0
Monday 14 Apr 2014 06:10

پاکستان ایران تعلقات تناﺅ کا شکار

پاکستان ایران تعلقات تناﺅ کا شکار
تحریر: قیوم نظامی

پاکستان اور ایران کے تعلقات روایتی طور پر برادرانہ اور خوشگوار رہے ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک ایران تھا۔ قائداعظم نے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی بنیاد رکھی۔ ایران میں پاکستان کا سفارتخانہ قائم کیا۔ غضنفر علی خان پاکستان کے پہلے سفیر نامزد ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان مالی مشکلات کا شکار تھا۔ ایران نے قائداعظم ریلیف فنڈ کے لیے قابل ذکر تعاون کیا۔ اپریل 1948ء میں ایران کے ممتاز صحافیوں نے پاکستان کا دورہ کیا، قائداعظم نے ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا اور ان کو عالم اسلام کے اتحاد کے لیے کام کرنے کی تلقین کی۔ پاک ایران سرحد 1200 کلو میٹر طویل ہے جو ہمیشہ پرسکون رہی ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران جب امریکہ نے اسلحہ کی ترسیل بند کردی اس مشکل گھڑی میں ایران نے پاکستان کی مدد کی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بلوچستان کے علیحدگی پسندوں نے بغاوت کر دی، جس کو کچلنے کے لیے ایران کے ہیلی کاپٹروں نے پاک فوج کی مدد کی۔ پاکستان، ایران اور ترکی آرسی ڈی میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے۔ نائین الیون کے بعد افغانستان کے مسئلے پر پاکستان اور ایران کی پالیسی مختلف رہی۔ ایران نے ناردرن الائینس اور پاکستان نے طالبان سے تعاون کیا، جب پاکستان نے چین کے تعاون سے گوادر پورٹ کی تعمیر کا فیصلہ کیا تو ایران کو تجارتی مفادات خطرے میں دکھائی دئیے، اس نے اپنی بندرگاہ چاہ بہار کی توسیع کا فیصلہ کیا۔ بھارت نے ایرانی بندرگاہ میں بھاری سرمایہ کاری کا آغاز کیا اور چاہ بہار سے کابل تک موٹر وے تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات اس حد تک خوشگوار رہے کہ دونوں ملکوں نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر اتفاق کرلیا۔ صدر زرداری اور صدر احمدی نژاد نے اس منصوبے کا مشترکہ سنگ بنیاد رکھا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق صدر زرداری کا یہ اقدام سیاسی چال تھا، ان کو علم تھا کہ امریکہ یہ منصوبہ مکمل نہیں ہونے دے گا۔

میاں نواز شریف کے سعودی خاندان کے ساتھ تعلقات بڑے گہرے ہیں۔ سعودی خاندان نواز شریف کا محسن ہے، نہ صرف ان کی جان بچائی بلکہ سات سال شریف خاندان کو سعودی عرب میں پورے پروٹوکول کے ساتھ رکھا۔ پرنس الولید بن طلال نے وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ”نواز شریف پاکستان میں سعودی عرب کا آدمی ہے۔“ میاں نواز شریف نے بھی ”سرور محبت“ میں خارجہ پالیسی کے روایتی توازن کو نظر انداز کرتے ہوئے سعودی خاندان سے برملا عشق کا اظہار شروع کر دیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کی خوشنودی کے لیے ایران کے ساتھ سرد مہری شروع کر دی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو سفارتکاری سے حل کرنے کی بجائے اس پر طفلانہ موقف اختیار کیا گیا۔ وفاقی وزراء متضاد اور احمقانہ بیانات جاری کرتے رہے۔ ایران نے ان بیانات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعودالفیصل اور ڈپٹی وزیر دفاع سلمان بن سلطان کے پاکستانی دورے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سعودی عرب کے دورے نے ایران کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ان دوروں میں اسلحہ کی فروخت اور شام میں عبوری حکومت کے قیام کے بیانات سامنے آئے۔ 1.5 بلین ڈالر کے پراسرار ”سعودی تحفے“ نے اندرونی اور بیرونی سطح پر ارتعاش پیدا کیا۔ اسلحہ کی فروخت کے سلسلے میں عالمی شرائط کو گفتگو کا حصہ نہ بنایا گیا۔ اگر پاکستان کا وزیر خارجہ ہوتا تو وہ تہران کا دورہ کرکے ایران قیادت کو اعتماد میں لیتا، مگر حکومت جب بادشاہت کی طرز پر چلائی جائے تو ریاست کے اہم ادارے غیر فعال اور غیر متحرک ہو کررہ جاتے ہیں۔

جیش العدل نے ایران کے سکیورٹی گارڈز اغوا کرلیے۔ ایران کی قیادت آگاہ ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس ناسور پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، لہذا حکومت سکیورٹی گارڈز کے اغوا میں ملوث نہیں ہوسکتی، مگر نومنتخب حکمران چونکہ عاقبت نااندیشانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے ہمسایہ ایران کو ناراض کرچکے تھے، اس لیے ایرانی قیادت نے سکیورٹی گارڈز کے اغوا کی ذمے داری پاکستان پر ڈال دی، بلکہ اشتعال انگیز بیان جاری کرتے ہوئے پاک سرزمین کے اندر گھس کر اغوا کاروں کے تعاقب کی دھمکی دے دی۔ بلوچستان کے زیرک اور دانشمند وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک نے پاک ایران تعلقات کی بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے سکیورٹی گارڈز رہا ہوکر اپنے گھروں میں واپس پہنچ چکے ہیں۔ ایف سی بلوچستان کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کو سکیورٹی گارڈ اپنے ہی علاقے میں ملے، اگر یہ خبر درست ہے تو ایران کو حکومت پاکستان سے معذرت کرنی چاہیئے مگر جب تک ایران کی ناراضگی ختم نہیں ہوجاتی وہ کبھی معذرت نہیں کرے گا بلکہ اس نے تو ایک مغوی گارڈ کے قتل کی ذمے داری بھی پاکستان پر ڈال دی ہے جو افسوسناک ہے۔
 
پاکستان کے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ افواج پاکستان ان ملکوں کی سرحدوں پر تعینات ہیں، اگر ایران کی سرحد پر کشیدگی بڑھ گئی تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔ بلوچستان میں پہلے ہی آزادی کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے ایران کے دورے کا پروگرام تشکیل دیا جا رہا ہے، تاکہ ایرانی عوام اور قیادت کے خدشات اور تحفظات کو دور کیا جاسکے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی بناء پر دورے کا شیڈول طے نہیں ہو رہا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے پاکستان کے ساتھ سکیورٹی معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔ دونوں ملک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایران اور پاکستان کی افواج مشترکہ مشقیں بھی شروع کر رہی ہیں۔

محب الوطن عوام پاکستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کے بارے میں اپنے دکھ اور کرب کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ اور سنی صدیوں سے بڑی محبت اور رواداری سے زندگی بسر کر رہے ہیں، مگر اب بیرونی ہاتھ اپنے مذموم مقاصد کے لیے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر ان کا مقابلہ نہ کیا گیا تو پاکستان خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔ منتخب حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان بیرونی ہاتھوں کو روکے جو پاکستان کے اندر فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کے لیے فنڈنگ کر رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کا بھی قومی فرض ہے کہ وہ فرقہ واریت میں ملوث عناصر پر کڑی نظر رکھے، تاکہ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی کی فضا قائم رہے۔ ایران اور سعودی عرب پاکستان کے قابل اعتماد برادر ملک ہیں، جن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بڑے خوشگوار اور دوستانہ رہے ہیں۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے، جس کی ناراضگی قومی مفادات کے منافی ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا محسن اور مشکل گھڑی کا ساتھی ہے، اس کی ناراضگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ میاں نواز شریف اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے دونوں برادر اسلامی ملکوں کے درمیان کشیدگی کو ختم کرانے کی کوشش کریں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھا ہے۔ اس روایتی پالیسی پر عملدرآمد جاری رہنا چاہیئے۔ پاکستان کو کسی دوسرے ملک میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ اُمید ہے کہ وزیراعظم پاکستان اولین فرصت میں ایران کا دورہ کرکے ایرانی قیادت کو اعتماد میں لیں گے۔ پاکستان کسی صورت شیعہ سنی اختلافات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 372566
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش