0
Saturday 27 Sep 2014 23:26

بلوچستان، اسمبلی اجلاس کے دوران اسلام آباد دھرنوں پر سخت تنقید

بلوچستان، اسمبلی اجلاس کے دوران اسلام آباد دھرنوں پر سخت تنقید
رپورٹ: این ایچ جعفری

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کو مقررہ وقت سے 40 منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس میں صوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی نواب محمد خان شاہوانی نے وزیراعلٰی اور صوبائی وزراء کے مشاہرات مواجبات اور استحقاقات کا ترمیمی مسودہ قانون نمبر 29 مصدرہ 2014ء پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء کے مشاہرات، مواجبات اور استحقاق کے ترمیمی مسودہ قانون نمبر 29 مصدرہ 2014ء کو بلوچستان اسمبلی کے قواعد و انضباط کار مجریہ 1974ء کے قاعدہ 84 کے تقاضوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ دوسرا ترمیمی مسودہ بھی صوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی نواب محمد خان شاہوانی کی طرف سے پیش کیا گیا جوکہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی کے مشاہرات، مواجبات، استحقاقات کا ترمیمی مسودہ قانون نمبر 30 مصدرہ 2014ء تھا۔ جس کے تحت اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی کے مشاہرات، مواجبات اور استحقاق کے ترمیمی مسودہ قانون نمبر 30 مصدرہ 2014ء کو بلوچستان اسمبلی کے قواعد و انضباط کار مجریہ 1974ء کے قاعدہ 84 کے تقاضوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ صوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی نے ارکان صوبائی اسمبلی کے مشاہرات مواجبات و استحقاقات کا ترمیمی مسودہ بھی پیش کیا جوکہ مسودہ قانون نمبر 31 مصدرہ 2014ء ہے۔ جس کے تحت ارکان بلوچستان صوبائی اسمبلی کے مشاہرات، مواجبات و استحقاقات کے ترمیمی مسودے کو بلوچستان اسمبلی کے قواعد و انضباط کار مجریہ 1974ء کے قاعدے 84 سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

ارکان صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے اور آغا لیاقت کی جانب سے مشترکہ قرارداد نمبر 49بھی پیش کی گئی جس کے تحت صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرکے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام پاکستان کے دفاتر ضلعوں کے بجائے تحصیل سطح پر قائم کریں اور ساتھ ہی وصیلہ، حق وصیلہ روزگار وصیلہ، تعلیم اور وصیلہ صحت فوری طور پر بلوچستان شروع کیا جائے اور ان اداروں میں گذشتہ تین سالوں سے اپنی خدمات سرانجام دینے والے ملازمین کو بھی مستقل کیا جائے اور اس پروگرام کو تمام پسماندہ اضلاع و علاقوں میں فوری طور پر شروع کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ قرارداد پر ارکان اسمبلی نصراللہ زیرے سید لیاقت آغا، سردار عبدالرحمن کھیتران، ولیم برکت، شاہدہ روف، یاسمین لہڑی، صوبائی وزراء میر خالد خان لانگو، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی ،عبدالرحیم زیارت وال نے اظہار خیال کیا۔ مقررین نے کہا کہ سابق دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تھا اور ابتدائی طور پر اس کیلئے 65ارب روپے مختص کئے تھے مگر موجودہ حکومت نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے 118ارب روپے مختص کئے ہیں پروگرام سے سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں لاکھوں افراد مستفید ہوتے ہیں جبکہ ہماررے ہاں صرف 2لاکھ افراد اس پروگرام سے مستفید ہوتے ہیں مگر باقی صوبوں کی طرح بلوچستان میں تحصیل سطح پر اسکے دفاتر نہیں جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلوچستان میں فاصلے طویل ہیں، دور دراز علاقوں سے لوگوں کو امداد کے حصول کیلئے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تک جانا پڑتا ہے اور مستحقین کو اس وقت صرف 1200 روپے ماہانہ دیئے جاتے ہیں جبکہ دور دراز علاقوں سے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تک پہنچنے کیلئے کہیں زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔ پروگرام کے تحت وسیلہ حق، تعلیم، روزگار و دیگر پروگرام بند پڑے ہوئے ہیں۔ ارکان نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ پروگرام میں مختلف سطح پر کرپشن بھی ہوتی ہے اس وقت ڈاکخانوں کے ذریعے امداد تقسیم کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے مستحقین کو پوری رقم نہیں ملتی جبکہ بعض اضلاع میں اے ٹی ایم کارڈز کے ذریعے یہ امداد دی جا رہی ہے، بہت سے علاقوں میں اے ٹی ایم کی سہولت نہیں اور پسماندگی کے باعث اکثر لوگ اے ٹی ایم کا استعمال بھی نہیں جانتے ارکان نے مطالبہ کیا کہ پروگرام میں موجود خامیاں دور کی جائیں، کرپشن کی روک تھام کی جائے اور عوام کی سہولت کے پیش نظر تحصیل اور اگر ممکن ہو تو یونین کونسل کی سطح پر امداد کی ادائیگی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ بعد ازاں ایوان نے مشترکہ قرارداد متفقہ منظور کرلی اجلاس میں صوبائی وزیر اطلاعات، قانون و پارلیمانی امور عبدالرحیم زیارت وال نے اسلام آباد میں جاری تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز عمران خان نے یہ اعلان کیا کہ اب ’’گو نواز گو‘‘ کی بجائے ’’گو سٹم گو‘‘ کا نعرہ لگایا جو فیڈریشن، سسٹم قومی و صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے خلاف نعرہ ہے جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور اس میں 4اکائیاں ہیں ہمارے بھی اختلافات ہوتے ہیں مگر تمام مسائل کا حل جمہوری عمل کے استحکام میں ہے پاکستان بننے کے بعد 26سال تک اسے آئین کے بغیر رکھا گیا۔

بڑی مشکل سے 1973ء کا آئین بنا، 2010ء میں سیاسی جماعتوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے اسے ایک فیڈرل آئین کی شکل دی۔ ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ مزید بہتری کی گنجائش ہے مگر اب ایک شخص سب کچھ روند ڈالنا چاہتا ہے جو ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے اسلام آباد میں جاری دھرنوں کو غیر سیاسی و غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان دھرنوں کے ذریعے 18کروڑ عوام کے مینڈیٹ کی توہین، الیکشن کمیشن کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ الیکشن میں خرابیاں ہوئی ہونگی مگر الیکشن کمیشن نے انتخابات سے قبل 3کروڑ سے زائد جعلی ووٹ نکال دیئے تھے جو بہتری کی جانب ایک پیشرفت ہے مگر ہم بھی چاہتے ہیں کہ پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی مکمل طور پر شفاف انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن مکمل طور پر بااختیار ہو مگر اس قسم کے احتجاجوں سے نظام کو لپیٹنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اپوزیشن کے رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے بھی عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ جس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں وہ قطعی طور پر درست نہیں وہ اپنے قد سے بڑی باتیں کر رہے ہیں انہیں اس سے گریز کرنا چاہیئے۔ اجلاس میں سردار عبدالرحمن کھیتران نے پوائنٹ آف آرڈر پر متعلقہ حکام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ ایف ایس سی کے ایک طالب علم اسفند یار کاکڑ جو اسکول میں مختلف سکولوں میں پوزیشن ہولڈر ہے اسکے ایف ایس سی کے امتحانات میں پیپر تبدیل کرکے کسی من پسند لڑکے کو اسکے نمبر دیدیئے گئے مگر اسکے ساتھ اٹیچ اضافی پرچے اپنی جگہ پر رہنے دیئے گئے ہیں جس سے اس لڑکے کا نتیجہ تبدیل ہوگیا اور اسکا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے، اسکا نوٹس لیا جائے۔ اپوزیشن رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے اپنی قرارداد نمبر48 جوکہ صوبے میں امن و امان اور ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات سے متعلق تھی کو وزیراعلیٰ بلوچستان کی موجودگی میں پیش کرنے کی درخواست کی جوکہ منظور کرلی گئی۔ اجلاس میں سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ انہوں نے 24ستمبر کے اجلاس میں بھی بعض مسائل کی جانب توجہ دلائی تھی اور سوال بھی پوچھا تھا جس پر سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ سردار عبدالرحمن کھیتران نے دو منصوبوں کی نشاندہی کی تھی جن میں سے ایک پر کام ہو رہا ہے جو جلد مکمل ہوگا جبکہ دوسرے منصوبے کیلئے جگہ کی نشاندہی ابھی تک نہیں ہو سکی۔

سردار عبدالرحمن کھیتران نے مختلف سرکاری دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پر کرپشن ہو رہی ہے جس پر سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ وہ اسکی تحقیقات کرائیں گے۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ متعلقہ وزیر نے یقین دہانی کرا دی ہے لہذٰا اس معاملے کو ختم ہو جانا چاہیئے تاہم سردار عبدالرحمن کھیتران نے اپنے موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملوث افسر کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے اسے معطل کیا جائے۔ سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ ہم اسکی انکوائری کرائیں گے اور اگر کرپشن ثابت ہوئی تو افسر کو صرف معطل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے جیل بھی بھیجا جائے گا۔ صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ترقیاتی کام کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے اپوزیشن کی جانب سے باتیں ریکارڈ پر آگئی ہیں، یہ بہتر ہے اینٹی کرپشن سیل، پی اینڈ ڈی کا مانیٹرنگ سیل اور وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم موجود ہے جس کے ذریعے ہم تحقیقات کرائیں گے جبکہ صوبائی وزیر زراعت بھی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ اپوزیشن کا کام نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جس پر الزام لگایا جا رہا ہے وہ اب تک ثابت نہیں ہوا، جب ثابت ہوا تو اسے کرپشن کہیں گے۔ اس موقع پر عبدالرحیم زیارتوال ،ڈاکٹر حامد خان اور سید لیاقت آغا نے اجلاس کی صدارت کرنے والے اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ایوان کو قواعد کے مطابق نہیں چلا رہے، ایوان کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیئے۔ اس موقع پر حکومت اور اپوزیشن ارکان بیک وقت بولتے رہے جس پر کان پڑی آواز سنائی نہ دی۔ سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ کیچ میں ایک ایک افسر کے پاس کئی کئی چارج ہیں جس پر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے اگر کرپشن ہے تو اسکی نشاندہی کی جائے بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس 30ستمبر صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔
خبر کا کوڈ : 411986
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش