0
Friday 28 Mar 2014 22:45

خطے میں جاری جنگ کا مقصد اسرائیل کا دفاع اور فلسطینی کاز کو کمزور کرنا ہے، صابر کربلائی

خطے میں جاری جنگ کا مقصد اسرائیل کا دفاع اور فلسطینی کاز کو کمزور کرنا ہے، صابر کربلائی
صابر کربلائی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے، اس وقت فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی ترجمان اور گلوبل مارچ ٹو یروشلم کی سینٹرل کمیٹی کے اہم رکن ہیں۔ تعلیمی حوالے سے اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کراچی ڈویژن کے اہم عہدوں پر بھی کام کرتے رہے ہیں، صابر کربلائی کا شمار اُن فعال ترین افراد میں ہوتا ہے جو فلسطین اور القدس کی آزادی کی خاطر دن رات کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے فلسطین کی موجودہ صورتحال، خطے میں جاری امریکی و اسرائیلی جنگ، اس کے فلسطینی کاز پر اثرات اور فلسطین فاونڈیشن کن امور کو انجام دے رہی ہے سمیت دیگر اہم ایشوز پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: فلسطین فاونڈیشن پاکستان آئندہ کا کیا لائحہ عمل رکھتی ہے اور مظلوم فسطینی عوام کیلئے مزید کیا پیش رفت ممکن ہے۔؟

صابر کربلائی: جی، اس حوالے سے 30 مارچ کو ملک بھر میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ’’Palestinians Land Day‘‘ منایا جائے گا جبکہ پندرہ اپریل کو فلسطینیوں کی اپیل پر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ’’Stop U.S aid to Israel‘‘مہم کے تحت عالمی یوم احتجاج منایا جائے گا اور عالمی استعمار امریکہ کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔ ہم نے ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ مسلم امہ کے اہم ترین مسئلے فلسطین کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور پاکستان کو امریکی و صیہونی سازشوں سے محفوظ رکھنے کے لئے فلسطینی کاز کی حمایت جاری رکھیں، آج عالمی استعمار امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر الجھا دیں، تاکہ پاکستان مسلم امہ کے اہم ترین مسائل میں کسی قسم کا اہم کردار ادا کرنے کی قوت سے محروم ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا دیکھتے ہیں کہ اس وقت پورا خطہ جل رہا ہے، عالم استعمار نے فلسطین کے حامی ممالک میں داخلی جنگ کرا دی ہے، ایسی صورت میں کیسے ممکن ہے کہ فلسطین کا ایشو اٹھایا جائے۔؟

صابر
کربلائی: آپ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اس وقت پورے کا پورا مشرق وسطٰی آگ میں جل رہا ہے اور کوئی بھی ایسی مسلم حکومت موجود نہیں ہے کہ جو ان حالات میں امت کے اصل مسائل کی طرف توجہ دلائے، البتہ ایک آدھ مسلم ریاست مسئلہ فلسطین جیسے بنیادی معاملے کی طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش میں مصروف ہے، تاہم یہ کوششیں بھی کافی نہیں ہیں، بہرحال حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور دنیا کا نقشہ بھی شاید تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور ان سب میں آخر کار مسلم حکومتوں کا بھی کردار موجود ہے، مثال کے طور پر مصر میں ایک اسلامی جماعت کی کامیابی کو ختم کرنے کے لئے ایک اسلامی عرب ریاست نے فنڈنگ کی اور یہ بھی نہ سوچا کہ مصر کی اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے کا نقصان براہ راست جہاں امت مسلمہ کو پہنچے گا، وہاں فلسطین کے معاملے کو بھی شدید زک پہنچے گی۔
دوسری طرف شام ہے کہ جہاں کی حکومت نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے اور فلسطینی جماعتوں کو نہ صرف مالی بلکہ مسلح مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ شام میں دفاتر اور دیگر مراعات عنایت کی تھیں، آج امریکہ اور اسرائیل سمیت ہمارے ہی چند مسلم عرب حکمران اس کوشش میں مصروف ہیں کہ شام کی وہ حکومت کہ جو اسرائیل مخالف اور فلسطین کاز کی حامی ہے، اسے ہٹا دیا جائے اور اس کام کو پورا کرنے کے لئے مسلح دہشت گرد گروہوں کو مالی اور مسلح مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے، جس کے ثبوت آج پوری دنیا کے سامنے ہیں کہ شام کے معاملے میں مسلم عرب حکمرانوں کا کردار کیا ہے۔؟

اسلام ٹائمز: اس ساری صورتحال میں پاکستان کو کہاں دیکھتے ہیں۔؟

صابر کربلائی: پاکستان کے حالات ہمارے سامنے ہی ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دہشتگردی عروج پر ہے، حتٰی ہماری حکومت بھی ان کے سامنے بے بس ہوگئی ہے، پاکستان سے کچھ عرب مسلم حکمران دوسرے عرب ممالک میں فوجیں بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں، پاکستانی اسلحہ بھیجنے کی بات کی جاتی ہے، تاکہ کل کو اگر شام میں یا کسی اور مقام پر بین الاقوامی نگرانی کے ماہرین پہنچیں تو وہ یہ کہہ سکیں کہ اس ملک
میں خانہ جنگی میں استعمال ہونے والا اسلحہ پاکستان سے آیا تھا، لوگ پاکستان سے آئے تھے، پاکستان کے خلاف یہ گہری سازش رچانے والا عالمی استکبار امریکہ اور اسرائیل ہے لیکن ان دونوں کے ساتھ ساتھ کچھ عرب نادان مسلم حکمران بھی ہیں، جو اس مجرمانہ فعل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
بحرین کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جہاں پر عرب حکمران اپنی بادشاہتوں کو قائم رکھنے کے لئے اپنے ہی وطن کے بےگناہ عوام کے قاتل بنے ہوئے ہیں، لبنان میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ لبنانی فوج کو کمزور کرنے کے لئے دہشتگردانہ حملوں کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ لبنان کی سیاسی و مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے مجاہدین کو بھی کہیں ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہیں بم دھماکوں کے ذریعے پوری پوری آبادیوں کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے اور اس سب کام میں جہاں عالمی استعماری قوتیں امریکہ، اسرائیل اور یورپ ملوث ہیں، وہاں ہمارے یہ مسلم عرب حکمران جو اپنے ذاتی فوائد اور ذاتی اختلافات کی بنیاد پر برابر کے شریک کار ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہاں ایک واضح سوال اٹھتا ہے کہ آخر ان تمام ممالک میں عدم استحکام اور مسائل کی اصل وجہ کیا ہے۔؟

صابر کربلائی: میرے خیال سے ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت دنیا کی تمام ایسی مسلم ریاستوں کو عدم استحکام کا شکار کیا جا رہا ہے کہ جو کسی بھی وقت اور کبھی بھی مسلم دنیا کے اہم ترین مسائل میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، اور پورے خطے میں بگڑتی ہوئی صورتحال میں اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ فلسطین اور القدس ہے کہ جسے پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مسلم امہ کو اندرونی اختلافات اور مسائل میں الجھا کر انہیں اس بات پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اندرونی مسائل میں الجھے رہیں اور امریکی سازش کے تحت فرقہ واریت اور دیگر خطرناک مسائل میں پریشان رہیں اور مسئلہ فلسطین کے حل میں کوئی کردار ادا نہ کرسکیں۔

اسلام ٹائمز :گذشتہ دنوں ڈیوڈ کیمرون کے دورہ اسرائیل، محمود عباس کے دورہ امریکہ اور
جان کیری کے بیانات کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟

صابر کربلائی: یہ بہت اہم سوال ہے، برطانوی سامراج اور امریکی استکبار کے اعلٰی حکام صیہونی غاصب ریاست اسرائیل کے دورے کرتے پھرتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد صدر محمود عباس کو بھی امریکہ دعوت دی جاتی ہے اور ہر طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح فلسطین کے عوام اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کر لیں اور اپنے حقوق سے دستبردار ہوجائیں۔ مسلم امہ کا مقدس ترین مقام قبلہ اول بیت المقدس اس وقت خطرے میں ہے اور مسلم امہ کہاں ہے۔؟ مسلم امہ کے تیسرے مقدس مقام بیت المقدس قبلہ اول کا کہ جو گذشتہ پینسٹھ برسوں سے صیہونی شکنجہ میں ہے اور آئے روز صیہونیوں کے حملوں کا نشانہ بھی بن رہا ہے تو کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے کہ مسلم امہ اب بھی بیدار ہوجائے اور امریکی اور اسرائیلی سازشوں کے چنگل سے نکل کر امت کو یک جان بنانے کا کام کرے۔
کیا وہ عرب حکمران جو امریکی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں، مسلم امہ کے مفادات اور مقدسات کے تحفظ کے لئے ایک میز پر نہیں بیٹھ سکتے۔؟ یا پھر شاید بیٹھنا ہی نہیں چاہتے۔ قبلہ اول کی پکار آج بھی گونج رہی ہے کہ کیا ہے کوئی جو ماضی کے نامور مسلم مجاہد قائدین کی طرح آج بھی قبلہ اول کی آزادی کے لئے جدوجہد کرے۔ سوال پھر وہی ہے کہ قبلہ اول خطرے میں ہے اور مسلم امہ کہاں ہے؟ مسلم امہ اپنے فروعی اور ذاتی مسائل میں الجھی ہوئی ہے یا پھر امریکہ نے ان کو ایسے مسائل میں الجھا دیا ہے اور خود فلسطین کے نام نہاد صدر محمود عباس کے ساتھ مل کر فلسطین کا سودا کرنے میں مصروف عمل ہے۔

اسلام ٹائمز: فلسطین کے شہر قدس (یروشلم) کی موجودہ صورتحال کیا ہے۔؟

صابر کربلائی: جی وہاں آئے روز صیہونی فلسطینیوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، صیہونزم کے پیرو کار مسلسل ان کوششوں میں مصروف عمل ہیں کہ قبلہ اول کو یہودیا لیا جائے اور اسے یہودیوں کی مستقل عبادت گاہ کے طور
پر متعارف کروایا جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم امہ اپنے تیسرے مقدس مقام اور قبلہ اول سے مکمل طور پر دستبردار ہوجائے۔ صیہونی یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسجد اقصٰی بیت المقدس کا کنٹرول صیہونیوں کے حوالے کیا جائے اور اسرائیلی کنیسٹ اس کے تمام تر اختیارات کی مالک ہو، جبکہ موجودہ دور میں مسجد اقصٰی کے معاملات اردن کی طرف سے سنبھالے جاتے ہیں۔ صیہونیوں نے قبلہ اول کے خلاف ایک واضح اور خطرناک منصوبہ بندی کی ہے، جس کے تحت وہ مسجد اقصٰی کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ مسجد اقصٰی کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی منصوبی بندی کر رہے ہیں، لیکن سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ مسلم امہ کیا کر رہی ہے اور کہاں ہے؟ کیا مسلم امہ اپنی آپس کی لڑائیوں کو ترک کرکے امت کے وسیع تر مفاد کے لئے قبلہ اول کی بازیابی کے لئے ان مٹھی بھر صیہونیوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں نہیں ملا سکتی؟، حالانکہ صیہونیوں کے یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہیں، کیونکہ بین الاقوامی قوانین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی بھی علاقے کی جغرافیائی صورتحال کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے اور صیہونی قابضین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قبلہ اول کو یہودیوں کا مقدس مقام قرار دے کر مسلمانوں کو اس سے دستبردار کر دیں۔

صیہونی جارح ریاست اسرائیل نے ایک نہیں دو مرتبہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، پہلے فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا اور اب مسلمانوں کے مقدس مقام قبلہ اول کو یہودیانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں قدس کے اوقاف کا انتظام اردن کے زیرانتظام ہے اور اسرائیل اسے تبدیل کرکے اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے، تاکہ مسلمانوں اور فلسطینیوں کو القدس سے دور رکھا جائے۔ واضح رہے کہ اردن کے پاس یہ اختیار فلسطین اور اردن کے مابین ہونے والے ایک معاہدے کے تحت دیا گیا ہے۔ اس معاہدے میں دستخط کئے گئے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدسات کا القدس میں تحفظ کیا جائے گا جو کہ وہاں
پر پہلے سے موجود ہیں، جبکہ اگر غور کیا جائے تو ان مقامات پر صیہونیوں کا کوئی ایسا مقدس مقام موجود نہیں کہ جس کی خاطر صیہونی قبلہ اول کو یہودیانے کی کوشش کریں، تاہم صیہونی ایسا کرنے میں مصروف ہیں۔

اسلام ٹائمز: عالمی قوانین میں کیا لکھا ہے، اس بارے میں اسرائیل سے کیا کہا گیا ہے۔؟

صابر کربلائی: بین الاقوامی قوانین میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فلسطینیوں کی زمینوں پر مسلط ہوجائے اور قبلہ اول مسجد اقصٰی کے خدوخال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں اسرائیل کو ایک غاصب ریاست تصور کیا گیا ہے کہ جس نے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا ہے، Hague Regulations کی شق 42 میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور فلسطین پر قبضہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل نے چوتھے جنیوا کنونشن کے تمام فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا ہے کہ جس میں اسرائیل کو کہا گیا ہے وہ فلسطینی زمینوں پر قبضے اور القدس کے حوالے سے خدوخال تبدیل کرنے سے اجتناب کرے۔

اسلام ٹائمز: خطے کی امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں کس طرح سے اس مسئلہ کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔؟

صابر کربلائی: دیکھیں، ایک بات واضح ہے وہ یہ کہ مشرق وسطٰی سمیت افریقائی ممالک اور ایشائی ممالک میں پیدا شدہ بھونچال کا براہ راست فائدہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو پہنچ رہا ہے اور اس کا براہ راست نقصان فلسطین اور فلسطینی کاز کو پہنچ رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان تمام مسائل اور غیر مستحکم صورتحال میں اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ فلسطینی ہیں۔ ایک طرف اسرائیلی دشمن نے مسلم دنیا کو آپس میں باہم دست و گریباں کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب وہ فلسطین پر اپنے مکمل تسلط سمیت مشرق وسطٰی اور ایشیاء میں گریٹر اسرائیل جیسے ناپاک منصوبے کی تکمیل کی طرف آگے بڑھ رہا ہے، مسلم امہ کہاں ہے؟ کیا مسلم امہ اب بھی بیدار نہ ہوگی؟ اگر اب بھی بیدار نہ ہوئی تو پھر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 366671
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش