1
0
Sunday 31 Aug 2014 18:52

مفتی جعفر حسین (مرحوم) تاریخ کے آئینہ میں

مفتی جعفر حسین (مرحوم) تاریخ کے آئینہ میں
تحریر: توقیر ساجد تقی
 
گوجرانوالہ میں حکیم غلام حیدر کے گھر میں ملت تشیع کے عظیم رہنماء جعفر حسین کی 1904ء میں پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ لکھنوء چلے گئے، وہاں پر 9 سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1935ء میں نجف اشرف تشریف لے گئے۔ آپ کے کردار کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار قبلہ علی نقی صاحب نے بے ساختہ کہا جعفر پنجاب کا روشن چراغ ہے۔ وہ وقت ضرور آئے گا، جب اسکی روشنی دور دور تک پھیل جائے گی۔ ہمیں اس سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ ملت کی امیدوں کا محور جعفر حسین حجتہ الاسلام جعفر حسین بن کر واپس وطن لوٹا اور درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔

مرحوم مفتی جعفر حسین اسلامی نظریاتی کونسل اور اسلامی مشاورتی کونسل کے دو مرتبہ رکن منتخب ہوئے 1950ء میں پاکستان کا اسلامی آئین وضع کرنے کا مطالبہ سامنے آیا تو ملک بھر سے 31 علماء کرام کراچی میں اکٹھے ہوئے جو مختلف مسالک کی نمائندگی کر رہے تھے، ان میں میں مفتی جعفر حسین علامہ کفایت حسین اہل تشیع کی طرف سے شامل تھے، انہوں نے اسلامی آئین کے 22 نکات متفقہ طور پر طے کئے، جسے آج تک کسی اسلامی فرقہ نے نہیں جھٹلایا۔
 
1979ء میں آل پاکستان شیعہ کنونشن میں ہوا، جس میں متفقہ طور پر آپکو قائد ملت جعفریہ کا خطاب دیا گیا۔ اس خطاب کا خیر مقدم فلک شگاف نعروں ایک ہی قائد ایک ہی رہبر مفتی جعفر، مفتی جعفر سے ہوا۔ وہاں آپ نے حکومت کو شیعہ مطالبات پیش کئے، جن میں نفاذ فقہ جعفریہ کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ آپ نے اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہونے کی حیثیت سے حکومت کو 30 اپریل 1979ء تک کی مہلت دی، مطالبہ پورا نہ ہونے پر حکومت سے مستعفی ہوگئے، حکومت نے آپکا استعفٰی منظور نہ کیا اور تنخواہ بھیجتی رہی، آپ نے یہ کہہ کر یہ رقم واپس کر دی کہ جب میں کوئی کام نہیں کرتا تو تنخواہ کس بات کی لوں، اس کے باوجود تین برس تک آپکی نشست پر کسی اور کو نامزد نہ کیا گیا۔
 
30 جون کو حکومت نے زکواۃ آرڈیننس کا اعلان کیا، جس میں ملت جعفریہ کے نقطہ نظر کو نظر اندز کیا گیا تھا، اس سلسلہ میں آپ نے 5 جولائی کو اسلام آباد میں ملک گیر کنونشن کے انعقاد کا اعلان کیا، اس کنونشن میں ملک بھر سے لاکھوں محبان وطن نے شرکت کی، کنونشن کی صدارت مرحوم مفتی جعفر حسین نے کی، حکومت سے مذاکرات ناکام ہوئے تو ہاکی گراؤنڈ میں موجود لوگوں کو حکم دیا کہ تمام لوگ سول سیکرٹریٹ کی طرف پرامن مارچ کریں، بالآخر تمام دن حکومت سے مذاکرات کے بعد حکومت اس بات پر راضی ہوگئی، کہ زکواۃ آرڈیننس میں فقہ جعفریہ کے متعلق ترمییم کیجائے گی اور جو آئندہ اسلامی قانون بنے گا، اس میں فقہ جعفریہ کا خیال رکھا جائے گا۔ یوں مفتی جعفر حسین کی بابصیرت قیادت نے ظالم آمر حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

مفتی جعفر حسین کی علمی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، آپ نے چند اہم مذہبی کتب کا ترجمہ و تشریح کی، جس میں نہج البلاغہ صحیفہ کاملہ سیرت امیرالمومنین (ع) قابل ذکر ہیں۔ نہج البلاغہ علوم و معارف کا ایک گہرا سمندر ہے، اسی طرح اسکا ترجمہ جس میں اسکی روح بھی باقی رہے، یہ خاصہ مفتی جعفر حسین کا ہی تھا، مفتی مرحوم کو ادب سے بھی بہت دلچسپی تھی، اسی بنا پر جوش مرحوم سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے تھے۔ مفتی مرحوم کی سادگی ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکی ہے کہ وہ اپنی ذات پر کم از کم صرف کرتے تھے، لباس انتہائی سادہ، خوراک سادہ تھی، دورہ جات کے دوران سواری کیلئے عام بس کا انتخاب کرتے تھے۔ راستے میں اگر کہیں کھانے کا وقت ہوتا تو ایک نان اور دو پکوڑوں پر اکتفا کر لیتے تھے۔ انکا گھر انتہائی سادگی کے ساتھ آراستہ تھا اور ایک انتہائی اہم بات وہ اپنی ذاتی ضروریات کے لئے سوال کرنے کی بجائے صبر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور تکلیف آنے پہ برداشت کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ گویا اس دور میں تعلیمات محمد و آل محمد (ص) کے امین کی کوئی چلتی پھرتی شکل نظر آتے تھے۔ وہ مفتی جعفر حسین تھے جبکہ صفدر حسین نجفی مرحوم کا معروف قول ہے کی مفتی مرحوم انتہائی ملنسار، بااخلاق اور خوش مزاج اور سادگی پسند تھے۔

آپ کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا رہنے کے بعد 29 اگست کو انتقال کرگئے، آپکی وفات کے بعد آپکے گاؤں کی ایک نیک پارسا خاتون آپکے داماد کے پاس تشریف لائی اور کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک میدان ہے اور اس میدان میں کچھ نوجوان ہیں، ان نوجوانوں میں ایک دراز قد نوجوان بھی موجود ہے، میں نے ان سے سے دریافت کیا یہ کیا ماجرا ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ نوجوان حضرت داؤد (ع) ہیں اور تمہیں نہیں معلوم کہ مفتی جعفر حسین آرہا ہے اور اس کے بعد خواب پورا ہوگیا۔ علامہ صفدر حسین نجفی نے خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا کہ مفتی صاحب نے جو زبور آل محمد (ص) صحیفہ کاملہ ترتیب تھی وہ خدا کی بارگاہ میں قبول ہوگئی ہے، اس لئے خواب میں حضرت دادؤ (ع) نے استقبال کیا کیونکہ زبور حضرت دادؤ (ع) سے منسوب ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی مفتی جعفر حسین مرحوم کی ملت پاکستان کی لئے آخری وصیت اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی تلقین تھی، جس کے لئے موجوہ دور میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ آخر میں مفتی صاحب کا پسندیدہ شعر حاضر خدمت ہے۔ 
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا   
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
خبر کا کوڈ : 407233
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شکریہ، اللہ آپ کو اور برادر ارشاد حسین ناصر کو اجر عظیم عطا فرمائے کہ آپ صاحبان نے محسن امت اسلام ناب در پاکستان کی خدمات پر قلم اٹھایا۔ ضرورت ہے کہ بانی پاکستان نے مفتی صاحب سے جو مدد طلب کی، اس کو تفصیلی طور پر لکھا جائے۔
عرفان علی
ہماری پیشکش