0
Friday 17 Oct 2014 10:45

منافق سیاستدان اور بےبس عوام

منافق سیاستدان اور بےبس عوام
تحریر: تصور حسین شہزاد

سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو اسمبلی فلور پر جھوٹ بولنے پر نااہل قرار دیئے جانے کے بارے میں دائر درخواستوں پر کیس کی سماعت کرتے ہوئے جو سوال اٹھائے ہیں وہ بہت اہم اور چشم کشا ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ کی جانب سے اٹھنے والا یہ سوال تاریخی المیہ کی طرف اشارہ ہے کہ دستور پاکستان میں عوامی نمائندگی کی اہلیت کے بارے میں صادق و امین کی شق کس نے ڈالی۔ عوام کی نمائندگی کے لئے اہلیت کا معیار مقرر کرتے ہوئے صادق و امین کی شرط ڈالنے والا تو خود غاصب تھا۔ جس نے اقتدار پر شب خون مار کے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔ ایک دوسرے آمر نے بھی اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کر کے عوام کےساتھ وردی اتارنے کا وعدہ کیا مگر پھر منحرف ہو گیا۔ حیرت ہے کہ عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کرنے اور منتخب نمائندوں کو غیرآئینی و غیرقانونی طور پر گھر بھیج کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے عوامی نمائندگی ایکٹ میں ایسی شرائط ڈال کر چلے گئے جن پر وہ خود پورا نہیں اترتے تھے، مقتدر لوگوں کی یہی دو عمل تھے جس نے ہمارے پورے نظام کو تل پٹ کر کے ہمیں جمہوریت کے ثمرات سے محروم رکھا۔

آج پاکستان جن بحرانوں کا شکار ہو کر عدم استحکام سے دوچار ہے وہ ماضی کے آمرانہ ادوار کی غلط پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ عدالتی بنچ کی جانب سے کی گئی نشاندہی سو فیصد درست ہے کہ پاکستان میں آج تک برسراقتدار آنے والی کسی جماعت نے بھی اپنے انتخابی منشور پر کبھی عمل نہیں کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا نہ ہونا ایک بڑی مثال ہے جو ہر کسی کو یاد ہے مگر متحدہ مجلس عمل نے مشرف دور میں کے پی کے میں اقتدار سنبھال کر کب عدل و انصاف اور اسلامی مساوات کا نظام نافذ کر دیا تھا۔ اسی طریقے سے مسلم لیگ نون کے منشور میں شامل عوامی فلاح و بہبود کے کون سے وعدے ہیں جو ابھی تک ایفاء ہوئے ہیں یا جن کے پورے ہونے کی امید ہے۔ تحریک انصاف آج کے پی کے میں اقتدار میں ہے، مگر یہ اپنے زیر انتظام صوبے کے نظم و نسق میں موجود خرابیوں کو دور کر کے عوام کو ریلیف دینے کے سارے وعدے فراموش کئے گذشتہ انتخابات میں دھاندلی پر احتجاج پر توجہ مرکوز کئے اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھی ہے جہاں ایک طرف وہ موجودہ اسمبلیوں کو جعلی قرار دے کر ان کے انتخابات کو کالعدم قرار دلوانے کے لئے دن رات تقریریں کرتی ہے دوسری طرف اسی اسمبلی کی عمران خان کے کہنے پر جاوید ہاشمی کی چھوڑی ہوئی نشست پر ملتان میں ایک آزاد امیدوار کی حمایت کرتی ہے۔

سیاست دانوں کا یہی وہ منافقانہ رویہ ہے جس کی وجہ سے قوم ابھی تک منزل کی تلاش میں اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ اسی تناظر میں عدالت عظمٰی کے تین رکنی بنچ کی طرف سے کہی گئی یہ بات دعوت فکر دیتی ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ ان کی قسمتوں کے فیصلے کہاں اور کون کرتا ہے؟ ہماری آزادی محض کاغذ پر ہے، عملی طور پر ہم آج بھی ذہنی غلام ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہماری قوم کے صرف ایک یا دو فیصد افراد انگریزی سمجھ سکتے ہیں مگر کتنی بدنصیبی ہے کہ ہماری قسمتوں کے فیصلے انگریزی زبان میں لکھے جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر عوام کے ساتھ اور کیا فریب کاری ہو سکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ہمارے ارباب بست و کشاد ابھی تک ملک کے نظام تعلیم کو عوام کی امنگوں آرزوؤں اور ضرورتوں کے مطابق نہیں ڈھال سکے۔ جب بھی قوم کی تقدیر کا اہم ترین فیصلہ ہونا ہوتا ہے ارباب اختیار انگریزی زبان کی پیچیدہ مبہم قسم کی قانونی اصطلاحات کا سہارا لے کر قوم کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اسی لئے عدالتوں میں ہزاروں کیس محض اسی لئے معرض التواء میں پڑے ہیں کہ ان کے ضمن میں زیر بحث آنے والے نکات میں مستعمل قانونی اصطلاحات غیر ملکی زبانوں سے مستعار لی گئی ہیں۔ جن کی تشریح و توضیح کے جھملیوں میں الجھ کر فیصلے تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔

عدلیہ نے قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہہ کر کروڑوں پاکستانیوں کے دلی جذبات کی ترجمانی کی کہ ہم آج تک کاغذی آزادی ہیں۔ اصل آزادی حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔ عدالت عظمٰی کے فاضل بنچ کے اراکین کی یہ رائے بہت وزنی ہے کہ 1971ء کا دستور ایک قابل عمل دستاویز ہے جسے آئینی امور میں کمال دسترس رکھنے والے پختہ ذہن لوگوں نے بڑی عرق ریزی سے تیار کیا تھا۔ یہ محض کاغذ کا ایک پرزہ نہیں یہ وہ عمرانی معاہدہ ہے جس پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو انارکی نہ پھیلی ہوتی۔ اس دستور کی تیاری میں ذہن رسا سیاست دانوں نے حصہ لیا تھا جن کی بالغ نظری اور دور اندیشی اور معاملہ فہمی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ ان سیاست دانوں نے قومی یکجہتی کے فروغ اور ملکی ترقی و استحکام کے لئے دوراندیشی سے کام لے کرا سے ایک متعدل اور متواری دستاویز بنا کر پورے ملک کے تمام مکاتب فکر کے دینی و سیاسی حلقوں کے لئے قابل قبول بنا دیا تھا۔

اگر اس سے اس کی روح کے عین مطابق فی الفور نافذ العمل کر دیا جاتا تو آج پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ مہذب قوموں کی صف میں شامل ہو چکا ہوتا مگر افسوس کہ مختلف ادوار میں طالع آزماؤں نے موقع پرست عاقبت نہ اندیش سیاست دانوں کی ملی بھگت سے دستور پاکستان کی قومی دستاویز کو طاق نیساں کی زینت بنا کر آمروں کے جاری کردہ عارضی بندوبستی آرڈیننسوں کے سہارے چلا کر وطن عزیز کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہی نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک منزل کے راستے میں بھٹک رہے ہیں۔ جب کبھی امید پیدا ہوتی ہے کہ جمہوریت جڑ پکڑنے والی ہے تو پھر سے نادیدہ قوتیں سرگرم ہو کر اس نوزائیدہ پودے کی نشوونما کے اقدامات میں روڑے اٹکانے لگ جاتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 415018
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش