0
Sunday 14 Sep 2014 16:08

انتخابی اصلاحات ہوتی ہیں تو اسکا کریڈٹ عمران خان اور طاہرالقادری کو جائیگا، شیخ جعفر خان مندوخیل

انتخابی اصلاحات ہوتی ہیں تو اسکا کریڈٹ عمران خان اور طاہرالقادری کو جائیگا، شیخ جعفر خان مندوخیل
شیخ جعفر خان مندوخیل صوبائی وزیر ریونیو ایکسائز و ٹرانسپورٹ بلوچستان ہیں۔ آپ شیخ سعداللہ خان مندوخیل کے صاحبزادے ہیں۔ جعفر خان مندوخیل 26 دسمبر 1956ء کو ضلع ژوب میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ژوب سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1979ء میں بلوچستان یونیورسٹی سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ مسلسل چار مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ 1990ء کو رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے اور گذشتہ سال 2013ء کو پی بی 19 ژوب سے رکن اسمبلی اور بعدازاں بلوچستان کابینہ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ اسلام آباد میں جاری سیاسی دھرنوں کے حوالے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عمران خان اور طاہرالقادری صاحب تو وزیراعظم کا استعفٰی چاہتے ہیں۔ حکومت کس طرح مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کر پائے گی۔؟
شیخ جعفر خان مندوخیل: میری تو گزارش یہی ہے کہ حکومت جو بھی فیصلہ کرتی ہے، کہاں تک جانا ہے اور کہاں تک نہیں جانا۔ وہ اکیلے گورنمنٹ نہیں کر رہی۔ پارلیمنٹ کے اندر پی ٹی آئی کے علاوہ جتنی بھی جماعتیں ہیں، ساری لیڈرشپ موجود ہے۔ جو لچک دکھانی ہے، جو آگے بڑھنا ہے یا پیچھے ہٹنا ہے۔ یہ سارا فیصلہ مشاورت سے ہوتا ہے۔ اسکے بعد پھر ان سے بات چیت کی جاتی ہے لیکن انہوں نے اپنی ترجیحات نہیں بدلیں، جوکہ بہت افسوسناک ہے۔ پی ٹی آئی کی بالکل ایک فکس پوزیشن ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے مطالبے سے ہٹنا ہی نہیں چاہتی۔

اسلام ٹائمز:‌ مذاکرات کیلئے جن سہولت کاروں (facilitators) کی بات کی جارہی ہے، کیا وہ مذاکرات میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔؟
شیخ جعفر خان مندوخیل: دیکھئے دو چیزیں ہیں۔ ایک ہے سہولت کار اور دوسرا ضامن۔ ضامن کی ذمہ داری تو شاید تھوڑی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن سہولت کار کیلئے تو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے خود کہا تھا کہ جب جنرل راحیل شریف سے بات ہوئی تو ہم نے کہا تھا کہ آپ سہولت کار کے طور پر معاملات کو حل کرنے کیلئے کردار نبھائیں۔ لیکن ہم اس رائے پر ہیں کہ اب اس روایت کو ختم ہو جانا چاہیئے۔ ایک زمانے میں امریکی سفارتکار ضامن ہوا کرتا تھا۔ ایک زمانہ گزرا تو معلوم ہوا کہ عرب ممالک سے ضمانتیں آرہی ہیں۔ پھر ایک زمانہ آیا کہ فوج ضمانت دیتی تھی۔ اس مرتبہ تمام سیاسی اکابرین نے کہا کہ مذاکرات کیلئے سیاسی جماعتیں ہی ضامن بنے گی۔ اگر ایک نتیجے پر ہم پہنچ جاتے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں جمہوریت کو محفوظ رہنا چاہیئے۔ اسکے درمیان اگر ضامن کی ضرورت پڑتی ہے تو یہاں پر حکومت ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی ہے۔ پھر جو بھی حق پر ہوگا، ہم سیاسی جماعتیں اسی کی ضمانت دینگے۔ اب جو آپ سہولت کار کی بات کر رہے ہیں تو جس وقت یہ بات ہوئی تو اس میں پیشرفت نہیں ہو پائی لیکن اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو بھی چاہیئے کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو استعمال کریں۔ جب آپ عوامی نمائندگی کی بات کرتے ہیں تو یہی آٹھ دس سیاسی جماعتیں ہیں۔ تو جب تمام جماعتیں ضامن بننے کیلئے تیار ہیں تو اس سے بڑھ کر انہیں کوئی دوسرا آپشن نہیں ملے گا۔

اسلام ٹائمز: پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتیں وزیراعظم کے استعفے کے خلاف تھیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ سہولت کار کی بھی بات ہوئی اور پھر انہوں نے بات چیت بھی کی۔ تو کیا یہ ایک ہی وقت میں دونوں‌ کو ناکام کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔؟
شیخ جعفر خان مندوخیل: جیساکہ میں نے کہا کہ اگر آپ باہر سے کسی سہولت کار یا ضامن کو لائینگے، تو یہ پاکستان کے سیاسی نظام کیلئے نیک شگون نہیں ہوگا۔ اسی لئے پارلیمنٹ ہی کو فیصلہ کرنا ہے اور اسکی ضمانت دینی ہوگی۔ جب آپ باہر سے ضامن کو درآمد کرتے ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ضامن اپنے مطالبات بھی منواتا ہے۔ جب شاہ محمود قریشی صاحب پارلیمنٹ میں آئے اور انہوں نے تقریر کی کہ یہ ہمارا سیاسی کعبہ ہے۔ لیکن اپنی پوری تقریر میں انہوں نے وزیراعظم سے استعفے کی بات نہیں کی۔ گویا وہ اشارہ دے رہے تھے کہ کچھ بات چیت اب بھی ہو سکتی ہے۔ حکومت کو اس مخفی آفر کا فوراً جواب دینا چاہیئے تھا لیکن بدقسمتی سے حکومت کے کچھ وزراء نے جلتی پر تیل کا کام کیا جوکہ انتہائی غلط اقدام تھا۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی صاحب اسی لئے پارلیمنٹ آئے تاکہ حکومت کو ایک سافٹ پیغام دیا جا سکے۔ تو اب اس مسئلے کے حل کیلئے حکومت کس طرح آگے بڑھ پائے گی۔؟
شیخ جعفر خان مندوخیل: سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ حکومت کیجانب سے سخت گیر لہجے والوں کو ایک طرف کرنا ہوگا۔ حکومت اپنے وزراء سے کہے کہ وہ بیان بازی نہیں کریں۔ دوسری جانب سے اگر عمران خان کی بات پی ٹی آئی کی پالیسی ہے تو عمران خان بھلے کچھ بھی کہے، اب انہیں کنٹینر پر کھڑے ہوکر وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ نہیں دہرانا چاہیئے۔ وہ چاہے حکومت کو برا بھلا کہے اور الیکشن میں دھاندلی کی بات کرے لیکن یہ نہ کہے کہ میں نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ واپس لے لیا ہے۔ وہ اس مطالبہ کو مت دہرائے۔ اسی طرح اگر پارلیمنٹ میں بحث جاری بھی ہے تو ایک قرارداد اب آنی چاہیئے۔ جسکا پہلا نقطہ یہی ہونا چاہیئے کہ ریاست کے ستونوں پر حملہ سیاسی آزادی نہیں۔ انتخابی اصلاحات کیلئے فوری عملی اقدامات ہونے چاہیئیں، جسکا مطالبہ تمام سیاسی جماعتوں نے کیا ہے اور اگر انتخابی اصلاحات صحیح معنوں میں ہوتی بھی ہیں تو اسکا کریڈٹ عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کو ہی جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 409673
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش