0
Monday 22 Sep 2014 22:26
تشیع کا دفاع، اہلسنت و پاکستان کا دفاع ہے

ایم ڈبلیو ایم ملت تشیع کو قومی دھارے میں واپس لانے میں کامیاب ہو گئی ہے، مولانا شیخ حسن صلاح الدین

ملت تشیع کے حقوق کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اہلسنت یا دیگر مذاہب کے افراد کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں
ایم ڈبلیو ایم ملت تشیع کو قومی دھارے میں واپس لانے میں کامیاب ہو گئی ہے، مولانا شیخ حسن صلاح الدین
حجة الاسلام والمسلمین مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین کا شمار پاکستان کے جید اور بزرگ علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کے حلقے میں آپ کی شخصیت کو منفرد مقام حاصل ہے۔ آپ کی پوری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ آپ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کے ہم جماعت بھی رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شوریٰ عالی کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین ہیئت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کے صدر بھی ہیں۔ کراچی کے علاقے جعفر طیار میں آپ کی زیر نگرانی ایک مدرسہ بنام مدرسئہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی چل رہا ہے۔ کسی بھی اہم قومی و ملی فیصلے کیلئے آپ کی رائے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلام ٹائمز نے سنی اتحاد کونسل اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مشترکہ جدوجہد کے موضوع پر مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر خصوصی نشست کی، اس حوالے سے آپ کیساتھ کیا گیا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: عمومی تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع مسلمان قومی دھارے سے باہر نظر آتے ہیں، کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ کسی بھی قوم و ملت کا اپنے تشخص اور خصوصیات کے ساتھ معاشرے میں زندہ رہنا اجتماعی و سیاسی امور میں مداخلت کے بغیر ناممکن ہے، لہٰذا قوم و ملت کو معاشرے میں زندہ رہنے کیلئے ملکی معاشرتی، سماجی مسائل میں فعالیت دکھانا، اس میں اپنا حصہ ڈالنا، اپنے تشخص کو اجاگر کرنا ضروری ہے، اس تشخص کا تحفظ کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی قوم و ملت ایسا نہیں کرتی تو نہ تو اسکی کہیں شنوائی ہوگی، اسکے حقوق ہمیشہ پائمال ہوتے رہینگے، ایسی قوم ہمیشہ پستی رہے گی، تو اس حوالے سے پاکستان میں یہ ضرورت تھی کہ ایک تنظیم یا ایک گروہ سامنے آئے اور ملت تشیع پاکستان کی آواز کو ملک کے کونے کونے میں پہنچائے اور معاشرتی، سماجی، سیاسی مسائل میں دوسروں کی طرح حصہ لیں، تشیع کے حقوق کا دفاع کرسکیں، اسی تناظر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آج بھی ایم ڈبلیو ایم ڈاکٹر طاہر القادری اور سنی اتحاد کونسل کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کر رہی ہے، ہم سب ایکدوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں، یہ مشترکہ جدوجہد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایم ڈبلیو ایم ملت تشیع جسے مملکت خداداد پاکستان میں فراموش کر دیا گیا تھا، کو ایک بار پھر قومی دھارے میں واپس لانے میں کامیاب ہو گئی ہے، اسلام آباد میں جاری ہمارے دھرنے کے نتائج کچھ بھی آئیں، ملت تشیع پاکستان کا مستقبل الحمدللہ بہت روشن ہے، انشاءاللہ اہل تشیع کا اہلسنت کے ساتھ یہ اتحاد برقرار رہا تو ملکی تاریخ میں پہلی بات شیعہ پلیٹ فارم سے شیعہ نمائندے پارلیمنٹ میں پہنچیں گے، انشاءاللہ ہمارے اتحادیوں کے امیدوار بھی کامیاب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچیں گے، اس طرح ہمارے حقوق کا تحفظ ہوگا، ہمارے خلاف پارلیمنٹ میں کوئی قانون نہیں بن سکے گا، کوئی بھی سیاسی جماعت دہشتگردوں کے ساتھ مل کر ہماری آواز نہیں دبا سکے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں ایم ڈبلیو ایم کی سنی اتحاد کونسل اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ حالیہ مشترکہ جدوجہد مستقبل میں مستقل طور پر شیعہ سنی اتحاد کی صورت اختیار کر لے گی؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
جیسا کہ میں نے تھوڑی دیر پہلے عرض کیا کہ سنی اتحاد کونسل اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم کی مشترکہ جدوجہد مستقبل میں آگے بڑھ کر مضبوط اتحاد کی صورت میں سامنے آئے گی، اس تحریک کے آغاز میں ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان عوامی تحریک کے ذریعے مجلس وحدت مسلمین کو شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے اپنے دس نکات پیش کئے تھے تو ہم نے ان نکات میں اپنے چار نکات شامل کرنے کا کہا جو انہوں نے تسلیم کرتے ہوئے شامل کئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انشاءاللہ ہمارا یہ شیعہ سنی اتحاد مستقبل میں بھی اہلسنت، اہل تشیع مسلمانوں کیلئے مفید ثابت ہوگا، وطن عزیز پاکستان کیلئے مفید ثابت ہوگا، ہماری یہ جدوجہد کسی ایک مسلک، گروہ یا صوبے کیلئے نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں اور ملک کیلئے ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلام و پاکستان دشمن دہشتگردوں اور انکے حمایتی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی کمزوری کا باعث بھی بنے گا۔

اسلام ٹائمز: کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم اس مشترکہ جدوجہد کے ذریعے سیاسی میدان میں اپنا تنظیمی تشخص قائم کرکے اپنے تنظیمی اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے، آپکی کیا نگاہ ہے اس حوالے سے؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک ذریعہ، ایک وسیلہ ہے قومی اہداف کے حصول کیلئے، ایم ڈبلیو ایم کا اپنے لئے، اپنے کارکنان یا عہدیداران کیلئے ذاتی مفاد کا حصول ہدف نہیں ہے، ہمارا ہدف تشیع کا ہدف ہے، ملک میں اسلام کی بالادستی، قانون کی بالا دستی، عدل و انصاف کی تمام شہریوں کو غیرجانبدارانہ طور پر فراہمی ہمارا ہدف ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں تشیع کے حقوق کا تحفظ ہو، ملت تشیع مضبوط ہو، لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم اہلسنت یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ ہمارا اس بات پر یقین ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ملت تشیع کی مضبوطی و دفاع ہمارے اہلسنت برادران اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی مضبوطی و دفاع ہے، پاکستان کی مضبوطی ہے، تحفظ ہے، ملک و ملت کا دفاع ہے۔

اسلام ٹائمز: سنی اتحاد کونسل اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم کی مشترکہ جدوجہد تو نظر آتی ہے لیکن ملت تشیع سے تعلق رکھنے والی تنظیموں میں تعاون و تعلقات کا فقدان نظر آتا ہے، اس حوالے ایم ڈبلیو ایم کیا کردار ادا کر رہی ہے؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
آپ کا درد دل بجا ہے یعنی دوسرے الفاظ میں اتحاد، مومنین کے درمیان میں اتحاد۔ ہم ہمیشہ سے اتحاد کے داعی ہیں، ہم تو اتحاد کیلئے سفید کاغذ پر دستخط دینے کیلئے تیار ہیں، جو کچھ بھی آپ اتحاد کیلئے لکھنا چاہیں، بیان کرنا چاہیں، شرائط وضع کرنا چاہیں، ہم اتحاد و وحدت کیلئے تیار ہیں، لیکن اس وقت ملت میں جو بیداری لائی گئی ہے، ملت میں جو شعور پیدا کیا گیا ہے اس کو ٹھنڈا نہ کیا جائے، اسے ٹھنڈا یا ختم کرنے کیلئے کوئی اقدام نہ کیا جائے تو ہم ہر اتحاد کیلئے، ہر آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار ہیں شروع سے، ہم اب بھی تمام تنظیموں اور رہنماوں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں، اتحاد کی دعوت پر لبیک بھی کہتے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ قومی امور میں ایم ڈبلیو ایم ملت تشیع کی آواز بن کر ابھری ہے لہٰذا میں یہاں دیگر شیعہ تنظیموں اور رہنماوں سے عرض کرونگا کہ وہ مجلس وحدت مسلمین کی جدوجہد و کردار کو ملت تشیع کی جدوجہد و کردار سمجھیں، خلوصِ نیت سے ساتھ دیں، الحمدللہ عوام ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ ہے، قوم ایم ڈبلیو ایم کے مؤقف کو اپنا مؤقف سمجھتی ہے، انشاءاللہ ایم ڈبلیو ایم بھی قوم کو مایوس نہیں کریگی۔

اسلام ٹائمز: اس عمومی تاثر کے حوالے سے کیا کہیں گے کہ عام شیعہ افراد قومی مسائل سے لاتعلق نظر آتے ہیں؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
میں یہاں ڈاکٹر طاہرالقادری اور پاکستان عوامی تحریک کی مثال دینا چاہوںگا کہ وہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں، اب ان کے مضبوط ادارے موجود ہیں، ان کے جانثار ہیں، چاہنے والے ہیں، ہر حال میں انکے ساتھ ہیں، ہمارے ہاں یہ کام نہیں ہوا، مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اب معاشرے میں جدوجہد، سعی اور عوامی بیداری اور عوام کو شعور دینے کا کام شروع کیا ہے، لہٰذا ابھی ہمارا ان جماعتوں سے موازانہ کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن ہم مایوس نہیں ہیں، ایم ڈبلیو ایم کئی مراحل تیزی سے عبور کر چکی ہے، کئی کامیاب تجربات کئے ہیں، ہماری قوم بیدار ہے، ہاں لیکن کچھ افراد لاتعلق ہیں، ان افراد کو مذہب سے یا تنظیم سے یا مذہبی، دینی، اجتماعی مسائل سے وابستہ کرنے کیلئے مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 411049
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش