کی طرح امریکہ میں بھی چینی سرمایہ کاروں نے بڑے پیمانے پر رئیل اسیٹٹ میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، امریکہ میں اکانومی کے مرکز یعنی نیویارک کے دل مین بٹن میں نہایت قیمتی عمارتوں کی حالیہ دنوں میں خرید و فروخت کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چینی سرمایہ کار رئیل اسٹیٹ کی خریداری میں روسیوں پر بازی لے گئے ہیں اور انہوں نے بڑے پیمانے پر مہنگی عمارتیں خریدنی شروع کر دی ہیں۔

امریکہ میں عام خیال یہی ہے کہ رئیل اسٹیٹ میں جو کمیونٹی سرمایہ کاری کرتی ہے دراصل وہ امریکہ میں مستقبل کی مضبوط ترین کمیونٹی بن کر ابھرتی ہے۔ ماضی میں یہودیوں نے اسی طریقہ کار کو اپنا کر امریکہ میں اپنی حیثیت کو منوایا تھا۔ یہ تمام مسائل اپنی جگہ لیکن اس وقت بھی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے، لیکن اس کے خاتمہ کے لئے جس متفقہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے وہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان اور افغانستان سے لے کر شام، عراق لیبیا اور نائیجیریا تک دہشت گرد ہر کہیں سرگرم ہیں، ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کئی مقامات پر ریاستیں دہشت گردی کو پرموٹ کر رہی ہیں اور اس کے پیچھے ان کے ذاتی مفادات ہیں، شام اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس وقت ریاستوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کا نقصان آخر میں سپورٹروں کو ہی ہوگا۔ کیونکہ جن دہشت گردوں کو وہ کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کر رہی ہیں، کل کو وہی دہشت گرد ان کے خلاف بھی کھڑے ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اس کی واضح مثال ہے، ضیاءالحق نے افغانستان کے لئے امریکی ایما پر دہشت گرد پالے اور آج وہی دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ شام میں سرگرم دہشت گرد کل انہیں ممالک کے لئے خطرہ بن جائیں گے، جنہوں نے انہیں شام بھیجا ہے۔
خبر کا کوڈ : 385896
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش