0
Monday 21 Apr 2014 15:55

’’عوام اپنی حفاظت خود کریں یا سزاء پائیں‘‘ خیبر پختونخوا حکومت کا نیا آرڈیننس

’’عوام اپنی حفاظت خود کریں یا سزاء پائیں‘‘ خیبر پختونخوا حکومت کا نیا آرڈیننس
رپورٹ: ایس اے زیدی

حکومت خیبر پختونخوا نے چند روز قبل ’’خاموشی‘‘ سے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے، جس کا عنوان ہے ''خطرناک اور غیر محفوظ مقامات کے حفاظتی اقدامات کا آرڈیننس"۔ اس قانون کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ''صوبہ خیبر پختونخوا میں حساس اور دوسرے غیر محفوظ اداروں اور مقامات کو سکیورٹی فراہم کرنا''۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آرڈیننس آئینی اعتبار سے ایک مضحکہ خیز دستاویز ہے، اور اس میں تجویز کئے گئے اقدامات آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کے علاوہ ریاست اور حکومت کے جواز پر بھی ایک سوالیہ نشان پیدا کرتے ہیں۔ اس آرڈیننس میں کئی نکات غیر آئینی ہونے کے علاوہ بنیادی انسانی حقوق کیخلاف بھی ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویز کے مطابق اس آرڈیننس میں درج ذیل نکات ہیں۔

٭ آرڈیننس میں لکھا ہے کہ ''چونکہ خیبر پختونخوا کے حساس اور محفوظ اداروں اور مقامات کو تحفظ فراہم کرنا اور دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنا مقصود ہے اور چونکہ اسمبلی کا اجلاس نہیں ہو رہا، اسی لئے اس قانون کو ایک آرڈیننس کی شکل میں پیش کرنا ضروری ہے''۔ اس آرڈیننس کا نام ہوگا۔
The Khyber Pukhtunkhwa Sensitive and Vulnerable Establishment And Places (Security) Ordinance 2014 ۔
(خیبر پختونخوا کے حساس اور غیر محفوظ اداروں اور مقامات کو حفاظت کا آرڈی ننس)
٭ دفعہ (2 ) کے مطابق اس آرڈیننس کی دفعہ 2 میں استعمال ہونے والے الفاظ کی معنی دیئے گئے ہیں، ان میں دو تعریفیں ضروری ہیں۔

(I) ''سیکورٹی انتظامات'' کے معنی ہیں ''موقع پر موجود جسمانی اور تکنیکی انتظامات‘‘۔ جن میں CCTV کیمروں کی فراہمی، بائیو میٹرک سسٹم، واک تھروگیٹس، سکیورٹی الارم اور ماڈرن گجیٹری شامل ہیں''۔
(J) ''حساس ادارے اور مقامات'' میں حساس سرکاری اور غیر سرکاری مقامات، مذہبی مقامات، NGOs کے دفاتر، بیرونی ممالک کے پراجیکٹ کے یا دوسرے دفاتر اور وہ مقامات جن کو حکومت مختلف اوقات میں حساس اور خطرناک قرار دے دے۔
(L) '' غیر محفوظ مقامات’’ میں ہسپتال، بینک، منی چینجرز، سرمایہ کارانہ ادارے، فرم، کمپنیاں، صنعتی یونٹ، تعلیمی ادارے، پبلک پارک، پرائیویٹ کلینک، شادی ہال، پٹرول اور سی این جی پمپ، جیولری کی دکانیں، تھری سٹار اور اس سے اونچے درجے کے ہوٹل، کوئی بھی تفریحی مقام، پبلک ٹرانسپورٹ کے ٹرمینل، اسپیشل بازار، تجارتی مراکز، دکانیں، یا شاپنگ آرکیڈز اور وہ مقامات جن کو حکومت وقتاً وقتاً حساس قرار دے۔

٭ دفعہ (3) ''غیر محفوظ مقامات اور جگہوں کی حفاظتی انتظامات'' کے اس آرڈیننس کے اجراء کے بعد تمام غیر محفوظ اور حساس مقامات و اداروں (جن کی تفصیل دفعہ دو کے سب سیکشن ایل میں دی گئی ہے) کے مالکان اپنے اداروں اور مقامات پر مناسب سکیورٹی اقدامات کرنے کے خود ذمہ دار ہوںگے۔

٭ دفعہ (4) اس قانون پر عملدر آمد حفاظتی انتظامات کی نگرانی کیلئے ہر ضلع میں اے سی کی نگرانی میں ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ جو ایک ڈی ایس پی، ایک سپیشل برانچ کے افسر جو گریڈ 17 سے کم نہ ہو اور ایک ٹیکنیکل ایکسپرٹ پر مشتمل ہوگی۔ اس کمیٹی کا کام یہ ہو گا کہ وہ غیر محفوظ اور حساس مقامات کی نشاندہی کرے۔ مالک یا انتظامیہ کو جب حساس یا غیر محفوظ مقام کی نشاندہی کر لی جائے اس کا فرض ہوگا کہ وہ پندرہ دن کے اندر اپنے ادارے کیلئے حفاظتی انتظامات کر لے ورنہ اس کے بعد وہ سزا کا حقدار ہوگا۔

٭ دفعہ (6,1) خدمات (بجلی، گیس، ٹیلفیون، پانی و صفائی، نکاسی آب، ڈاک وغیرہ) فراہم کرنے والے ادارے یا کمپنی اپنی تنصیبات کی حفاظت کی خود ذمہ دار ہونگی اور خیال رکھیں گی کہ کوئی ان میں مداخلت یا کوئی مشکوک چیز اس کے ساتھ نصب نہ کرے۔

٭ دفعہ (6,2) ضلعی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ سڑکوں اور گلی کوچوں کو تعمیراتی میٹریل سے صاف رکھے، گندگی کے ڈھیروں کی روزانہ کی بنیادوں پر صفائی کرے، مین ہولوں کو بند رکھے، پانی کے ٹوٹے ہوئے پائپوں کو ہٹائے تاکہ اس میں کوئی دھماکہ خیز چیز نہ چھپائی جا سکے۔ اس مقصد کیلئے معائنہ ٹیمیں بنائی جائیں گی۔

اس آرڈیننس پر عمل در آمد میں غفلت برتنے والوں کیلئے آگے دفعہ 12 میں سزاء کی تفصیل دی گئی ہے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 8 میں لکھا ہے کہ ’’کوئی بھی ایسا قانون پاس نہیں کیا جائے گا جو بنیادی حقوق کے خلاف ہو‘‘۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آئین پاکستان نے ریاست اور حکومت کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرے اور اس مقصد کیلئے وہ عوام سے مختلف قسم کے ٹیکس وصول کرتی ہے۔ ان ٹیکسوں سے وہ ملکی سرحدوں اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کیلئے فوج اور پولیس سمیت بہت سے سکیورٹی کے ادارے قائم کرتی ہے۔ اب اگر یہ ذمہ داری ہر شہری کی قرار دی جائے کہ وہ خود اپنی جان و مال، گھر اور دفتر یا جائیداد کی حفاظت کا ذمہ دار ہو گا تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریاست اور حکومت کیا کریگی؟

اس آرڈیننس کے مطابق تو پولیس کا بس یہ کام ہے کہ وہ کسی شہری کو اطلاع دے کہ تمہارا گھر، دفتر یا دکان حساس اور غیر محفوظ ہے بس اس کی ڈیوٹی ختم، اب اگر کچھ ہوا تو اس شریف شہری کو ایک سال قید اور 40 ہزار کا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔؟ کیا اس قانون کے بعد حکمران بھی اپنے گھروں اور دفتروں کی حفاظت کے خود ذمہ دار ہونگے۔؟ یا عوام کی خفاظت کیلئے بنائی گئی پولیس فورس وزراء اور لیڈروں کے بنگلوں اور حجروں کی حفاظت ہی کرتی رہے گی۔؟ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہر شہری کے جان و مال، آزادی، پیشہ، عبادت گاہوں، کا تحفظ کرنا ہوتا ہے، یہ ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہوتی ہے کہ وہ امن و امان کو بحال رکھے اور شہریوں کو تحفظ کا احساس دلائے، جب کہ یہ آرڈیننس حکومت کی ان ذمہ داریوں اور ایک فلاحی ریاست کے فرائض کو نظر انداز کر رہا ہے۔

جبکہ اس آرڈیننس کے ذریعے عام شہریوں پر یہ بوجھ ڈالا گیا ہے کہ وہ دہشتگردی کی کارروائیوں کو روکیں اور اپنے حساس اور غیر محفوظ مقامات اور کاروباری اداروں کی حفاظت کا انتظام کریں۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ہر ادارے میں عجیب عجیب تجربے کر رہی ہے۔ آخر ایک فرد CCTV، واک تھروگیٹ اور بائیو میٹرک حفاظتی انتظامات جیسا انتہائی مہنگا اور قیمتی ساز و سامان کیسے خریدے گا۔؟ مارکیٹ میں یہ ایک عام افواہ ہے کہ چونکہ چین کی ایک کمپنی یہ سامان پاکستان میں در آمد کریگی اور اس کمپنی سے حکمران پارٹی کے ایک رہنماء کی شراکت داری ہے۔ اسی لئے یہ آرڈیننس لایا گیا ہے۔ اس دور میں تو حجام اور ویڈیو کی چھوٹی سی دکان بھی حساس اور غیر محفوظ ہے۔ آخر بے چارے عوام نے کیا گناہ کیا ہے سوائے تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے۔
خبر کا کوڈ : 374933
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش