0
Saturday 12 Apr 2014 19:21

احمد لدھیانوی کی پارلیمنٹ میں موجودگی نون لیگ کی سیاسی موت ثابت ہوگی

احمد لدھیانوی کی پارلیمنٹ میں موجودگی نون لیگ کی سیاسی موت ثابت ہوگی
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دہشت گردی کے خلاف متفقہ پالیسی وضع کرنے کے لیے ہونے والی آل پارٹیز کانفرنسز میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تجاویز آتی رہیں، لیکن حکومت نے ایسا طرز عمل اختیار نہیں کیا کہ عسکری دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر سیاسی دہشت گردی کی جڑیں مضبوط ہوں۔ نواز حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے متعلق پاکستان کی مسلح افواج کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور عوامی حلقوں میں بھی سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات حکومت اور طالبان کے درمیان نہیں بلکہ طالبان اور طالبان کے درمیان ہو رہے ہیں۔ جہاں پوری قوم اس بات پر محو حیرت ہے کہ پاکستان کے وجود کی قیمت پر دہشت گردوں کو گود لیا جا رہا ہے، وہاں اس قضیے کا دوسرا رخ بھی سامنے آ رہا ہے کہ لیگی حکومت کی خارجہ پالیسی کے اثرات پاکستان کی داخلی سیاست کو منفی طور پر متاثر کر رہے ہیں۔

نون لیگ کی نیت بھی کھل کے سامنے آگئی اور دہشت گردوں کے اندرونی اختلافات اور تکفیری گروہوں میں وسائل اور اختیارات کے تقسیم کی جنگ نے تنگ نظری پہ مبنی فسادیوں کا گھٹیا چہرہ پاکستانی عوام کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے ہی وزیرستان میں سی آئی اے اور بھارتی جاسوسی ادارے را کی پشت پناہی سے پاکستانی عوام کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے والے اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ خود ساختہ شریعت کے نام پر قائم ہونے والی امارت اسلامیہ وزیرستان کے تخت کا حقدار کون ہے۔ اسی طرح تکفیری گروہ کالعدم سپاہ صحابہ کے احمد لدھیانوی گروپ اور لشکر جھنگوی کے درمیان بھی اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لدھیانوی گروپ کی طرف سے لشکر جھنگوی اور طالبان سے منسلک پنجابی گروپوں کیخلاف سرکاری اداروں سے تعاون کے معاہدے کے بعد یہ طے پایا ہے کہ مولانا سمیع الحق، نواز حکومت اور لدھیانوی گروپ کے درمیان جھنگ اور کراچی کی سیٹوں پر سودا بازی کو حتمی شکل دیں گے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس خاموش معاہدے کے نتیجے میں نواز حکومت کالعدم سپاہ صحابہ کو پارلیمنٹ تک رسائی دے گی اور نواز شریف کے دورہ ایران سے قبل پاکستان کی مخدوش سیاسی فضا میں شیعہ دشمن تکفیری گروہ کو اپنے پہلو میں جگہ دے کر اسے خارجہ پالیسی میں لیورج کے طور پر استعمال کرنے کا حربہ آزمایا جائے گا۔ اس رائے کو اس لیے بھی تقویت ملتی ہے کہ ہمیشہ سے افغانستان میں پاکستان کے متنازعہ کردار اور تزویراتی گہرائی کے موہوم تصور کی تکمیل کے لیے مولانا سمیع الحق کو ہی امریکہ اور ایران دونوں کیخلاف علامتی اتحادوں کے سربراہ کے طور پر سامنے لایا جاتا رہا ہے۔ مولانا سمیع الحق کا حالیہ دورہ جھنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں طالبان کیطرف سے پیش کی جانے والی شرائط پر عمل کروانے کے لیے جھنگ تشریف لائے اور حکومت نے اپنے ہی عوامی نمائندے کو نااہل قرار دلوا کر دوبارہ انتخابات کی بجائے، قومی اسمبلی کی نشست کالعدم سپاہ صحابہ کے احمد لدھیانوی کے سپرد کر دی۔ وسیع تر سیاسی تجربے کے باوجود نواز لیگ کی قیادت بڑی سیاسی حماقت کے نتیجے میں ایوان میں ایک ایسے شخص کو بٹھانے پہ تلی ہوئی ہے جو نہ صرف پارلیمانی آداب سے بے بہرہ ہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے گروہ کے سرغنہ ہیں۔ 

پاکستان کی موجودہ سیاسی فضا میں نواز لیگ کو پہلے ہی اس الزام کا سامنا ہے کہ پنجاب کے وزیر قانون دہشت گردوں کے ساتھی ہیں اور وزیراعلٰی انہیں اپنا بھائی قرار دیتے رہے ہیں، جبکہ نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی پاکستان کے شدت پسند اور دہشت گرد گروپوں میں لشکر جھنگوی کا نام سب سے اوپر ہے اور کالعدم سپاہ صحابہ جیسے گروہ القاعدہ اور طالبان کی نرسری کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، تو یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ نواز حکومت دہشت گردوں کی حامی، موئید اور ہمنوا نہیں؟ اس کے باوجود اگر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جھنگ سے نا اہل قرار دیئے گئے نون لیگ کے ایم این اے شیخ اکرم کو اپنی نا اہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے سے ذاتی طور پر روکا ہے تو سب واضح ہے، اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نواز حکومت دہشت گروپوں کی نہ صرف حامی ہے بلکہ سیاسی طور پر انکی محتاج بھی ہے۔ اگر یہ مسلم لیگ نون کی سیاسی حکمت عملی ہے تو یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ احمد لدھیانوی کی پارلیمنٹ میں موجودگی نون لیگ کی سیاسی موت ثابت ہوگی، کیونکہ ہزاروں پاکستانیوں کے قاتلوں کو اقتدار میں حصہ دار بنانے پر نہ محب وطن عوامی قوتیں خاموش رہیں گئیں بلکہ ملکی اور بین الاقوامی فورمز میں لیگی حکام کو امن کی بات کرتے ہوئے حزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 371855
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش