0
Tuesday 13 Dec 2011 01:32

بحرین کا آنکھوں دیکھا حال

بحرین کا آنکھوں دیکھا حال
 تحریر:عشرت لودھی 

ایک عظیم مفکر کا قول ہے کہ "جس شہر میں روٹی مزدور کی اجرت سے مہنگی ہو اس شہر میں غیرتِ انسانی اور عصمتِ مستور سستی ہو جاتی ہے۔ آج وطن عزیز کے حالات بھی کچھ ایسی ہی سمت جا رہے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور غیر یقینی حالات نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ہر عام آدمی اپنے اندر مصائب و الم کی داستان چھپائے بیٹھا ہے۔ کچھ ایسی ہی داستان میری بھی ہے جس میں میرے معصوم بچوں کی ادھوری خواہشات، میری شریک حیات کا چہرہ جس پر وقت نے وقت سے پہلے ہی ایسی لکیریں کھینچ دیں جو بڑھاپے کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ میری بیمار والدہ جس نے کبھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ اس کی دوائی کو ختم ہوئے ہفتوں گزر چکے ہیں۔ یہی چند لوگ میرا اثاثہ بھی اور کل کائنات بھی۔ گھر سے باہر ایسے لوگوں کا ہجوم جو مجبوریوں کے بیوپاری کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ چہرے پر ہمدردی اور ہونٹوں پر منافقانہ مسکراہٹ سجائے یہ لوگ اپنے گھروں کے فانوس جلانے کیلئے کسی بھی جھونپڑے کا دیا بجھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ غربت و تنگدستی سے تنگ آ کر میں نے ملک سے باہر جا کر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔
ایک جاننے والے نے مجھے بتایا کہ جلدی سے تین لاکھ روپے کا انتظام کرو اور راولپنڈی میں فوجی فائونڈیشن میں نعیم چوہان سے جا کر ملو ساتھ میں ضروری کاغذات اور 12 تصاویر بھی لیکر جانا۔ اس نے مجھے فوجی فائونڈیشن کا ایڈریس، فون نمبر اور نعیم چوہان کا موبائل نمبر دیا۔ میں نے والدہ سے مکان کے کاغذات حاصل کئے اور حاجی صاحب سے سود پر قرض لیکر راولپنڈی کا رخ کیا۔ فوجی فائونڈیشن کا دفتر یا نعیم چوہان سے ملاقات کرنے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ سکول دور میں حاصل کئے ہوئے سکائوٹ، جانباز ٹریننگ والے سرٹیفکیٹس اس موقع پر میرے بڑے کام آئے۔ خیر 21 جنوری 2011ء کو ہم 130 افراد اسلام آباد سے بحرین کی طرف بذریعہ امارات ائیر لائن محو پرواز تھے میرے سوا تقریباً سارے بندے فوج سے حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ بحرین کے متعلق میرے ذہن میں جو اسلامی اقدار و کلچر کی ایک تصویر بنی ہوئی تھی بحرین اس سے قدرے مختلف تھا۔ ہمیں پک کرنے کیلئے سکیورٹی ایجنسی کی ویگن ائیرپورٹ پر پہلے سے ہی موجود تھی۔ منامہ کا ائیرپورٹ گرچہ جدید سہولیات سے مزین ہے مگر ہر چیز پر اسلامی کے بجائے مغربی رنگ غالب نظر آتا ہے۔
سکیورٹی ایجنسی کا مرکزی آفس منامہ سکوائر میں تیسرے اور چوتھے فلور پر تھا۔ یہاں ہمارے کاغذات کی دوبارہ جانچ پڑتال ہوئی اور ہمارے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے مختلف اوقات میں پہنچنے والے دیگر افراد کو مختلف گروپس میں تقسیم کرکے کوڈ نمبرز الاٹ کئے گئے۔ رات کو ایک مختصر سی بریفنگ ہوئی جس میں بحرین پولیس کا افسر انگریزی میں لیکچر دیتا رہا۔ بعد میں مترجم نے بتایا کہ آپ لوگوں کو ہر قسم کی مراعات حاصل ہیں۔ بحرین میں حکومت کے خلاف چند شر پسند حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں آپ لوگوں کی ڈیوٹی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ اتنا سخت ردعمل اپنائیں کہ بحرین میں ہر شخص کے دل میں قانون اور پولیس کا اتنا خوف بیٹھ جائے کہ کوئی بھی بندہ اپنے گھر میں بھی حکومت کے خلاف بات کرنے کی جرأت نہ کرے۔
ایک ہفتہ ڈیوٹی معمول کے مطابق رہی مگر ایک ہفتہ کے بعد اچانک ہمیں رات کو تیار ہونے کا حکم ملا۔ ہم لوگ اس غیرمعمولی حکم پر تھوڑا سا گھبرائے، تیار ہونے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ بحرین پولیس کی سربراہی میں ہمیں ایک علاقہ کے سرچ آپریشن میں حصہ لینا ہے۔ ہماری سکیورٹی کمپنی کے بندوں کو 4,4 کے گروپ میں تقسیم کرکے مختلف پوائنٹس پر تعینات کیا گیا اور سختی سے حکم ملا کہ کوئی بھی انسان بھاگنے کی کوشش کرتا ہوا دکھائی دے تو بلاجھجک اس کو نشانہ بنانا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد فورسز کے مسلح جوان چادر و چار دیواری کا لحاظ کئے بنا گھروں میں گھسے اور چیخ و پکار سے پورا علاقہ گونج اٹھا۔ خواتین، مرد، بوڑھے بچے بلا امتیاز یکے بعد دیگر ے گھروں سے باہر لائے جا رہے تھے اور پس و پیش کرنے پر انھیں بلا تامل تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ پولیس اور سکیورٹی کے مسلح جوانوں سے بچنے کیلئے جو لڑکے چھپ چھپا کر بھاگ رہے تھے ان کو گولیوں سے نشانہ بنایا جاتا۔ جس وقت گرفتار ہونے والوں کو لیکر قیدیوں کی بس روانہ ہو رہی تھی تو خواتین کی آہ و فریاد سے دل پر غم کے ہتھوڑے برس رہے تھے۔ اپنے آفس واپس آنے پر ہم لوگوں کا اسلحہ چیک کیا گیا جن افراد کی گولیاں پوری تھیں ان کو باقاعدہ وارننگ جاری کی گئی کہ تم لوگ یہاں چھٹیاں منانے نہیں آئے۔ 
ہمارے گروپ میں نصیر احمد جو راولپنڈی سے ہی تعلق رکھتا تھا اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ سر ہم یہاں محافظ بن کر آئے ہیں قاتل بننے کیلئے نہیں۔ ان لوگوں کا کیا قصور ہے کہ آپ لوگ ہمیں کیوں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم ان پر فائرنگ کریں۔ دوسرے دن پتہ چلا کہ نصیر احمد کو پاکستان واپس بھیج دیا گیا ہے یہاں کے حالات کو سمجھنے میں مجھے چند دن لگے اور حالات سمجھ میں آ جانے کے بعد میں بڑی تلخ یادیں لئے دبئی کے راستے پاکستان آیا۔ عیسیٰ الخلیفہ نے 1975ء میں بحرین کا آئین معطل کر کے خودساختہ غیر جمہوری اور غیر اسلامی آئین تشکیل دیا۔ عیسیٰ الخلیفہ کے بعد اب ان کا بیٹا 1999ء سے ملک کا حاکم اور بارہ لاکھ نفوس کی آبادی کی تقدیر کا مالک بنا ہوا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور یورپ کا اثر و رسوخ بحرین پر نمایاں ہے۔ برطانوی کمپنیاں بحرین کی معیشت پر پوری طرح چھائی ہوئی ہیں۔ سمندری آب و ہوا کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی انسانی صحت پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ (جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 121735
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش