2
0
Thursday 17 Apr 2014 00:29

روشن تعلیمات

روشن تعلیمات
تحریر: محمد علی نقوی

گذشتہ کئی دنوں سے یہ سوچ مجھے اندر اندر سے کھائے جا رہی ہے کہ ہم بعض آفاقی شخصیات کو ایام، ملکوں اور تنظیموں میں کیوں محدود کر دیتے ہیں، برسی کے چند ایام میں ان لوگوں کو یاد کرتے ہیں، اسکے بعد اگلی برسی تک ایک مکمل خاموشی اور سکوت۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی اس برسی میں بھی مجھے ایسے ہی محسوس ہوا کہ کیا اتنی بڑی شخصیت کو مارچ کے چند دنوں تک محدود کیا جاسکتا ہے۔؟ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسے افراد کی روشن تعلیمات سے زندگی کے ہر مرحلے میں استفادہ ضروری ہے۔ کاش پاکستان کے قومی، تنظیمی اور مذہبی ادارے اس چراغ سے مسلسل فائدہ اٹھاتے رہیں۔ میں اپنی ذات کی حد تک تو اس خدمت کے لئے تیار ہوں، انشاءاللہ دوسرے احباب بھی قدم بڑھائیں گے۔ میری اس کاوش کو بھی اسی سلسلے کی کڑی سمجھا جائے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو ہم سے جدا ہوئے انیس برس گزر گئے۔ انیس سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے، اس مدت کو ہم دو عشرے بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی تنظیم، قوم یا ملت کے لئے دو عشرے کم نہیں ہوتے، اتنے عرصے میں تنظیموں اور قوموں کا مزاج، انداز اور ڈھانچہ تک بدل جاتا ہے۔ نئے چہرے، نئے خیالات اور نئے افکار و نظریات کے ساتھ تنظیموں اور اداروں میں نیچے سے اوپر تک تبدیلیاں آجاتی ہیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے یوں تو کئی قومی اور ملی تنظيموں کی تاسیس اور فعالیت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، لیکن آئی ایس او آپکی پہچان رہی اور اب آئی ایس او کی پہچان شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ہیں۔
 
میں یہ بات بھی پورے اعتماد سے لکھ سکتا ہوں کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کسی تنظیم یا ادارے تک محدود نہیں تھے، بلکہ وہ ہر الہی انسان کی طرح ایک آفاقی سوچ کے حامل تھے۔ ان کی تقاریر، نجی محفلیں اور انکے قریبی دوست اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ عالم انسانیت اور عالم اسلام کا درد رکھتے تھے اور پاکستان میں شروع ہونے والی اسلامی تحریک کو ایک عالمی تحریک یا عالمی حزب اللہ سے متصل کرنا چاہتے تھے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو جس ماحول میں کام کرنا پڑا، اس کا دائرہ کار اور سوچ کا انداز اتنا محدود اور تنگ تھا کہ اسے کسی بڑے دھارے میں شامل کرنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت تھی۔ شہید ڈاکٹر کو اس طویل سفر کا احساس تھا، اب انکے پاس دو راستے تھے یا تو اس طویل سفر سے گبھرا کر ذاتی خواہش پر عمل کرتے ہوئے اکیلے اور تنہا کسی عالمی اسلامی تحریک کا حصّہ بن جاتے یا اپنی سوئی ہوئی قوم کو بیدا کرکے اور پھر اسکی تربیت کرکے اسے عالمی تحریک کا حصّہ بناتے۔
 
شہید نقوی نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور پاکستان کی شیعہ آبادی کی نوجوان نسل کی تربیت کو پہلا مرحلہ قرار دیتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو اس پر صرف کرنا شروع کر دیا۔ جب صورتحال قدرے بہتر ہوتی نظر آئی تو نوجوانوں کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی منظم کرنا شروع کر دیا۔ علماء کی قیادت میں ہم مفکر دوستوں کے ساتھ ملکر شیعہ قوم میں ایک قابل ذکر تنظیمی اسٹرکچر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ شہید نقوی نے جن جن اداروں کی تاسیس کی اور جن جن تنظیموں کی داغ بیل ڈالی اور اسکو فعال کرنے میں اہم کردار کیا، اس میں روایتی شیعہ سوچ کے مقابلے میں عالمی اسلامی سوچ کو بھی رائج کرنے میں اساسی کردار ادا کیا۔ شہید ایک روایتی تنظیم کے روایتی طریقہ کار کے اندر رہ کر کام کرنے کو وقت کا ضیاع قرار دیتے تھے اور نظریاتی اور فکری اہداف کے ساتھ آگئے بڑھنے کو اپنا نصب العین قرار دیتے تھے۔ آپ نے جذبات کی رو میں بہہ کر نہ کسی تنظيم کی بنیاد رکھی اور نہ ہی کسی تنظیم میں کام کیا۔ آپ شیعہ قوم کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ رکھنے والے غیر شیعہ افراد اور ملی تنظیموں کو بھی عالمی اسلامی تحریک کا حصّہ بنانے کے لئے منصوبہ بندی کرتے رہتے تھے۔

شہید ڈاکٹر نقوی کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ اسی ابتدائی تیاری میں گزر گیا۔ اگر انہیں مزيد وقت ملتا اور دشمن انہیں اتنی جلدی سے شہید نہ کر دیتا تو صورتحال یقیناً مختلف ہوتی۔ آپ نے جن درختوں کے بیج بوئے تھے وہ ابھی زمین کے سینے کو چیر کر باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ شہید ڈاکٹر کا مہربان سایہ ان کے سروں سے جاتا رہا۔ شہید نقوی قومیات کے اس باغ کی بڑے خوبصورت انداز سے آبیاری کر رہے تھے، لیکن آپکی شہادت کے بعد یہ سرسبز و شاداب گلشن ایک خطرناک جنگل میں تبدیل ہونے لگا اور اس جنگل میں دندناتے بھیڑیوں اور لومڑیوں نے اپنے ہاتھ دکھانا شروع کر دیئے۔ دوسری طرف مفادات، جاہ پرستی، شہرت پسندی اور اقربا پروری کا ایسا طوفان آيا جس نے شہید ڈاکٹر نقوی کی لگائی گئی نظریاتی نرسری کو ملیا میٹ کر دیا
خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں
ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں

صورتحال یہاں پر پہنچ گئی کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے جدا ہونے کے بعد انکے دوستوں کو احساس ہوا کہ شہید اپنے دوستوں اور شاگردوں کو بچانے کے لئے کیا کیا کرتے رہے اور انہوں نے کتنے دوستوں کو بچانے کے لئے کیسے کیسے زخم کھائے۔ وہ دوستوں کی طرف آنے والے رقابتوں اور نفرتوں کے تیروں کو کس طرح اپنے سینے پر لیتے رہے۔

قصہ مختصر شہید کو جہاں نئے دوستوں کی تعلیم و تربیت پر وقت صرف کرنا پڑا، وہاں انہیں مخالفین کے حملوں سے بچانے کے لئے بھی بہت زيادہ تگ و دو کرنا پڑی۔ اکیلا شخص کہاں کہاں اور کس کسی میدان میں لڑتا، لیکن اس نے کبھی ہمت نہ ہاری۔ اس پر کیسے کیسے الزامات عائد کئے گئے، ان کو تنظیم سے باہر نکالنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے گئے اور ملی دفتروں میں داخلے پر پابندی جیسے گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کئے گئے، لیکن اس مرد قلندر کی پیشانی پر کبھی بل نہ آیا اور وہ اپنے مشن کے لئے سرگرم عمل رہا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی تنظیمی زندگی میں ہمارے لئے بہت سے عملی نمونے چھوڑے ہیں، ان میں سے ہر ایک پر طویل بات لکھی اور کہی جاسکتی ہے، لیکن اس آرٹیکل میں ہم صرف ڈاکٹر صاحب کے صبر و حوصلے پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔

تنقید وہ بھی تنقید برائے تنقید یا خاص کر شخصیت کشی پر مبنی تنقید، بڑے دل گردے والے افراد کو بھی مایوس، غیر جانبدار اور بعض اوقات اپنے راستے سے ہٹا دیتی ہے۔ میں ذاتی طور پر اس کرب سے گزرا ہوں۔ آپ جب کچھ نہ کریں اور کسی اور کی غلطیاں آپ کے کھاتے میں ڈال کر آپ کو تشیع اور اسلام سے خارج کر دیا جائے، وہ بھی ایسی حالت میں کہ آپ کسی مفاد نہیں بلکہ قربانی کی نیت سے کوئی کام انجام دے رہے ہیں تو ایسی حالت میں افراد، اداروں یا تنظیموں میں کام کرنا ایک دشوار بلکہ بعض اوقات ناممکن کام نظر آتا ہے، لیکن شہید ڈاکٹر نقوی تنقید، طعنوں اور بے بنیاد اعتراضات کو کبھی اہمیت نہ دیتے تھے اور وہ کام میں پہلے کی طرح مگن رہتے تھے۔ شہید کے ساتھی جب ان تنقیدوں اور اعتراضات سے تنگ آکر شکایت کرتے تو آپ اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر بس اتنا کہتے کہ "کیا ہم پر انبیاء اور ائمہ سے زيادہ تنقید ہوتی ہے، وہ معصوم تھے اور ان سے خطا کا امکان بھی نہيں تھا جبکہ ہمارے کاموں میں بے شمار غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ نیت صحیح رکھو اور آگئے بڑھو، تنقیدوں اور الزامات کی ہرگز پروا نہ کرو۔" تنقید اور اعتراضات کو برداشت کرتے ہوئے اسلامی تحریک کے احیاء و فعالیت کے لئے بے لوث خدمات انجام دینے میں شہید کا کوئی ثانی نہیں۔ آپ کا یہ طرز عمل آج کے تنظیمی دوستوں کے لئے ایک لائحہ عمل اور مشعل راہ ہے۔ 

شہید محمد علی نقوی کی انیسویں برسی کے موقع پر اگر ہم شہید کی اس روش کو اپنا لیں اور اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات بالخصوص زبان اور قلم سے ہونے والے حملوں پر تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرسکیں تو گویا ہم نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے عمل و کردار سے ایک حصّہ کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک نظریاتی، عملی اور جرات و دلیری سے آگے بڑھنے والے انسان تھے۔ شہید کی ہرگز یہ خواہش نہیں ہوگی کہ  ہم صرف ان کی زبانی تعریفیں کرتے رہیں، بلکہ شہید سے حقیقی محبت کا اظہار ان کے عمل و کردار کو زندہ کرنا ہے۔ شہید محمد علی نقوی معصومین، امام خمینی (رہ)، شہید حسینی (رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای جیسی ہستیوں کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے تھے۔ آئیے ہم بھی ان ہستیوں کے عمل و کردار کو اپنا کر اپنی دنیوی اور اخروی حیات کا سامان فراہم کریں۔
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں 
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
ہیں آج  بھی وہی دار و رسن وہی زندان              
ہر اک نگاہ رموز آشنا کے رستے میں
یہ نفرتوں کی فصیلیں، جہالتوں کے حصار              
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں
مٹا سکے نہ کوئی سیل انقلاب جنہیں              
وہ نقش چھوڑے ہیں ہم نے وفا کے رستے میں
خبر کا کوڈ : 373682
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
نقوی بھائی آپ نے دل کی گہرائیوں سے یہ مضمون لکھا ہے اسکا اثر بھی پائیدار ہوگا
بہت خوبصورت کالم ہے۔
ہماری پیشکش