0
Saturday 18 Oct 2014 22:33

شیخ نمر باقر النمر کا مقدمہ

شیخ نمر باقر النمر کا مقدمہ
تحریر: سید اسد عباس تقوی

نمر باقر النمر کا قصور یہ ہے کہ وہ ایک ایسی سرزمین پر پیدا ہوئے جس کا حوالہ دیتے ہوئے فیض نے کہا تھا:
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

نمر کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خطے کے عوام کے حقوق کی بازیابی کا نعرہ بلند کیا اور ملوکیت کو للکارا۔ وہ ملوکیت جو اگر نمرود کو ملے تو ابراہیم خلیل اللہ کو آگ میں جلا دے، اگر فرعون کو ملے تو موسٰی کلیم اللہ اور ان کی قوم پر عرصہ حیات تنگ کر دے، مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں آئے تو عیسٰی کلمۃ اللہ کو سولی پر چڑھا دے اور اگر یزید کو ملے تو خانوادہ رسالتؐ اس ملوکیت کے انتقام کا نشانہ ٹھہرے۔ نمر باقر النمر کہاں اور غرور ملوکیت کہاں۔؟
 
ملوکیت نام ہی غرور اور تکبر کا ہے۔ انسان اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔ اپنے ہی جیسے انسانوں کو من پسند قوانین کے ذریعے کچلنے لگتا ہے۔ شیخ نمر باقر النمر سعودی عرب کے مشرقی خطے کی ایک معروف شخصیت ہیں، وہ بلا کے خطیب اور مستند عالم دین ہیں۔ اپنے خطے کے عوام کی محرومیوں پر بات کرنا ان کا معمول تھا۔ آپ اکثر خطبات جمعہ میں کہتے تھے :
"میں کلمہ حق ادا کرنے سے نہیں ڈرتا۔ چاہے اس کے لیے مجھے پابند سلاسل کیا جائے، مجھ پر تشدد ہو یا مجھے شہید کر دیا جائے۔"
اپنی تقاریر میں انہوں نے اکثر کہا:
"سعودی حکومت کی نظر میں شاہی خاندان کے افراد پہلے درجے کے شہری، ان سے تمسک رکھنے والے دوسرے درجے کے شہری اور مشرقی خطے میں بسنے والے افراد تیسرے درجے کے شہری ہیں۔"
 
وہ کہتے تھے:
"الشرقیہ کے عوام وہ لوگ ہیں جن کی مٹی سے کالا سونا نکال کر تم (سعودی شاہی خاندان) اپنی تجوریاں بھرتے ہو، لیکن اس خطے میں غربت ہے کہ روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔"
وہ کھلے عام سعودی حکمرانوں کو للکار کر کہتے تھے:
"تم نے اس خطے کے عوام کے وقار کو مجروح کیا اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا۔"
آپ اپنی تقاریر میں اکثر کہتے تھے:
"عدل و انصاف کا قیام جہاد کے بغیر ممکن نہیں اور پامال شدہ حقوق ایثار، قربانی اور شجاعت کے بغیر واگزار نہیں کرائے جاسکتے۔"
انہوں نے اپنے خطبات جمعہ میں بارہا کہا:
"الشرقیہ کے عوام اب توہین اور تجاوز کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔"
وہ کہتے تھے:
"میں جانتا ہوں کہ آخر کار تم مجھے گرفتار کرو گے، کیونکہ تمہاری منطق اور راہ و روش گرفتاری، تشدد اور قتل و غارت ہے لیکن آگاہ رہو کہ ہم تمھاری اس روش سے نہیں ڈرتے، ہمیں خدا کے سوا کسی کا خوف نہیں۔"
 
یہی وہ الفاظ ہیں جن کو فرد جرم بنایا گیا اور جن کی بناء پر شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت سنائی گئی۔ قارئین کرام! شیخ نمر سچ کہتے ہیں یا جھوٹ اس امر کو ایک جانب رکھیئے۔ کیا جدید دنیا کا کوئی بھی قانون صرف اس بناء پر کسی ملزم کو سزائے موت دے سکتا ہے کہ اس نے اپنے خطبات میں حکومت وقت کے خلاف گستاخانہ لب و لہجہ استعمال کیا۔ میری نظر میں ایسے ملزم کی زیادہ سے زیادہ سزا یہی ہوسکتی ہے کہ اسے ملک بد ر کر دیا جائے۔
نمر باقر النمر پر بلاد حرمین کی خصوصی عدالت نے جو فرد جرم عائد کی دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا وہ بھی سن لیجئے:
مسلکی جذبات کو برانگیختہ کرنا
دہشت گردوں کی مدد
خلیجی راہنماؤں اور علماء کی توہین
اور خدا کے خلاف اعلان جنگ
افسوس تو یہ ہے کہ سعودیہ کوئی عام اسلامی ملک نہیں اور نہ اس کے حکمران کوئی عام مسلمان حاکم ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل، یورپین سوسائٹی فار ہیومن رائٹس اور اسی طرح کے دیگر مغربی ادارے اس کیس میں ہونے والی پیشرفت کو دیکھ رہے ہیں۔ سعودی حکومت اور عدالتوں کا یہ فیصلہ اور خدا نخواستہ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد جہاں ایک جانب سعودی حکومت کی ساکھ کے لئے نقصان دہ ہوگا، وہیں مغربی دنیا میں عالم اسلام کے تصور کو مزید مسخ کرے گا۔
 
ایمنسٹی انٹرنیشنل جانتی ہے کہ شیخ نمر کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا، اسے معلوم ہے کہ شیخ نمر کو فوجی کمپاؤنڈ میں محصور رکھا گیا اور خصوصی عدالت کے ذریعے فرد جرم عائد کی گئی۔ ایمینسٹی اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں کو یہ بھی معلوم ہے کہ 2012ء سے 2014ء تک شیخ نمر کو کتنی مرتبہ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، وکیل صفائی کو کب کب بولنے کا موقع ملا اور کس طریقے سے اس فرد جرم کو ثابت کرکے سزا سنائی گئی۔ مغربی میڈیا پر درج ہے کہ خصوصی عدالت کے آخری فیصلے کے بعد شیخ نمر کے بھائی محمد النمر کو بھی گرفتار کیا گیا، جن کا جرم فقط یہ تھا کہ انہوں نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو ٹوئیٹر پر نشر کیا۔
 
قارئین کرام! شیخ نمر اب سعودیہ کے شہر الشرقیہ تک محدود کسی کردار کا نام نہیں ہے۔ اس عالم دین کی سزائے موت کی خبر پورے عالم اسلام میں جنگل کی آگ کی مانند پھیل چکی ہے۔ اس خبر نے العوامیہ، الشرقیہ، قطیف، احصاء کے ساتھ ساتھ بحرین، لبنان، افغانستان، عراق، ایران، کویت، شام، قطر، پاکستان، ہندوستان، برطانیہ، امریکہ غرضیکہ جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں، لوگوں کے دلوں کو بے چین کر دیا ہے۔ شیخ نمر جہاں آزادی و حریت کا استعارہ ہیں، وہیں آپ کے خلاف چلنے والے مقدمے کو ایک خاص مسلک کے خلاف معاندانہ روش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ 

اگر خدا نخواستہ اس سزا پر عمل درآمد ہوتا ہے تو یہ سیاسی قتل پوری امت مسلمہ میں شدید نفرت اور بے چینی کو جنم دے گا۔ امت مرحوم جو پہلے ہی مختلف محاذوں پر برسر پیکار ہے، اس سیاسی قتل کے بعد مزید دوریوں کا شکار ہوجائے گی۔ شیخ نمر سے محبت رکھنے والے جب کل ان کے قاتلوں کے خلاف آواز بلند کریں گے تو یقیناً امت کے کچھ قلوب کو رنج بھی پہنچے گا۔ لہذا اس تحریر کے ذریعے میں، پاکستان میں امت کا درد رکھنے والے افراد، ان کا تعلق خواہ علماء سے ہو یا سیاسی قائدین سے، فوجی افسران ہوں یا مذہبی راہنما جو حکومت سعودیہ سے اچھے تعلقات کے حامل ہیں، سے ملتمس ہوں کہ وہ سعودی حکومت سے اس معاملے پر نظرثانی کی درخواست کریں، تاکہ وہ عجلت میں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر گزریں، جو ملت میں مزید دوریوں کا باعث بنے۔ (وما علینا الا البلاغ)
خبر کا کوڈ : 415270
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش