0
Friday 20 Dec 2013 22:48
دنیا بھر کے یہود و ہنود ایک ہو کر مسلمانوں کے پیچھے پڑے ہیں

بھارت میڈیا کے ذریعے عالمی برادری کو گمراہ کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گیا ہے، نعیم احمد خان

بھارت میڈیا کے ذریعے عالمی برادری کو گمراہ کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گیا ہے، نعیم احمد خان
نعیم احمد خان کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شمالی ضلع بارہمولہ سے ہے، آپ عہد جوانی سے ہی کشمیر تنازعہ کے حل کی خاطر سیاسی سطح پر محو جدوجہد ہیں اور اسکول کے زمانے سے ہی آپ کو بھارتی مظالم کا شکار کیا گیا ہے آپ کو پہلی بار 1980ء میں قابض فوج نے حراست میں لیا تھا، آپ کے گھرانے نے تحریک آزادی کشمیر کے لئے بے انتہا قربانیاں دی ہیں،  نعیم خان نے 1979ء میں جموں و کشمیر پیپلز لیگ جوئن کر لی اور 1985ء میں بحثیت چیئرمین اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ میں فعال رہے اور جب 1996ء میں پیپلز لیگ تقسیم ہوئی تو آپ کے قریبی ساتھی شبیر احمد شاہ نے فریڈم پارٹی عمل میں لائی تو 1997ء میں نعیم احمد خان نے نیشنل فرنٹ کا قیام عمل میں لایا، 1993ء میں کل جماعتی حریت کانفرنس بنانے میں آپ کا رول مثالی تھا اور 1987ء میں مسلم یونائٹڈ فرنٹ کے قیام میں بھی آپ پیش پیش رہے، آپ کل جماعتی حریت کانفرنس (م) کے بااثر لیڈر مانے جاتے اور وہاں نیشنل فرنٹ کو خاص اکائی حاصل تھی لیکن ابھی حال ہی میں آپ نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی ہے، نعیم احمد خان نے اپنے زندگی کے کئیں سال بھارت کے جیل خانوں میں گذارے ہیں، اسلام ٹائمز نے نعیم احمد خان سے مسئلہ کشمیر، ہند و پاک تعلقات و مذاکرات اور مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت کے سلسلے میں ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جموں و کشمیر نیشنل فرنٹ کا موقف جاننا چاہیں گے۔؟
نعیم احمد خان: جموں کشمیر نیشنل فرنٹ کا واضح موقف یہ ہے کہ جموں کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارے کے اندر جو ڈیڑھ درجن قراردادیں پاس ہوئی ہیں اُن پر عمل درآمد ہو، اس کے علاوہ بھارتی لیڈروں نے بھی جموں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ جو وعدے کئے ہیں اُن کو پورا کیا جائے، اگر کسی وجہ سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل در آمد ممکن نہیں ہے تو پھر کشمیریوں کی مزاحمتی لیڈر شپ، بھارت اور پاکستان کے مابین سہ فریقی بات کا اہتمام ہو تاکہ جنوب ایشیاء کے اندر پنپ رہے اس سیاسی ناسور کو ہمیشہ کیلئے حل کیا جا سکے، جموں کشمیر نیشنل فرنٹ یہاں کی غالب اکثریت کے اعلیٰ تہذیب اور کلچر کا تحفظ چاہتی ہے جو صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب یہاں کے لوگوں کو استصواب رائے عامہ کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے۔

اسلام ٹائمز: جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت کو آپ کن الفاظ میں بیان فرمائیں گے۔؟

نعیم احمد خان: بھارت جو پوری دنیا کے اندر سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا سوانگ رچاتا پھر رہا ہے، کشمیری عوام پر جو ظلم و جبر ڈھا رہا ہے اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی انصاف پسند شخص کہے گا کہ بھارت کا اصل چہرہ دیکھنا ہو تو کشمیر جاﺅ، بھارت کی قابض فورسز نے محض گذشتہ 25 برس کے دوران ایک لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ قابض قوتوں نے مقامی آلہ کاروں کے تعاون سے 10 ہزار لوگوں کو دوران حراست لاپتہ بنا دیا جن کی بیویوں کو ”آدھی بیوائیں“ کہا جاتا ہے کیونکہ اُنہیں یہ بھی نہیں بتایا جا رہا ہے کہ اُن کے شوہر زندہ ہیں یا مردہ اس لئے ان کو بیوائیں بھی نہیں کہا جا سکتا ہے، ابھی کچھ عرصہ قبل خاص کر شمالی کشمیر میں 3 ہزار سے زیادہ بے نام قبریں دریافت ہوئیں جن میں مدفون لوگوں کے بارے میں بھی بھارتی یا ریاستی سرکار کی سطح پر کچھ نہیں کہا جارہا ہے، کروڑوں روپیے کی املاک کو خاکستر بنانا اور سب سے بڑھ کر ہماری عفت ماب بیٹیوں کی عصمت تار تار کرنا بھی بھارتی قابض فورسز کے ہی کارنامے ہیں، کشمیر پر بھارتی جارحیت کو الفاظ کا لباس پہنانا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہے، ہاں متاثرین کے اعداد و شمار خود اس بات کی دلیل ہیں کہ بھارت جس طرح عالمی سطح پر پہچانا جاتا ہے وہ اُس کی اصلیت نہیں ہے، ممکن ہے کہ لکھن پور کے اُس پار بھارت کے جمہوری دعویٰ صحیح ثابت ہوں مگر جموں کشمیر کے اندر اُس کی حیثیت ایک ظالم، جابر، جارح اور قابض کی ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے فوجی جماؤ کے ہوتے ہوئے کیا حقوق انسانی کی پاسداری و لحاظ کرنا ممکن ہے۔؟

نعیم احمد خان: جدید دنیا میں اگر انسانی حقوق کی پامالی دیکھنی ہو تو بدقسمتی سے اُس کیلئے کشمیر واحد خطہ ارض ہے، یہ ساری پامالیاں بھارت صرف اپنے ناجائز فوجی قبضے کو جاری رکھنے کیلئے انجام دیتا آ رہا ہے، اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارتی قبضے کی موجودگی میں ان کے اندر کوئی کمی واقع ہو، البتہ بھارت میڈیا کے ذریعے عالمی برادری کو گمراہ کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوگیا ہے، وہ یہ تاثر دیتا آ رہا ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری کا سبق صرف وہی جاتنا ہے، میرا یہ دعویٰ ہے کہ بھارتی قبضہ کی موجودگی میں جموں کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی پاسداری کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے، کیونکہ استصواب رائے عامہ سے محروم رکھنا یہاں کے لوگوں کے ساتھ سب سے بڑی اور اولین حقوق کی پامالی ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی طاقتیں کیوں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے دوہرے پن کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔؟

نعیم احمد خان: عالمی طاقتوں کو بھارت کی صورت میں ایک بہت بڑی تجارتی منڈی ملی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ موجودہ اقتصادی دنیا کے اندر نئی دہلی کو ناراض کرکے اپنے لئے تجارتی نقصانات پیدا کریں، میرے خیال میں یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں نئی دہلی کیخلاف کھل کر نہیں آتی ہیں اور دوہرے پن کا مظاہرہ کر رہی ہیں، ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت کیخلاف مزاحمتی تحریک میں یہاں کی مسلم اکثریت ملوث ہے، میرا دعویٰ ہے کہ اگر ہمارے جیسے مطالبات یہاں کے اقلیتی ہندو کر رہے ہوتے تو اُن کے حق میں پوری دنیا سے آوازیں اُٹھ گئی ہوتیں، آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ مشرقی تیمور اور شمالی سوڈان میں اسی صدی کے اندر استصواب رائے عامہ انجام دیا گیا کیونکہ وہاں مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم اس کا مطالبہ کر رہے تھے، یہ ایک ہمالیائی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے یہود و ہنود ایک ہو کر مسلمانوں کے پیچھے پڑے ہیں اور وہ مسلمانوں کو انسانی زمرے میں ہی نہیں رکھ رہے ہیں تو وہ کیسے مسلمانوں کے حقوق کے حق میں اپنی آواز بلند کریں گے، یہود و ہنود کے تعاون سے ہی دنیا کے اندر دوہرے میعار کا جنم ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا عالمی طاقتوں کے مثبت رویئے سے مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے۔؟

نعیم احمد خان: میں ابھی مشرقی تیمور اور شمالی سوڈان کی بات کر رہا تھا، کسے لگتا تھا کہ وہاں کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے مگر جب عالمی طاقتوں نے چاہا تو دونوں خطوں کے مسائل حل ہو گئے، مجھے لگتا ہے کہ اگر اقوام متحدہ عالمی قوتوں کی لونڈی نہ بنے اور وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کسی تعصب کو بیچ میں نہ آنے دے تو کوئی بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جموں و کشمیر کی غالب اکثریت الیکشن مہم کا حصہ بن جاتی ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟

نعیم احمد خان: جموں کشمیر میں الیکشن کا موضوع بہت ہی دلچسپ ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اور لوگوں کی طرح ہی یہاں کے لوگوں کے بھی اپنے مسائل ہیں، یہاں بننے والی حکومتوں کا مینڈیٹ سڑکوں اور بیت الخلاﺅں کی تعمیر سے زیادہ نہیں ہے، لوگوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی بھی یہاں کی سرکار کے مینڈیٹ میں آتا ہے مگر جب بھی الیکشن کا ٹائم آتا ہے ایک ایسی ہوا کھڑی کی جاتی ہے کہ جیسے یہ بھارت یا اس خلاف رائے کا معاملہ ہو، یہاں کی بھارت نواز جماعتیں بھی ایسے بیانات دینا شروع کرتے ہیں جیسے تنازعہ کشمیر اُنہیں ہی حل کرنا ہو حالانکہ حقیقت میں وہ نئی دہلی کے آلہ کار ہیں اور نئی دہلی کی ہی ایماء پر وہ ایک ایسا ہوّا کھڑا کرتے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ووٹ دینا اصل میں بھارت کے حق میں ووٹ ہے اور اس کا بائیکاٹ کرنا اس کیخلاف رائے ہے، اگر ایسا ہی ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ نوے کی دہائی کے آغاز میں یہاں صرف دو فیصد ووٹوں کا استعمال کیا گیا، اگر وہ بھارت کیخلاف ووٹ تھا تو پھر کیوں بھارت یہاں سے نہیں نکلا ہاں،کشمیریوں نے اس جمہوری عمل میں بھی حصہ لیکر بہترین نمائندوں کو ایوان اسمبلی تک پہنچانے کی کوشش کی تاکہ اس ایوان کو استعمال کرکے تنازعہ کشمیر کو اُجاگر کیا جا سکے، آپ کو معلوم ہی ہو گا، حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین صاحب بھی الیکشن لڑ چکے ہیں مگر اسلام پسندوں کو کامیابی سے دور رکھنے کیلئے کون کون سے حربے استعمال میں لائے گئے وہ یہاں کی تاریخ کا ایک حصہ ہیں، ایسے تمام تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی یہاں کی مزاحمتی قیادت نے بعد میں نوے کی دہائی کے آغاز سے الیکشنوں میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔

الیکشن عمل میں بھارت نواز لوگوں کا ووٹ حاصل کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو زندہ رہنا ہے اور اُس کیلئے اُن کی کچھ ضرورتیں ہیں اس لئے وہ الیکشن عمل کا حصہ بنتے ہیں، مگر بدقسمتی سے بھارت پھر اپنی شاطرانہ مزاجی کا استعمال کرکے دنیا کو یہ تاثر دیتا آ رہا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ ووٹ کا استعمال کرکے اصل میں بھارت کے حق میں ووٹ دیتے ہیں، میرا چیلنج ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو بھارت آنے والے الیکشنوں کے بارے میں یہ اعلان عام کرکے کہ یہ الیکشن بھارت یا اس کے خلاف ووٹ کی صورت میں لیا جائے گا، پھر مزاحمتی قیادت کو اپنی بات عوام تک پہنچانے کی کھلی چھوٹ دی جائے تو دو یا زیادہ سے زیادہ تین فیصد ووٹ پڑے گے، مگر بھارت نواز سیاست کار چانکیائی سیاست کا استعمال کرکے لوگوں کو اُن کی ضروریات کیلئے ووٹ مانگتے ہیں اور جب وہ ووٹ دیتے ہیں تو اُس کو بھارت کے حق میں ووٹ کا نام دیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ کشمیری قوم جذباتی قوم ہے اور یہ بروقت عقل و دماغ سے کام نہیں لینا چاہتی۔؟

نعیم احمد خان: یہ بھی بھارت کے ہی پروپیگنڈا کا نتیجہ ہے، ہاں یہاں کے لوگ جذباتی واقع ہوئے ہیں کیونکہ طویل غلامی نے اُن کے اذہان کو کافی حد تک متاثر کر رکھا ہے، پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہاں کا کوئی بھی شہری متاثرین کی فہرست سے الگ نہیں ہے، آپ انصاف کیجئے کہ ظلم کا مارا ایک انسان جذباتی نہیں تو اور کیا ہو سکتا ہے، مگر یہ الزام کہ یہاں کے لوگ بروقت عقل سے کام نہیں لیتے ہیں یہاں کے آزادی پسند لوگوں کی اسلام نوازی کی توہین ہے۔

اسلام ٹائمز: ہند و پاک مذاکراتی عمل سے آپ کی کیا امید وابستہ ہے، اور کیا یہ مذاکرات ثمر آور ثابت ہو سکتے ہیں۔؟

نعیم احمد خان: بھارت اور پاکستان کے مابین بات چیت کا عمل اُتنا ہی پرانا ہے جتنا تنازعہ کشمیر مگر حقائق گواہ ہیں کہ ان سے آج کوئی بھی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اس کی واحد وجہ ہے کہ ان دوطرفہ مذاکرات و معاہدات میں کشمیریوں کو نمائندگی نہیں دی گئی، ہم مذاکراتی عمل کیخلاف نہیں ہیں مگر یہ مذاکرات بامعنی ہوں اور ان میں یہاں کے نمائندوں کو ساتھ لیکر تنازعہ کو ایڈریس کیا جائے تو نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، البتہ ہم نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین بہتر تعلقات کے خلاف نہیں ہیں، دونوں ممالک اپنے تعلقات بڑھانے کیلئے بات چیت کر سکتے ہیں مگر جنوب ایشاء کے اندر قیام امن کیلئے تنازعہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے جس کیلئے کشمیریوں کا بات چیت میں شامل ہونا پہلی اور واحد شرط ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ غالباً عسکری محاذ پر بھی فعال رہے ہیں، کیا عمل دخل ہے بندوق کا مسئلہ کشمیر میں، کیا بندوق ہی آخری حل ہے اس مسئلہ کا۔؟

نعیم احمد خان: کشمیری عوام اپنے حقوق کی حصول یابی کیلئے سیاسی، عسکری اور سفارتی محاذوں پر سرگرم ہیں، ان میں سے کوئی بھی شعبہ غیر ضروری نہیں ہے، جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ کشمیریوں نے تمام جمہوری طریقے ناکام ہونے کے بعد ہی اڑھائی دہائی قبل بندوق کا سہارا لیا، بندوق اُٹھائے رکھنا یہاں کے لوگوں کا کوئی مشغلہ یا شوق نہیں ہے، اگر عالمی برادری چاہے اور وہ بھارت کو یہاں کے لوگوں کے سیاسی مطالبات پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری کرانے یا سہ فریقی بات چیت پر آمادہ کرے تو اگلے ہی روز ہمارے عسکریت پسند بندوق ترک کرکے تعمیری عمل کا حصہ بنیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیوں عالم اسلام کے مسلم رہنما مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پر متفق نہیں ہوتے، اور ان دو اہم مسائل کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔؟

نعیم احمد خان: آپ جس کو عالم اسلام کہتے ہیں وہ اصل میں عالم مسلمان ہے، 57 ممالک پر مشتمل۔ ممالک اصل میں ”اسلامی“ نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان میں اسلامی اُخوت کا جذبہ باقی نہیں رہا ہے، اسلامی ممالک کی تنظیم کو ہی لیجئے، وہ بھی کشمیر یا فلسطین کے بارے میں قراردادیں پاس کرنے کی حد سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے، ابھی حال ہی میں بھارت نے پھر کشمیر کے بارے میں اُس کی قرارداد مسترد کر دی، 57 ممالک عالمی قوتوں کی غلامی سے آزاد ہوں تو کافی کچھ کر سکتے ہیں، عالم اسلام کو دو بنیادی مسائل کا سامنا ہے، ایک تنازعہ کشمیر اور دوسرا تنازعہ فلسطین مگر بدقسمتی سے اسلامی ممالک مل کر کسی ٹھوس اقدام کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور قصور خود اُن کا ہے وہ خود بٹے ہوئے ہیں اور وہ کہیں امریکہ اور کہیں بھارت جیسے اسلام اور مسلمان دشمنوں کے اثر میں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 332173
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش