3
0
Monday 10 Nov 2014 12:30

علامہ اقبال کے چند اہم خطوط سے اقتباس

علامہ اقبال کے چند اہم خطوط سے اقتباس
ترتیب: سید اسد عباس تقوی
 
اپنی شاعری کے حوالے سے نظر:
شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمع نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس اس بات کو مدنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیا عجب کہ آیندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں۔ اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاری چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لیے ممکن نہیں۔
(مکتوب اقبال بنام سید سلیمان ندوی، ۱۰ اکتوبر، ۱۹۱۹ء)

بیداری امت و اقبال:
آپ کا حسن زن میری نسبت بہت بڑھ گیا ہے حقیقت میں، میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی نسبت دنیائے شاعری سے کچھ بھی نہیں اور نہ کبھی میں نے (SERIOUSLY) اس طرف توجہ کی ہے۔ بہرحال آپ کی عنایت کا شکر گزار ہوں۔ باقی رہا یہ امر کو موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہیئے۔ اس کے متعلق کیا عرض کروں مقصود تو بیداری سے تھا۔ اگر بیداری ہندوستان کی تاریخ میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اس کا ملال نہیں لیکن آپ کے اس ریمارک سے بہت تعجب ہوا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بات کا شاید کسی کو احساس نہیں۔ مولوی ابو الکلام صاحب آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمد علی، شوکت علی اور میری طرف اشارہ کیا ہے ان سے میرے اس خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے لیکن اگر کسی کو بھی اس کا احساس نہ ہو تو مجھے اس کا رنج نہیں کیونکہ اس معاملہ میں خدا کے فضل و کرم سے بالکل بےغرض ہوں۔
(مکتوب اقبال بنام عشرت رحمانی، ۳۰ اگست ۱۹۲۱ء)

سوشلرزم و روحانیت اقبال کی نظر میں:
سوشلزم کے معترف ہر جگہ روحانیات کے مذہب کے مخالف ہیں اور اسے افیون تصور کرتے ہیں۔ لفظ افیون اس ضمن میں سب سے پہلے کارل مارکس نے استعمال کیا تھا۔ میں مسلمان ہوں اور انشاء اللہ مسلمان مروں گا۔ میرے نزدیک تاریخ انسانی کی مادی تعبیر سرا سر غلط ہے۔ روحانیت کا میں قائل ہوں۔ مگر روحانیت کے قرآنی مفہوم کا جس کی تشریح میں نے ان تحریروں میں جا بجا کی ہے اور سب سے بڑھ کر اس فارسی مثنوی میں جو آپ کو عنقریب ملے گی۔ جو روحانیت میرے نزدیک مغضب ہے یعنی افیونی خواص رکھتی ہے اس کی تردید میں نے جا بجا کی ہے۔ باقی رہا سوشلزم، سو اسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے جس سے مسلمان سوسائٹی نے آج تک بہت کم فائدہ اٹھایا ہے۔
(مکتوب اقبال بنام خواجہ غلام السیدین، ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۶ء)

مسلمان محمدیت کا وارث ہے:
پھر’’مسلم‘‘ جو حامل ہے محمدیت کا اور وارث ہے موسویت و ابراہیمیت کا کیونکر کسی ’’شے‘‘ میں جذب ہو سکتا ہے؟ البتہ اس زمان و مکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے اور اس کی قوت جاذبہ بھی ذاتی اور فطری نہیں بلکہ مستعار ہے ایک کف پا سے جس نے اس ریگستان کے چمکتے ہوئے ذروں کو کبھی پامال کیا تھا۔
(اقبال بنام مولانا گرامی ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۸ء)

شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں:
شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں۔ اس جانور میں اسلامی فقہ کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں (۱) خوددار اور غیرتمند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔(۲) بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا (۳) بلند پرواز ہے(۴) خلوت پسند ہے (۵) تیز نگاہ ہے۔
(مکتوب اقبال، بنام ظفر علی صدیقی، ۱۲ دسمبر ۱۹۳۶ء)

فارسی نظموں کا مقصد اقبال کی نگاہ میں:
میری فارسی نظموں کا مقصود اسلام کی وکالت نہیں بلکہ میری قوت طلب و جستجو تو صرف اس چیز پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشی نظام تلاش کیا جائے اور عقلاً یہ ناممکن ہوتا ہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشرتی نظام سے قطع نظر کر لیا جائے جس کا مقصد وحید ذات پات، رتبہ و درجہ، رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دینا ہے۔ اسلام دنیاوی معاملات کے باب میں نہایت ژرفِ نگاہ بھی ہے اور پھر انسان میں بےنفسی اور دنیوی لذائذ و نعم کے ایثار کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے اور حسن معاملت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے ہمسایوں کے بارے میں اسی قسم کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یورپ اس گنج گراں مایہ سے محروم ہے اور یہ متاع اسے ہمارے ہی فیض صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے۔
(مکتوب اقبال بنام ڈاکٹر نکلس)

دنیا میں آنے والی تبدیلیوں پر اقبال کی نظر:
دنیا اس وقت بڑی کشمکش میں ہے۔ جمہوریت فنا ہو رہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہو رہی ہے۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف پھر ایک جہاد عظیم ہو رہا ہے۔ تہذیب و تمدن (بالخصوص یورپ میں) بھی حالت نزع میں ہے۔ غرضیکہ نظام عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہو سکتا ہے۔ اس مبحث پر اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیے اور اگر کوئی کتابیں ایسی ہوں جس کا مطالعہ اس ضمن میں مفید ہو تو ان کے ناموں سے آگاہ فرمائیے۔
(مکتوب اقبال بنام سید سلیمان ندوی، ۱۵ جنوری، ۱۹۳۴ء)

مسلم لیگ کو عوام کی حالت زار پر توجہ دینی ہوگی:

مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا مسلم لیگ، مسلمانوں کے امیر طبقے کی نمائندگی کرے گی یا پھر برصغیر کے غریب مسلمانوں کی آواز بنے گی جبکہ اب تک مسلم لیگ میں نہ ان کی نمائندگی ہے اور عوام نے اس میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں لی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ کوئی بھی سیاسی تنظیم جو ایک عام آدمی کی حالت بہتر کرنے کا وعدہ نہیں کرتی ہے اسے عوامی امداد اور رعایت حاصل نہیں ہوتی ہے۔
(مکتوب اقبال بنام محمد علی جناح، ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء)

عام مسلمان کی حالت سدھارنے کی کوشش:
نئے آئین کے تحت بڑی بڑی آسامیاں، اُمراء کے بیٹوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔ ان سے نچلی درجے کی آسامیوں پر ان کے رشتہ دار اور دوست متعین ہو جاتے ہیں۔ اس طرح دوسرے معاملات میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے عام مسلمان کی حالت سدھارنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ روٹی کا مسئلہ دن بدن مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اور مسلمان تو یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ گذشتہ دو سو برس سے ان کی قسمت کا ستارہ تنزل کی جانب گرتا چلا جارہا ہے۔
(مکتوب اقبال بنام محمد علی جناح، ۲۸ مئی ۳۷ ء)

زندہ زبان کیا ہوتی ہے؟
زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہیئے۔
(مکتوب اقبال، بنام سردار عبدالرب خاں نشتر، ۱۹ اگست ۱۹۲۳ء)

سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ مسلم لیگ کے پورے مستقبل کا انحصار اسی سوال کے مثبت جواب پر ہے۔ اگر مسلم لیگ کوئی ایسا وعدہ نہیں کرتی تو مجھے یقین ہے کہ برصغیر کے مسلمان پہلے کی طرح مسلم لیگ سے لاتعلق رہیں گے۔ مقام مسرت یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے باعث، اس مسئلے کا حل اور جدید خیالات کی روشنی میں اس کے فروغ کے اسباب متوقع ہیں۔ طویل اور سنجیدہ مطالعے کے بعد، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قوانین کو صحیح طریقے پر سمجھا اور ان پر عمل بھی کیا جائے تو پھر ہر شخص کی بنیادی ضرورتیں قانونی طور پر پوری ہو جاتی ہیں۔
(مکتوب اقبال، بنام محمد علی جناح، ۲۸ مئی ۳۷ ء)

کتاب کا مفہوم میری ذاتی رائے تصور کیا جائے جو ممکن ہے غلط ہو
میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے البتہ فرصت کے اوقات میں، میں اس بات کی کوشش کیا کرتا ہوں کہ ان معلومات میں اضافہ ہو۔ یہ بات زیادہ تر ذاتی اطمینان کے لیے ہے نہ تعلیم و تعلم کی غرض سے۔ کچھ مدت ہوئی میں نے اجتہاد پر ایک مضمون لکھا تھا لیکن دوران تحریر میں اس کا احساس ہوا کہ یہ مضمون اس قدر آسان نہیں، جیسے میں نے اسے ابتدا میں تصور کیا تھا۔ اس پر تفصیل سے بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورت میں وہ مضمون اس قابل نہیں کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں کیونکہ بہت سی باتیں جن کو مفصل لکھنے کی ضرورت ہے اس مضمون میں نہایت مختصر طور پر محض اشارۃً بیان کی گئی ہیں یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے آج تک شائع نہیں کیا۔ اب میں انشاءاللہ اسے ایک کتاب کی صورت میں منتقل کرنے کی کوشش کروں گا جس کا عنوان یہ ہوگا (ISLAM AS I UNDERSTAND IT) اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ کتاب کا مفہوم میری ذاتی رائے تصور کیا جائے، جو ممکن ہے غلط ہو۔
(مکتوب اقبال، بنام پروفیسر صوفی غلام مصطفی تبسم، ۲ ستمبر ۱۹۲۵ء)

صوفی اکبر مرحوم اقبال کی نظر میں:
اکبر مرحوم بےنظیر آدمی تھے۔ وہ اپنے رنگ کے پہلے اور آخری شاعر تھے مگر شاعری کو چھوڑ کر ان کا پایہ روحانیت میں کم بلند نہ تھا۔ اس بات کی خبر شاید ان کے عزیزوں کو بھی نہ تھی یوں تو کئی سالوں سے ان کے وقت کا بیشتر حصہ قرآن پڑھنے میں گزرتا تھا اور ان کی زندگی رفیق اعلٰی سے ملنے کے لیے ایک تڑپ تھی۔ مگر گذشتہ دوسال سے تو وہ موت کے بہت متمنی تھے۔ کوئی خط ایسا مشکل سے ہوگا جس میں انھوں نے اس خواہش کا اظہار نہ کیا ہو۔۔۔۔ایک انگریز مصنف لکھتا ہے کہ جوں جوں ہماری عمر بڑھتی ہے، زندگی سے محبت زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ طویل العمری میں عروس حیات سے ہمارا اختلاط بڑھتا رہتا ہے اور اختلاط کا نتیجہ انس ہے۔۔۔۔ بہرحال وجہ خواہ کچھ بھی ہو میں نے تو یہ کلیہ صوفی اکبر مرحوم کی صورت میں صحیح نہ پایا۔ خدا ان کو غریق رحمت کرے مسلمانان ہند کو اپنے اس نقصان کا شاید پورا احساس نہیں ہے۔
(اقبال بنام مولانا گرامی، ۱۶ ستمبر۲۱ ع)

مثنوی رومی سے گرمی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہیئے:
آپ اسلام اور اس کے حقائق کی لذت آشنا ہیں۔ مثنوی رومی کے پڑھنے سے اگر قلب میں گرمی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہیئے۔ شوق خود مرشد ہے۔ میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں۔ اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی۔ افسوس ہے ہم اچھے زمانے میں پیدا نہ ہوئے :
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں
بہرحال قرآن اور مثنوی کا مطالعہ جاری رکھیے۔ مجھ سے بھی کبھی کبھی ملتے رہیے اس واسطے نہیں کہ میں آپ کو کچھ سکھا سکتا ہوں بلکہ اس واسطے کہ ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت بعض دفعہ ایسے نتائج پیدا کر جاتی ہے جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے جن کو جاننے والے مسلمانان ہند کی بدنصیبی سے اب اس ملک میں پیدا نہیں ہوتے۔
(مکتوب اقبال بنام حکیم محمد حسین عرشی، ۱۹ مارچ ۱۹۳۵ء)

تدبر در قرآن و اقبال:
مجھے تو زیادہ تر خوشی اس وجہ سے ہے کہ آپ وہاں ہوں گے اور آپ کی صحبت میں مثنوی کی تکمیل میں آسانی ہوگی۔ دوسرا حصہ قریب الاختتام ہے۔ مگر اب تیسرا حصہ ذہن میں آ رہا ہے اور مضامین دریا کی طرح امڈے آ رہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اس حصہ کا مضمون ہوگا ’’حیات مستقبلہ اسلامیہ‘‘ یعنی قرآن شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعت اسلامیہ جس کی تاسیس دعوت ابراہیمی ؑ سے شروع ہوئی کیا کیا واقعات و حوادث آئندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالآخر ان سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے۔ میری سمجھ اور علم میں یہ باتیں، قرآن شریف میں موجود ہیں اور استدلال ایسا صاف اور واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیتوں اور صورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصے کے بعد مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچا ہوں۔
(اقبال بنام مولانا گرامی، یکم جولائی ۱۷ع)

قرآن سے عشق:
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں۔ تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلمبند کر جاؤں جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے اسے اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں تاکہ (قیامت کے دن) آپ کے جد امجد (حضور نبی کریمؐ) کی زیارت مجھے اس اطمینان خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضورؐ نے ہم تک پہنچایا کوئی خدمت بجا لا سکا۔
(مکتوب اقبالؒ بنام سر راس مسعود، ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء لاہور)

ایک تنقید اور اس کا جواب:
کل نیاز الدین خان صاحب کا خط آیا جس سے معلوم ہوا کہ نظم ’’خضر راہ‘‘ آپ کو پسند نہیں اور آپ کی رائے میں اس کے تمام اشعار بےلطف ہیں اور بعض غلط۔ غلط اشعار کے متعلق تو میں فی الحال عرض نہیں کرتا آپ مجھے اغلاط سے آگاہ فرمائیں گے تو عرض کروں گا۔ باقی آپ کے اعتراض کا پہلا حصہ صحیح ہے۔ مگر یہ اعتراض گرامی کے شایان نہیں ۔ اگر کوئی اور آدمی یہ اعتراض کرتا تو مضائقہ نہ تھا۔ یہ اعتراض منصور کے لیے شبلی کا پھول ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس نظم کا بیشتر حصہ خضر کی زبان سے ادا ہوا ہے اور خضر کی شخصیت ایک خاص قسم کی شخصیت ہے۔ وہ عمر دوام کی وجہ سے سب سے زیادہ تجربہ کار آدمی ہے اور تجربہ کار آدمی کا یہ خاصہ ہے کہ اس کی قوت متخیلہ کم ہوتی ہے اور اس کی نظر حقائق واقعی پر جمی رہتی ہے۔ اس کے کلام میں اگر تخیل کی رنگینی ہو تو وہ فرض منصبی ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ پس اس کے کلام میں پختگی اور حکمت تلاش کرنی چاہیے نہ تخیل اور خاص کر اس حالت میں جبکہ اس سے ایسے معاملات میں رہنمائی طلب کی جائے جن کا تعلق سیاسیات اور اقتصادیات سے ہو۔
(مکتوب اقبال۔ بنام مولانا گرامی، ۱۶ مئی ۱۹۲۲ء)

شعری اصلاح:
گرامی صاحب کے شعر میں ’’یک‘‘ نہایت موزوں ہے ’’یک نگاہ‘‘ اور ’’نیم خند‘‘ کا مقابلہ نہایت لطیف ہے۔ یہ کچھ ضروری نہیں کہ صاحب الہام اپنی بلاغت سے بھی آگاہ ہو۔ اگر گرامی صاحب کے خیال میں وہ معانی نہ تھے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ ان کے الفاظ میں تو موجود ہیں۔۔۔۔
مکتوب اقبال بنام گرامی
۱۹ اکتوبر۱۹۱۹ء

اقبال کی انکساری:
کیا میں نے آپ کو کچھ سکھایا پڑھایا؟ آپ کو آموزش کی احتیاج ہی کب تھی۔ مجھے یاد ہے میں نے افلاطون سے آپ کو روشناس کرایا۔ مگر بات وہیں ختم ہو گئی۔ ہم نے اس کو اتنا کم پڑھا کہ میں آپ کی آموزش کے اعزاز کا قرار واقعی دعویٰ نہیں کر سکتا۔
(مکتوب اقبال، بنام عطیہ فیضی، ۱۷ جولائی ۱۹۰۹ء)

’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کیسے لکھی گئی
۳ اپریل کی رات تین بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا۔) میں نے سر سید علیہ الرحمۃ کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو۔ میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔ فرمایا حضور رسالتمابؐ کی خدمت میں عرض کرو میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرضداشت کے چند شعر جواب طویل ہو گئی ہے میری زبان پر جاری ہو گئی۔ انشاءاللہ ایک مثنوی فارسی۔ ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ نام کے ساتھ یہ عرضداشت شائع ہو گی۔ ۴ اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ (RING) عود کررہا ہے۔ جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔ گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ جسم میں بھی عام کمزوری ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔
مکتوب اقبال، بنام پروفیسر الیاس برنی، ۱۳ جون ۱۹۳۶ء

جاوید اقبال اور منیرہ کی نگہداشت:
جاوید اور منیرہ کی نگہداشت کے لیے اور گھر کے عام انتظامات کے لیے جو ایک مدت سے بگڑا ہوا ہے میں نے فی الحال آزمائشی طور پر علی گڑھ سے ایک جرمن خاتون کو جو اسلامی معاشرت سے واقف ہے اور اردو بول سکتی ہے بلوایا ہے۔ پروفیسر رشید صدیقی اور دیگر احباب نے اس کی شرافت کی بہت تعریف کی ہے۔ اگر وہ اپنے فرائض ادا کرنے میں کامیاب ہو گی تو مجھے بےفکری ہو جائے گی۔ جاوید کی عمر اس وقت قریباً ۱۳ سال ہے اور منیرہ کی قریباً سات سال ہے۔ ماں کی موت سے ان کی تربیت میں بہت نقص رہ گئے ہیں۔ اسی واسطے میں نے مذکورہ بالا انتظام کیا ہے۔
(مکتوب اقبال بنام سر راس مسعود، ۸ جون ۳۷ء)
خبر کا کوڈ : 418826
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

حسن زن کی بجائے حسن ظن ہوتا تو اقبال کی طرف نسبت دینا معقول تر ہوتا
یہ کتابت اور اصلاح کی غلطی ہے جس کی نشاندہی پر بہر حال شکر گزار ہوں۔۔۔دیگر یہ کہ مطمع نظر نہیں بلکہ بلکہ مطمح نظر ہی درست لفظ ہے اس کو میں نے لغت سے دیکھا ہے۔۔۔
سید اسد عباس تقوی
محترم بہت خوب صرف حسن زن کا معنی بہت عجیب ہوگیا تھا۔
ہماری پیشکش