0
Friday 12 Sep 2014 18:09

غدار کون اور وفادار کون؟

غدار کون اور وفادار کون؟
تحریر: علامہ سبطین شیرازی

معاملہ یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کی بقا و سلامتی کے خلاف پاکستان مخالف قوتیں متحد ہوچکی ہیں تو دوسری جانب ملک کے اندر صورت حال کو خراب کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک طرف پاک فوج دہشت گردی، سیلاب سے پیدا ہونے والے چیلنجز اور دیگر مسائل کے خلاف برسرپیکار تو دوسری جانب اسے ملکی سیاست میں گھسیٹنے اور بدنام کرنے کی ممکنہ کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ داعش جو بین الاقوامی دہشت گردوں کی ایک نمائندہ جماعت ہے، اس کا اگلا ہدف پاکستان اور افغانستان دکھائی دے رہا ہے۔ ایک اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ امریکہ نہ جانے کس وجہ سے پاکستان کے اندر افراتفری، بے چینی اضطراب اور لڑاؤ کی پالیسی کے تحت موجودہ حکومت کو تھپکیاں دے رہا ہے اور اس نام نہاد جمہوریت کی حمایت پر اتر آیا ہے۔ اس سارے سناریو میں حکومت وقت کا کردار غیر یقینی اور غیر سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔

وزیراعظم پاکستان کا منصب جو پورے 17 کروڑ عوام کے لیے ہے، آج وزیراعظم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم بن کر رہ گئے ہیں، اپنی انا اور ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان کے اندر صحیح جمہوریت کے پنپنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ پارلیمینٹ کو دیکھئے کہ وہ ایک ہی ایشو پر اپنی پوری توانائیاں مرکوز کئے ہوئے ملک کی مجموعی صورت حال سے غافل دکھائی دیتی ہے۔ تمام ہم خیال جماعتیں ایک پیج پر کھڑی ہیں، لیکن ان کا ایک پیج پر آنا عوامی مسائل کے حل کے لیے نہیں، اپنے اپنے اقدار کو بچانے اور اپنی ناجائز دولت کی حفاظت کے لیے ہے۔ حکومت کی طرف سے مرض کا پراپیگنڈہ تو کیا جا رہا ہے لیکن اس مرض کے علاج کی طرف نہیں بڑھا جا رہا۔ آئین پاکستان کی وہ شقیں جو ان کے مفاد میں ہیں، ان کا تو بڑے شدومد سے ذکر ہوتا ہے، لیکن جو شقیں جو عوام کے مفادات میں ہیں، انھیں کھولا تک نہیں جاتا۔ ستم بالائے ستم کہ اگر کوئی سیاسی جماعت ان مسائل کے حل اور عوام کی بہتری کا ایجنڈا لے کر سامنے آئے تو اس پر بغاوت کے الزام لگا دیئے جاتے ہیں۔

یہ امر قابل غور ہے کہ جب ملک کو بدنام کرنے والے، آئین اور قانون کی دھجیاں اڑانے والے، قومی دولت لوٹنے والے، عوامی حقوق کی پرواہ نہ کرنے والے، ملک کے وفادار کہلائیں اور اپنے جائز مطالبات کے حق میں مظاہرے کرنے والے اور پرامن احتجاج کی پاداش میں ریاستی تشدد کا نشانہ بننے والوں کو باغی کہا جائے تو یہ ایک شرمناک اور خوفناک صورت حال ہے۔ کیا اس طرح ملک بچ جائے اور عوام دب جائیں گے؟ ہرگز نہیں، اس سے اشتعال اور بڑھے گا اور نتیجہ کسی بھی سنگین صورت حال کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔ یہ ملک کے اندر انارکی اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنے کی ایک بیرونی سازش ہے، تاکہ پورا ملک سڑکوں پر آجائے، ملکی نظام و نسق تباہ ہو اور پاکستان دشمن قوتیں اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوجائیں۔ یہ سازش ایک عرصہ سے اس ملک کے خلاف محسوس کی جا رہی تھی، جس کے لیے ایک مخصوص میڈیا گروپ کو ٹاسک دیا گیا تھا۔ 

جس نے پاکستان کی فوج اور ملکی حساس اداروں کے خلاف ماضی میں زہر اگلنا شروع کیا، آیا پاکستان کا وفادار اور محب وطن میڈیا گروپ صرف جیو ہی ہے، جس کی خاطر پارلیمینٹ کے فلور پر وزیراعظم بے ساختہ فرماتے رہے جیو، جیو اور باقی تمام ٹی وی چینلز کیا ملک دشمن ہیں؟ کون نہیں جانتا کہ ملک کا وفادار کون ہے، کس ادارے کی خدمات ملکی تاریخ میں روشن اور نمایاں ہیں، ملکی سرحدوں پر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے اور مادر وطن کو دہشت گردی سے آزاد کرانے والے کون ہیں؟ ملک جب بھی داخلی یا خارجی مشکلات میں گھرا تو کن سپوتوں نے جانوں کے عطیے پیش کئے، یہ ہماری پاک فوج ہی ہے، جو آج بھی دشمن کے مقابل ایک ناقابل تسخیر قوت بن کر کھڑی ہے، جس کی حکمت بصیرت اور قوت سے ملک کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نام نہاد سیاسی لیڈروں کو فوج سے دشمنی کیا ہے۔؟

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مستحکم افواج ہی کسی ملک کا سرمایہ اور اس ملک کی آن ہوتی ہے، بحمداللہ پاکستان کے عوام اپنی افواج سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور یہ افواج پورے ملک کی نمائندہ افواج ہیں، جن کے اندر تمام صوبوں بشمول فاٹا کے نمائندگی موجود ہے، جو اس ادارے پر عوام کے بھرپور اعتماد کا مظہر ہے۔ پاکستانی نوجوان شوق و ذوق سے اپنی افواج میں بھرتی ہوتے ہیں اور دل و جان سے وطن کے دفاع کے لیے قربانیاں دیتے ہیں۔ آج ضرب عضب آپریشن میں فوجی جوانوں کا جذبہ شہادت دیدنی ہے۔ چنانچہ ہمارے سیاست دانوں کو عوام کی طرح اپنی افواج کے شانہ بشانہ ہونا چاہیے، یہ تاثر غلط ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں فوج کے خلاف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مخصوص سیاسی گروہ اور ایک خاص میڈیا گروپ جن کی مفادات مشترک ہیں، افواج پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، جو کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، کیونکہ پاکستان کے عوام ہر اس سازش کو ناکام بنا دیں گے جو ملک اور ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف کی جائے گی۔
 
آج پاکستان کی پارلیمینٹ کے اندر بعض عاقبت نااندیش سیاست دان یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو فوج لائی ہے۔ فوج ہی انھیں واپس بھیجے۔ ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے۔ افسوس اس دوغلے کردار پر ہے کہ جب طالبان کی طرف سے ملک کے اندر تباہی پھیلائی جا رہی تھی، دہشت گردی کی وارداتیں روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔ دہشت گرد ملک کے اندر دندناتے پھر رہے تھے، فوج ان کے خلاف آپریشن کرنا چاہتی تھی، یہی سیاست دان تھے کہ ان دہشت گردوں سے مذاکرات پر زور دیتے تھے۔ آج مولانا فضل الرحمن پروفیسر ساجد میر اور اچکزئی صاحب ان نہتے احتجاجیوں کے خلاف حکومت کو طاقت کے استعمال کا مشورہ دے رہے ہیں۔ مولانا صاحبان کل تک ان سڑکوں پر آپ کا قبضہ تھا، آج اگر یہ نہتے مظاہرین ان سڑکوں پر آگئے ہیں تو انھیں برداشت کریں۔ کل پھر آپ نے انہی سڑکوں پر آکر احتجاج فرمانا اور دھرنے دینا ہیں۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس ملک کے وفادار وہی ہوسکتے ہیں جن کا جینا اور مرنا اس ملک کے لیے ہے، جن کی پہچان یہ ملک ہے، جو اس ملک کے چپے چپے کے محافظ اور اس کے مضبوط دفاع کی علامت ہیں، جن سیاست دانوں کی دولت ملک سے باہر ہے، جن کے بچے اپنے ملک کی نسبت دیگر ممالک میں زیادہ قیام پذیر رہتے ہیں، جن کو اپنے عوام گندے اور بدنما نظر آتے ہیں، جن کے علاج معالجے دوسرے ممالک میں ہوتے ہیں ان کو اس ملک کی فکر کیا ہوسکتی ہے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
خبر کا کوڈ : 409358
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش