0
Sunday 29 Jul 2012 13:15

سعودی شہری کس سے مدد مانگیں؟

سعودی شہری کس سے مدد مانگیں؟
تحریر: سید اسد عباس تقوی 
 
مشرق وسطٰی میں آج کل رسم چلی ہے کہ کسی بھی برادر عرب ملک میں قائم ناپسندیدہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اردگرد کے ہمسایہ ممالک باغیوں کی بھرپور مدد کرسکتے ہیں۔ چندہ اکھٹا کرنا، فوجی کیمپ بنا کر دینا، اسلحہ مہیا کرنا، تربیت فراہم کرنا، عالمی اداروں کی میٹنگز بلا کر باغیوں کی حمایت کرنا، اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کو ہمسایہ ممالک میں جمہوریت کے نام پر اکٹھا کرنا، اپنے ممالک میں تعینات سفیروں کو بہلا پھسلا کر اپنی ہی حکومت سے متنفر کرنا اور اسی قسم کے دیگر کئی ایک امدادی حربے آج کل عرب دنیا میں عام ہیں۔ 

قطر، ترکی، اردن اور سعودی عرب اس رسم کے سرخیل اور بانی ہیں۔ آئے روز قطر کے دارالحکومت دوحا میں شامی باغیوں کے اجلاس بلائے جاتے ہیں، کبھی عرب لیگ بشار الاسد سے کہتی ہے کہ وہ حکومت چھوڑ دے، اسے کچھ نہیں کہا جائے گا، تو کبھی ترک وزیراعظم طیب اردغان دھمکی دیتے ہیں کہ ہم کرد باغیوں کا تعاقب شام کی سرحدوں کے اندر تک کریں گے۔ سعودی شاہ اپنی چندہ مہم کے ذریعے کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

ترکی جو مشرق وسطٰی کا انتہائی اہم ملک ہے، کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے سربراہ Kemal Kiliçdaroglu شام کے بارے میں طیب اردغان کی حکومتی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ ترکی کے عوام کو مغربی مفادات کی قیمت ادا کرنی پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام میں جاری صورتحال سے اسرائیل کے سوا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انھوں نے طیب اردغان کی شام کے بارے میں پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کرد ریاست کی تشکیل پر کام ہو رہا ہے۔ ہماری حکومت نے یہ سوچے بغیر کہ بشار الاسد کے بعد کیا ہوگا، اس کھیل میں ہاتھ ڈال دیئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ شام، روس کے لیے اہمیت کا حامل ملک ہے۔ شام کے بارے میں حکومتی پالیسی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت نہیں جانتی آگے کیا کرنا ہے، بلکہ وہ غیروں کے ایجنڈا پر کام کر رہی ہے۔ کمال کہتے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ مغرب کی استعماری طاقتیں مشرق وسطٰی کو تقسیم کریں۔ انھوں نے حکومت سے کہا کہ مغربی طاقتوں کے آلہ کار مت بنیں۔ ترک عوام ملک اور دنیا میں امن کے خواہش مند ہیں، ہم کسی سے جنگ نہیں چاہتے۔

قطر اور اردن کے عوام بھی مشرق وسطٰی میں انقلابات کی لہر سے متاثر ہو کر اپنی حکومتوں کے خلاف میدان عمل میں موجود ہیں، تاہم عرب دنیا کے سب سے اہم ملک یعنی سعودی عرب میں اٹھنے والا طوفان اب تک دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے، جس کی ایک وجہ مغربی طاقتوں کا عرب حکمرانوں سے اتحاد ہے، جس کے سبب اس مملکت میں ہونے والے خونریز واقعات کو بھی خبر کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور اگر بفرض محال کبھی خبر دے بھی دی جائے تو اسے یوں توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ واقعہ کی اہمیت سرے سے باقی ہی نہیں رہتی۔ پاکستانی قاری کے ذہن میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ بلاد حرمین میں کون سی ایسی خونریزی ہو رہی ہے کہ جسے میڈیا بیان نہیں کرتا۔؟
مسلم دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو شاید یہ جانتے ہوں گے کہ سعودیہ کے مشرقی حصے کی ایک بہت بڑی آبادی گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلکی بنیاد پر حکومتی مظالم کا شکار ہے۔ ہمارے جنوبی صوبے بلوچستان کی مانند سعودیہ کا مشرقی خطہ قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے۔ قطیف، دمام اور الاحصاء کے شہروں پر مشتمل یہ علاقہ اور اس کے عوام کی محرومیوں کی داستان بہت طویل ہے۔ ملک کی کل آبادی کا دس فیصد ہونے کے باوجود قطیف، دمام اور الاحصاء کے شہریوں کو بنیادی شہری حقوق حاصل نہیں۔ 

انھیں شکوہ ہے کہ ہمیں ملک کے اہم اداروں میں جائز مقام نہیں دیا جاتا، اسی طرح ملک کے معدنی ذخائر جن کی ایک بڑی مقدار مشرقی خطے سے نکلتی ہے، کی آمدن سے بھی اس خطے کے باسیوں کو محروم رکھا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا دعوے کوئی خیالی باتیں نہیں بلکہ دنیا میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سعودیہ کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مندرجات ہیں۔

مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں آنے والی بیداری اسلامی کی لہر جب بحرین تک پہنچی تو اس کے اثرات سعودیہ کے مشرقی حصوں میں بھی محسوس کیے گئے، تاہم انقلابات اور آمروں کے انجام سے بوکھلائی ہوئی شاہی حکومت نے حقوق کے لیے اٹھنے والی ان آوازوں کو سنگینوں اور سلاخوں کے ذریعے دبا دیا۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سعودی حکومت پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے دریغ اور وحشیانہ استعمال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مظاہروں میں نوجوان حکومتی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ایمنیسٹی کی دسمبر 2011ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ مظاہرین پر طاقت کے اندھا دھند استعمال کے علاوہ حکومتی کارندے مشرقی خطے سے سینکڑوں افراد کو گرفتار کرچکے ہیں، جن پر کسی قسم کا کوئی مقدمہ چلائے بغیر انھیں زیر حراست رکھا گیا ہے۔

قطیف میں حالیہ دنوں میں ایک اہم عوامی راہنما اور عالم دین کو صرف اس لیے زخمی کرکے گرفتار کیا گیا کہ انھوں نے خطبہ جمعہ میں سعودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی اور مشرقی خطے کے حقوق کی بازیابی کے لیے عوام کو میدان عمل میں اترنے کی دعوت دی۔ شیخ نمر باقر النمر کی یہ پہلی گرفتاری نہیں۔ آپ کے والد نے بھی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ سعودی عقوبت خانوں میں گزارا۔ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شیخ نمر بھی متعدد بار پابند سلاسل کیے گئے۔

آپ ایک بلند پایہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جری اور پرجوش خطیب بھی ہیں۔ آپ اکثر اپنے خطبات جمعہ میں کہتے ہیں کہ میں کلمہ حق ادا کرنے سے نہیں ڈرتا، چاہے اس کے لیے مجھے پابند سلاسل کیا جائے، مجھ پر تشدد ہو یا مجھے شہید کر دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودی حکومت کی نظر میں شاہی خاندان کے افراد پہلے درجے کے شہری جبکہ ان سے متمسک افراد دوسرے درجے کے شہری اور مشرقی خطے میں بسنے والے شیعہ تیسرے درجے کے شہری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ الشرقیہ کے عوام وہ لوگ ہیں جن کی مٹی سے کالا سونا نکال کر تم اپنی تجوریاں بھرتے ہو، لیکن اس خطے میں غربت ہے کہ روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ تم نے اس خطے کے عوام کے وقار کو مجروح کیا اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا۔

شیخ نمر سعودی حکومت کو بلاد حرمین اور الشرقیہ میں منظم فرقہ وارنہ امتیازی رویے کا مجرم قرار دیتے ہیں اور اس کی پالیسیوں کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عدل و انصاف کا قیام جہاد کے بغیر ممکن نہیں اور پامال شدہ حقوق ایثار، قربانی اور شجاعت کے بغیر واگزار نہیں کرائے جا سکتے۔ انھوں نے اپنے خطبات جمعہ میں بارہا کہا کہ الشرقیہ کے عوام اب توہین اور تجاوز کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔ شیخ نمر سعودی حکمرانوں سے مخاطب ہو کر اکثر کہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ آخر کار تم مجھے گرفتار کرو گے، کیونکہ تمہاری منطق اور راہ روش گرفتاری، تشدد اور قتل و غارت ہے۔ ہم تمھاری اس روش سے نہیں ڈرتے، ہم خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔

شیخ نمر کی شجاعت نے الشرقیہ کے نوجوانوں میں وہ روح پھونک دی ہے کہ اب وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے نہیں گھبراتے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ نمر کی گرفتاری کے بعد کوئی دن ایسا نہیں کہ الشرقیہ کے علاقوں میں مظاہروں پر پابندی کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین حکومت کے خلاف میدان عمل میں نہ اترے ہوں۔ ہر مظاہرے میں ایک یا دو شہادتوں کے باوجود قطیف و الاحصاء کے عوام نئے دن اور نئے جذبے کے ساتھ میدان عمل میں اترتے ہیں۔ الشرقیہ کے نوجوانوں میں بیداری کی لہر کے علاوہ شیخ نمر نے علماء کا ایک ایسا جری گروہ بھی تشکیل دیا ہے جو ان کی عدم موجودگی میں اس تحریک کو جاری رکھنے کا عزم رکھتا ہے۔ شیخ نمر کی شہادت یا آزادی ہر دو صورت آل سعود کے لیے خطرے کا نشان ہے۔

دوسرے کی آنکھوں کا بال دیکھنے والی آل سعود کو، نہیں معلوم اپنی آنکھوں کا شہتیر کیوں نظر نہیں آتا؟ شام کے معاملے میں دنیا بھر کی قوتوں کو مظلوموں کی حمایت میں اکٹھا کرنے والے عرب حکمران بحرین، الشرقیہ اور یمن کے عوام کے لیے کیوں بے چین نہیں ہوتے؟ اگر شام کے بارے میں عرب حکمرانوں کی اپنائی جانے والی روش درست ہے تو اسے الشرقیہ اور بحرین کے لیے بھی درست ہونا چاہیے۔ اگر شام کے عوام کے حقوق اہمیت رکھتے ہیں تو بحرینی اور سعودی شہریوں کے حقوق کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے۔ شامیوں کے لیے چندے اور اپنے شہریوں کے لیے سنگین و سلاسل کی سیاست آخر کب تک جاری رکھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ بقول شاعر:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خبر کا کوڈ : 183151
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش