0
Friday 6 Sep 2013 21:17
بعض ممالک نے مشرق وسطٰی کے حق میں اچھا کام نہیں کیا

شام کیخلاف جنگ کیصورت میں چند اسلامی ممالک اپنے گندے کردار کا خمیازہ بھگتیں گے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب

شام کیخلاف جنگ کیصورت میں چند اسلامی ممالک اپنے گندے کردار کا خمیازہ بھگتیں گے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب
معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب، خارجہ پالیسی کے موضوعات پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ شاندار فوجی کیرئیر کے بعد آپ فوجی فرٹیلائزر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو بھی رہ چکے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پر دفاعی تجزیہ نگاری اور فارن پالیسی سے متعلق مباحثوں میں اکثر شریک ہوتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے ساتھ مسئلہ بلاد شام اور عالمی طاقتوں کے کردار کے موضوع پر گفتگو کی، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کی سرتوڑ کوشش کے باوجود جی20 اجلاس میں عالمی طاقتیں شام کے خلاف کارروائی پر متفق نہیں ہوسکیں، اس تمام تر صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟

جنرل (ر) امجد شعیب: میرا خیال یہ ہے کہ شام پر اٹیک ہوگا اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مغربی قوتوں کے ساتھ ساتھ بعض عرب ممالک بھی امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں، جو بہت بڑی خرابی کا باعث ہے۔ بعض عرب ممالک کی وجہ سے لازماً امریکہ کو Encouragement ملی ہے۔ اس سارے معاملہ میں جہاں تک روس کا تعلق ہے، اگر تو روس خود اپنے بحری جہاز اتنے بھیج دے کہ ایک جنگ کی فضا نظر آئے پھر تو وہ اٹیک رک سکتا ہے، لیکن روس میرے خیال میں اتنا بڑا Risk مول نہیں لے گا۔ روس یہ کرے گا کہ امریکہ کے اٹیک سے پہلے پہلے شام کو کچھ ہتھیار اور میزائل دے دیدے کہ اگر اٹیک ہو تو شام بھی جواب دے سکے۔ میرے خیال میں اس کا بھی کافی حد تک اچھا اثر ہوگا اور اگر مغربی قوتوں کے کچھ جہاز گرا دیئے جاتے ہیں، ان کا کچھ نقصان ہو جاتا ہے، تو یہ بزدل قومیں وہاں سے بھاگ نکلتی ہیں۔ صورت حال کچھ ایسی ہی بنتی نظر آرہی ہے، اور اگر یہ ہو جاتا ہے تو یہ سب کے لئے مفید ہوگا، کیونکہ امریکہ کو عراق میں بھی منہ کی کھانا پڑی، افغانستان سے بھاگ رہے ہیں۔ لیبیا وغیرہ جہاں بھی گئے ہیں، انہوں نے تباہی پھیلائی ہے لیکن انہیں ان کے مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ تو یہاں بھی انشاء اللہ توقع یہی ہے کہ امریکہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ روس نے S300 میزائل شام کے سپرد کر دیئے ہیں، اور ادھر امریکہ کی سینیٹ کمیٹی نے صرف ہوائی حملوں کی اجازت دی ہے، اس صورت میں کیا شامی دفاعی نظام موثر ثابت ہوسکتا ہے، ایک دفاعی تجزیہ نگار کی حیثیت سے آپ کی کیا رائے ہے۔؟

جنرل (ر) امجد شعیب: روس نے شام کو ایک اعلٰی دفاعی نظام دیا ہے اور مزید کھل کر دے گا، روس نے اپنی انٹیلی جنس کے جہاز بھی شام روانہ کئے ہیں، اس کا شام کی افواج کو فائدہ ہوگا، انہیں دشمن کی بروقت اطلاع مہیا ہوسکے گی، یعنی دشمن کے جہاز اڑ گئے ہیں، آپ تیار ہوجائیں۔ کسی بھی ملک کے دفاعی نظام کو چلانے کے لئے، اسے حملہ آور کے بارے میں انٹیلی جنس انفارمیشن ملنی بڑی ضروری ہے۔ شام کے پاس ذاتی وسائل اتنے نہیں ہیں، اس موقع پر روس اپنے وسائل سمندر میں رکھے گا اور انہیں اطلاع مہیا کرے گا، جس سے لازماً امریکہ میں پریشانی ہے اور وہ اس چیز پر کافی تنقید کر رہے ہیں کہ روس نے شام کو S300 میزائل کیوں دیئے ہیں۔

روس اس صورتحال میں حق بجانب ہے چونکہ اس نے امریکہ کو واضح کہا ہے کہ ہم شام پر حملے کے خلاف ہیں اور اگر آپ ہماری مخالف کے باوجود حملہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو پھر ہمیں بھی حق پہنچتا ہے کہ ہم دوسری سائیڈ کی مدد کریں۔ یہ انتہائی گھمبیر صورتحال پیدا ہوگئی ہے، ایک طرف امریکہ جو اتنی بڑی قوت ہے وہ پسپائی اختیار کرتا ہے، حملہ نہیں کرتا تو اسے شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔ دوسری صورت میں اگر امریکہ حملہ کر دیتا ہے، اس میں اسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو بھی اسے شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ کسی لحاظ سے بہتر ہے کہ عالمی طاقتوں میں سے کم از کم کسی نے تو ساتھ دیا ہے اور جنہوں نے دیا ہے وہ اچھی مضبوط قوتیں ہیں۔ اب اگر امریکہ کو کچھ نقصان ہوتا ہے تو آئندہ وہ ایسی حرکتوں سے باز رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بندر بن سلطان کا روس کے صدر کو یہ کہنا کہ آپ اگر شام کا ساتھ چھوڑ دیں تو ہم ضمانت دیتے ہیں کہ چیچن جانباز روس میں منعقدہ اولمپکس مقابلوں کے موقع پر حملہ آور نہیں ہوں گے، کس بات کی غمازی کرتا ہے۔؟

جنرل (ر) امجد شعیب: ان کا یہ کہنا سراسر حماقت ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ چیچن جانباز جو روس کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، انہیں سعودی عرب پیسہ مہیا کرتا اور مکمل سپورٹ کرتا ہے۔ اب کل کو اگر وہ اولمپکس کے موقع پر حملہ نہیں کرتے لیکن کہیں اور وہ حملہ آور ہو جاتے ہیں تو روس سعودی عریبیہ کو اس کا مورد الزام بھی ٹھہرائے گا اور ہوسکتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے خلاف کوئی ایکشن بھی لے۔ بندر بن سلطان کی ایسی احمقانہ کوشش سے سعودی عرب کو نقصان پہنچے گا۔ روس کو اگر اپنے دفاع کے لئے سعودی عرب کی یقین دہانی درکار ہے تو میرے خیال میں اسے اپنے سپر پاور کے رتبے سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: امریکی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق بندر بن سلطان نے کیمیائی ہتھیار غیر تربیت یافتہ باغیوں کو فراہم کئے، جس سے کئی معصوم جانیں ضائع ہوئیں، اب اس ساری صورتحال کے واضح ہونے کے باوجود امریکہ دنیا کی آنکھوں میں کیوں دھول جھونک رہا ہے۔؟

جنرل (ر) امجد شعیب: یہ شبہ پہلے سے موجود تھا کہ یہ کام باغیوں نے کیا ہے، یہ شام کی سرکاری فوجوں کا کام نہیں ہے۔ یہ ساری حرکت یا تو کسی ملک نے باہر سے کروائی ہے، جیسے سعودی عریبیہ کا نام آرہا ہے۔ اس میں اور بھی کوئی ملک ہوسکتا ہے، امریکہ و اسرائیل بھی ہوسکتے ہیں۔ جو بھی ممالک اس وقت شام کے خلاف باغیوں کی مدد کر رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس کام میں شامل ہوسکتا ہے۔ لیکن ایک چیز جس پر بہت حد تک یقین کیا جا رہا تھا کہ اس معاملہ میں بشار الاسد کی افواج ملوث نہیں ہیں، تو امریکی میڈیا نے پہلے سے بشار الاسد کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کی تائید کی ہے۔

اسلام ٹائمز: ذرائع کے مطابق ایک اسرائیلی وفد واشنگٹن پہنچ چکا ہے اور امریکہ سے التجا کر رہا ہے کہ شام کے خلاف کارروائی کو فی الحال روک دیا جائے، چونکہ اسرائیل پر حزب اللہ کی جانب سے دس ہزار بموں کی بارش متوقع ہے، شام پر حملہ ہونے کی صورت میں حزب اللہ کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟

جنرل (ر) امجد شعیب: حزب اللہ لازماً شامی افواج کے ساتھ مل کر جنگ لڑے گی اور اسرائیل پر حملہ آور ہوگی، جس کا اسرائیل پر کافی دباؤ ہے۔ دراصل یہ سارا کھیل اسرائیل کی بہتری کے لئے کھیلا گیا تھا۔ اسرائیل اور مغربی طاقتوں میں اب یہ سوچ آرہی ہے کہ اگر باغی کامیاب ہوتے ہیں تو باغی اور القاعدہ وہ ہیں جن کے خلاف امریکہ پہلے سے لڑ رہا ہے۔ اگر بشار الاسد کامیاب ہوتا ہے تو بھی اسرائیل کے لیے ناکامی ہے، تو اب اسرائیل یہ دیکھ رہا ہے کہ دونوں صورتوں میں اسے کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ ورنہ امریکہ وغیرہ کی یہی کوشش تھی کہ شام کو اس حد تک کمزور کر دیا جائے کہ وہ اسرائیل کے خلاف حماس و حزب اللہ کی مدد نہ کرسکیں۔ شام میں ایران کے لئے بھی ایک پلیٹ فارم موجود تھا، جہاں سے وہ حماس و حزب اللہ کی مدد کرتے تھے، جس وجہ سے امریکہ شام سے انتقام لینا چاہتا تھا، جو اب اس کے گلے پڑگئی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ جنگ صرف شام تک محدود رہے گی، یا پورا مشرق وسطٰی بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔؟

جنرل (ر) امجد شعیب: یہ جنگ شام تک محدود نہیں رہے، بلکہ اسکے پھیلنے کا خطرہ پورے مڈل ایسٹ میں موجود ہے۔ پورا مشرق وسطٰی خراب ہوگا۔ شام کی اس جنگ میں چند اسلامی ممالک نے بہت گندا کردار ادا کیا ہے جو اس کا خمیازہ بھگتیں گے۔ شام اپنی جگہ مصروف تھا، انہوں نے شام میں تباہی کی اور اب یہ Chain reaction آگے چلے گا، سعودی عرب اور اردن کو بھگتنا پڑے گا، تو ان ممالک نے مشرق وسطٰی کے حق میں اچھا کام نہیں کیا، انہیں اس کا حساب دینا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 299333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش