2
0
Monday 17 Nov 2014 13:16

انتہا پسندی پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے

انتہا پسندی پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے
تحریر: سجاد حسین آہیر 

یہ بات اب محتاج دلیل نہیں رہی کہ پاکستان کے لئے اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی فکر و خیال اور زبان و قلم سے تجاوز کرکے قتل و غارت اور دہشت گردی کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ سیاست، معیشت، معاشرت، ہر چیز اِس کی زد میں ہے اور ہزاروں بچے، بوڑھے اور جوان اِس کی نذر ہوچکے ہیں۔ آج ریاست سر کے بالوں تک انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ مذہبی انتہا پسند باون ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کرچکے ہیں۔ اُن شہداء میں مسلح افواج، رینجرز، پولیس اور عام شہری شامل ہیں اور پاکستانی ریاست اس کا ادراک نہیں کر پا رہی ہے۔ پاکستان مسلم دنیا کا واحد ملک تھا جہاں عالمی مذہبی انتہا پسند جماعت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پہلی برسی کے موقع پر اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرے کئے گئے۔ آج مذہبی انتہا پسندی کا یہ کاروبار انتہائی دیدہ دلیری سے ہمارے ملک میں عروج پکڑ چکا ہے۔ کبھی پولیو کے قطرے پلانے پر قتل کر دینا تو کبھی تعلیم حاصل کرنے کے جرم میں بے گناہ لڑکیوں کو نشانہ بنانا، تو کبھی ہزارہ کیمونٹی کے لوگوں کو قتل کر دینا، کبھی فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ تو کبھی بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں، تو کبھی کوہستان میں انسانوں کا قتل عام، اس جنگل میں اور غم و اندہ کی فضا میں سانس لینا محال ہوچکا ہے۔
 
وہ مذہب جو انسانیت، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے، نہ جانے یہ مذہبی انتہا پسند قوتیں کس مذہب کو بنیاد بنا کر یہ مکروہ دھندہ کر رہی ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ قومی سلامتی کے تمام تر ادارے ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور لگتا ہے کہ انتہا پسندی کا یہ جن جسے بوتل سے باہر نکالا گیا ہے، جس کا پیٹ کئی معصوموں کی جان لے کر بھی بھرنے والا نہیں، پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی وبا، ستاروں کی پراسرار حرکت، کائناتی لہروں یا دیگر غیر مرئی ذرائع سے نہیں پھیلی بلکہ ایک منظم سازش کے تحت ہمارے اپنے ریاستی اداروں نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے اسے دوام بخشا۔ ضیاء دور میں لگنے والا یہ پودا آج ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرچکا ہے اور اسکی آبیاری کرنے میں تمام ریاستی اداروں نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی جو ایک عرصہ سے حکومت کی ناک کے نیچے پھل پھول رہی ہے، آج اس کے شعلوں نے حکومتی خرمن ہی خاکستر کرنا شروع کر دیا ہے۔ جو زہریلے سانپ ہم نے پالے تھے، اب ان کا زہر ملک کے فکری جسد کو زہر آلودہ کر رہا ہے۔
 
انتہا پسندی پاکستانیوں کی رگ و پے میں رچ بس چکی ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف بھی 1999ء میں اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ طالبان جیسی حکومت بنانا چاہتے ہیں، لیکن جنرل پرویز مشرف اُنکے راستے میں آڑے آگئے اور وہ پاکستان کے امیرالمؤمنین ملاعمر نہ بن سکے اور جب وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو اُن کی حکومت ایک سال تک پوری قوم کو مذاکرات پر آمادہ کرکے دھوکہ دیتی رہی، اُنکے نامزد کردہ دہشت گردوں کے حامی ہی حکومت کی جانب سے طالبان دہشت گردوں سے مذاکرات کرتے رہے، ان نام نہاد مذاکرات کے دوران بھی طالبان مستقل پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔ آخر کار آٹھ جون 2014ء اتوار کی درمیانی شب کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر طالبان دہشت گردوں کی جانب سے حملہ ہوا تو اتوار 15 جون کو پاکستانی عوام کو آئی ایس پی آر کے پريس ريليز کے ذریعے آپریشن “ضرب عضب” شروع ہونے کی اطلاع ملی۔ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ اگلے روز وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم مذاکرات کر رہے تھے، ہماری نیک نیتی پر مبنی پیش رفت کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور کراچی حملے کے بعد آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جو اس بات کی نشان دہی کے لئے کافی ہے کہ موجودہ حکومت اس آپریشن پر راضی نہیں تھی۔
 
آج ان انتہا پسندوں کے ہاتھ ہر طبقہ فکر کے معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور پاکستانی سماج پر ان انتہا پسندوں کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ آج پاکستان اس انتہا پسندی سے لہولہان، اشکبار و سوگوار ہے اور ہر طرف انتشار پھیل چکا ہے۔ محبت، امن اور بھائی چارے کا دیا بجھتا دکھائی دیتا ہے۔ انتہا پسندی کا ناسور تمام جسم میں سرایت کرچکا ہے۔ آج ہمارا معاشر ہ مجموعی طور پر برداشت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اختلاف کی خوبصورتی کو سمجھے اور افہام و تفہیم سے کام لئے بغیر محض گولی کے بل بوتے پر اختلافات ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی جو ہم سے ایک سال چھوٹا ہے، وہ لمڈا کہلائے اور جو ایک برس بڑا ہے اس پر بوڑھے کی پھبتی چست کی جائے۔ آج ہم خود کو درست اور دوسروں کو غلط قرار دے کر اختلاف رائے کا راستہ روک رہے ہیں اور دلیل کی راہ چھوڑ کر بندوق کے بل بوتے پر قائل کرنا چاہتے ہیں، جس سے انتہا پرست نظریات جنم لے رہے ہیں اور بڑھتے جا رہے ہیں اور ہماری زندگی کے ہر لمحے اور مرحلے میں ان نظریات کا اظہار ہو رہا ہے۔ 

دس کروڑ سے زیادہ آبادی والے صوبے کے وزیرعلٰی کے ایماء پر سیاسی حریف کے گھر کے ارد گرد سے چند رکاوٹیں ہٹانے کے عمل میں مزاحمت پر خواتین کے منہ میں گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، یہ انتہا پسندی کی فکر کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی انتہا پسندی کے خلاف اٹھنے والی ایک شخصیت بھی، مرنے اور مارنے کے لئے تیار ہوجانا، کفن پہن لینا، قبریں کھود لینا وغیرہ جیسے انتہا پسندانہ افعال کی مرتکب ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ قانون سازی کو بھی انتہا پسندی کی سوچ متاثر کر رہی ہے۔ تحفظ پاکستان بل اس کی ایک روشن مثال ہے۔ جس کے تحت معزز شہری کو صرف شک کی بنیاد پر اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر غیر انسانی طرز کے تشدد میں معذور کرنے کے بعد جنگل میں پھینک دیا جاتا ہے۔ دنیا کے ترقی پسند ممالک میں اکیسویں صدی میں اس طرح کے قانون کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے، لیکن پاکستان میں اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے، جو انتہا پسندی کی فکر کا نتیجہ ہے۔ 

اسی مذہبی انتہا پسندی کی بدولت ماورائے عدالت قتل کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے۔ جس کی ایک مثال حال ہی میں پنجاب کے شہر قصور کے نواحی گاؤں کوٹ رادھاکشن میں بھٹہ مالک کی جانب سے آٹھ سو افراد کی موجودگی میں مسیحی میاں بیوی کو قرآن پاک کے اوراق جلائے جانے کے الزام میں دہکتے ہوئے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ تمام افراد انتہا پسندی کی اس انتہا کو پہنچے ہوئے تھے کہ ان دو افراد کی جان لینے پر نہ صرف راضی تھے بلکہ اس قبیح عمل کے در پے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے ریاستی اداروں میں موجود مذہبی انتہا پسند ریاستی مفادات کو اپنی مذہبی انتہا پسندی کی سوچ پر قربان کر دیتے ہیں۔ جس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، جیسے جنرل پرویز مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملوں میں ایک سرکاری ادارے کے افراد ملوث تھے۔ گورنر سلمان تاثیر کا قتل ہو، جی ایچ کیو پر حملہ ہو، منہاس ائیر بیس پر حملہ ہو یا نیول بیس ڈاکیارڈ پر حملہ، سب میں خود اس ادارے کے افراد کسی نہ کسی طرح ملوث پائے گئے ہیں۔
 
یہاں تک کہ وطن عزیز میں جیلیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جیلوں پر انتہا پسندوں نے حملے کئے اور جیل انتظامیہ اس قبیح فعل میں انتہا پسندوں کا ساتھ دیتی ہوئی نظر آئی۔ انتہا پسندوں کے ایک گروپ نے ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل پر گذشتہ سال 29 اور 30 جولائی کی درمیانی رات کو حملہ کیا تھا، اور 253 قیدیوں، جن میں پندرہ ہائی پروفائل دہشت گرد بھی شامل تھے، کو آزاد کرا لیا تھا۔ ان حملہ آوروں نے شیعہ ہونے کی بنا پر چار قیدیوں اور دو پولیس اہلکاروں کو شہید بھی کر دیا تھا۔ ایک اعلٰی سطح کی انکوائری کمیٹی نے ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنے کے واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سول اور پولیس انتظامیہ کے 58 افسران اور اہلکاروں کی برطرفی اور سخت سزا کی سفارش کی۔ اس رپورٹ نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ جیل کے عملے کی ہمدردیاں عسکریت پسندوں کے ساتھ تھیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب حملہ آوروں نے قیدیوں کو رہا کروانے کی کوشش کی تو عملے نے ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ انہیں سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ 

اس سے پہلے اپریل 2012ء کے دوران بنوں جیل پر حملہ ہوا تھا اور عسکریت پسندوں نے تقریباً 400 قیدیوں کو رہا کروا لیا تھا۔ جس کی انکوائری میں بنوں جیل کے عملے کے 59 اہلکاروں کو مشکوک اسناد اور مشتبہ کردار کے باوجود بنوں جیل سے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں تبادلہ کیا گیا تھا۔ جو بعد میں ڈیرہ جیل پر حملے کا باعث بنے۔ حال ہی میں گجرات میں اے ایس آئی کا ایک ملزم کو کلہاڑیوں کے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رکھوالا ضرر رساں اور محافظ دشمن بن چکا ہے اور بداعتمادی کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔ لہذا انتہا پسندی کی بدولت پاکستان کی جڑیں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ 

اب ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں اپنے رویوں کی اصلاح کرنا ہوگی اور قوت برداشت کو تقویت دینا ہوگی، تضادات اور تنوع کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ آج اگر تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور دیگر طبقات انتہا پسندی کو ختم کرنے کیلئے سر جوڑ کر نہ بیٹھے تو پاکستان کا وجود شدید خطرات سے دوچار ہوگا۔ یہ جنگ جو ہم پر مسلط کی گئی ہے صرف اسی صورت جیتی جاسکتی ہے جب ہر پاکستانی ذہن تمام تر التباسات سے آزاد ہو کر پوری یک سوئی کے ساتھ شریک معرکہ ہو اور بے حسی چھوڑ کر ایک فعال کردار ادا کریں اور انتہا پسندی کے اس خوف سے چھٹکارے کا یہی واحد راستہ ہے، کیونکہ مذہبی انتہا پسندی کی جنگ درحقیقت پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے، جسے پاکستان کو ہر صورت جیتنا ہے، کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے، تاکہ اس ملک کو رہنے کے قابل بنایا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 419906
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

یہ کہنا کہ انتہا پسندی پاکستانیوں کی رگ و پے میں رچ بس چکی ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے، پاکستانیوں پر اور یہ استعمار اور ایجنسیوں کی دی ہوئی اور پھیلائی ہوئی فکر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی ایک عارضہ ہے جو بیرونی عناصر کی وجہ سے پاکستان کو لاحق ہے۔
علی
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عارض ہوئی ہے لیکن اتنی سرایت کرچکی ہے کہ جن اداروں نے اسے روکنا تھا وہ خود اس کا شکار ہوگئے ہیں۔ اب تو یہ ایک ذہنیت بن چکی ہے۔ اسی کو رچنا بسنا کہتے ہیں میرے دوست۔
ہماری پیشکش