1
0
Tuesday 24 Jul 2012 20:18

عرب لیگ، القاعدہ اور نیٹو

عرب لیگ، القاعدہ اور نیٹو
تحریر: سید اسد عباس تقوی 

قرآن کی زبان میں اس اتحاد کو نہیں معلوم کیا کہیں گے، تاہم جہان اسلام اور مشرق وسطٰی میں پروان چڑھنے والا، عرب شہزادوں، مذہبی اشتہاریوں اور مغربی طاقتوں کا یہ اتحاد آج جتنا کھل کر سامنے آیا ہے، اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھا۔ اس اتحاد کی ابتداء خلافت عثمانیہ کے زوال سے ہوئی، جب برطانیہ، فرانس اور مغربی استعماری ممالک کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے عام بدوی زندگی گزارنے والے عرب شہزادوں نے جزیرہ العرب میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کیں اور خلافت عثمانیہ کے تابوت میں آخری کیلیں ٹھونکیں۔

شاہ حجاز سے لے کر قطر، کویت، عرب امارات اور اردن کے یہ حکمران جس انداز میں برطانوی گودی میں پلے بڑھے، تاریخ کے کسی بھی طالب علم سے پنہاں نہیں۔ خلافت عثمانیہ کی کمزوری سے قبل جن خاندانوں کا تاریخ جہان اسلام میں ذکر بھی نہ ملتا تھا، آج وہی عالم اسلام کے کرتا دھرتا ہیں۔ برطانیہ کی عالمی سیاست اور استعماریت میں مہارت کو اہل برصغیر سے بہتر کون جان سکتا ہے، ہم جس استعمار کے خلاف 1857ء سے جنگ آزادی لڑتے رہے، اسی استعمار کی گود میں پلنے والے عرب حکمران آج ہماری امیدوں اور آرزوﺅں کا محور و مرکز ہیں۔ 

قصور ہمارا ہے بھی اور نہیں بھی، کہ ہم تو اس سرزمین کی ہر چیز سے یوں ہی والہانہ محبت کرتے ہیں۔ وہاں کی مٹی کو شیشیوں میں سجائے گھر کی خیر و برکت کا سامان سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ممکن ہے کہ کملی والا خاک کے ان ذروں سے گزرا ہو۔ وہاں کی کھجور، وہاں سے آنے والا پانی، ٹوپی، تسبیح اور نہ جانے کیا کیا، کو یوں چومتے ہیں جیسے مدینہ میں آج بھی رسالت مآب اور ان کے اصحاب باصفا بستے ہوں اور یہ تحفے انھوں نے ہی ہمارے لیے روانہ کیے ہوں۔ تقدس کا یہ اندھا پن اس حد تک طول کھینچتا ہے کہ اس سرزمین سے آنے والے والی ہر چھوٹی بڑی چیز ہمارے لیے حرز جان بن جاتی ہے۔ 

ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ جزیرہ العرب آمد مصطفٰی سے قبل ایک جاہلی معاشرہ تھا، جہاں موجود خرافات کو اسلام نے انتہائی ناپسندیدگی سے دیکھا ہے۔ ہم اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں کہ عرب معاشرہ بھی ایک عام انسانی معاشرہ ہے، جس پر وقت اور حالات اثر انداز ہوتے ہیں۔ جہاں کے رہنے والے انسانوں کی بھی ہمارے معاشروں کے لوگوں کی مانند احتیاجات، خواہشات اور مفادات ہیں، جن کے لیے انھیں عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ اب ان کا کیا ہوا ہر عمل ہمارے لیے قابل تقلید نہیں ہوسکتا، بلکہ عین ممکن ہے کہ ان کا اپنے مفاد میں اٹھایا ہوا کوئی قدم ہمارے اصولوں اور مفادات کے سراسر خلاف اور منافی ہو۔

اسی مثال کو سامنے رکھیے کہ برصغیر کے مسلمان اپنی آزادی کے لیے جس عالمی قوت کے خلاف برسر پیکار رہے، وہی قوت ہمارے برادر عرب ممالک کی بنیاد گزار ہے۔ ایک جگہ اس نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جو کہ ہماری اپنی خواہش کا نتیجہ تھا اور دوسری طرف دنیا میں موجود واحد اسلامی طاقت جو اگرچہ اس وقت طاقت سے زیادہ ایک بوجھ تھی کو کئی ٹکڑوں میں بانٹا اور اس بندر بانٹ میں آج کے عرب حکمرانوں کے آباﺅ اجداد برابر کے حصے دار تھے۔ حقائق کی روشنی میں ہم چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، اصولی طور پر ہم دو مختلف نظریات کے حامل گروہ ہیں۔ ایک وہ جو عالمی استعمار سے برسر پیکار ہے اور دوسرا وہ جو اس کا اتحادی اور عالم اسلام کو تقسیم کرنے میں اس کا ہمنوا ہے۔

یہ اتحاد وقت کے ساتھ ساتھ مختلف رنگ بدلتا رہا، برطانیہ گیا تو اس دوستی کا رخ امریکہ کی جانب ہو گیا اور آج کل ان کی تمام تر ہمدردیاں، وابستگیاں اور توقعات نیٹو اور اس کے اتحادی ملکوں سے ہیں۔ یہ کاروبار انھیں سے کرتے ہیں۔ اسلحہ انھیں سے خریدتے ہیں، ہنی مون وہیں مناتے ہیں اور ہم ہیں کہ بس ۔۔۔۔۔۔ احمقوں کی جنت میں آباد خادمین الحرمین کے گن گاتے نہیں تھکتے۔

عرب لیگ، القاعدہ اور نیٹو اتحاد کی بنیادیں تو آپ کے سامنے ہیں، اس اتحاد کی قوت کا مظاہرہ اسی کی دہائی میں ہم نے سوویت یونین کے معاملے میں دیکھا۔ امریکہ نے سوویت یونین کو افغانستان کے بلند و بالا کوہساروں میں گھرا دیکھا تو خوب بغلیں بجائیں۔ ایک اسلامی ملک پر حملہ جسے عالم اسلام پر حملے کے مترادف تصور کیا جاتا تھا، کو خوب ہوا دی گئی اور جہاد کے نام پر دنیا بھر سے جذباتی مسلمانوں کو سوویت یونین کے خلاف جہاد کے لیے افغانستان میں جمع کر لیا گیا۔ سرمایہ اور افرادی قوت انہی عرب اتحادیوں نے مہیا کی۔ سروسز ہماری استعمال ہوئیں اور جب کام نکل گیا یعنی سوویت یونین کو حزیمت کا سامنا ہوا تو پھر، تو کون میں کون؟

جہادی گروہوں کو امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے خطر ہ قرار دیا جانے لگا۔ پاکستان جس نے اس جہاد میں اپنی خدمات پیش کیں، کو شدت پسندی کا گڑھ قرار دے دیا گیا، نیٹو اور اس کے عرب اتحادی نئی مہموں پر روانہ ہوگئے۔ عراق نے بدمعاشی کی تو القاعدہ عراق میں جا گھسی اور پھر جو عراق کا حشر ہوا، آپ کے سامنے ہے۔ القاعدہ افغانستان میں گئی تو افغانستان پر جو بیتی ہم سے پنہاں نہیں۔ القاعدہ پاکستان میں آئی تو ہم نے اس کے اثرات کی تپش بھی اپنے پیروں تلے محسوس کی۔ آج القاعدہ، عرب لیگ اور نیٹو کی توجہات کا مرکز شام ہے۔

شام جو حافظ الاسد کے وقت سے سوویت بلاک کا حصہ تھا، جس نے ابتدا سے لبنان اور فلسطین میں چلنے والی مزاحمت کی تحریکوں کی اخلاقی، مالی اور تربیتی معاونت کی۔ جس شام میں آج تک حماس اور حزب اللہ کے دفاتر قائم ہیں۔ وہ شام جو اسرائیل کا صرف اس لیے مخالف ہے کہ اس نے لبنان، فلسطین اور جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا۔ دنیا کا واحد عرب ملک جو تحریک مقاومت کی یوں پشت پناہی کرتا ہے کہ جسے خود تحریک مقاومت تسلیم کرتی ہے۔
 
حزب اللہ لبنان کے سربراہ حسن نصراللہ نے اپنے تازہ ترین خطاب میں کہا کہ شام ہی وہ عرب ملک ہے جو تحریک مقاومت کا حامی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 2006ء میں اسرائیل کے شہروں حیفا اور ہدیرا پر گرنے والے راکٹ شام کے بنے ہوئے تھے۔ ہمارا تمام تر جنگی اسلحہ شام سے آتا ہے۔ شام ہی وہ ملک ہے جو عرب دنیا میں تحریک فلسطین اور تحریک مقاومة لبنان کا پشت پناہ ہے۔ اسی شام میں فرقہ واریت کے عنصر کو اچھال کر حکومت کے خاتمے کی ایک مہم کا آغاز کیا گیا۔ ملک میں جمہوریت کے قیام کے نام پر اٹھائی جانے والی تحریک آج لیبیا کی مانند خانہ جنگی کی جانب رواں دواں ہے۔

اس میں شک نہیں کہ دشمن کو موقع تب ہی ملتا ہے جب آپ اندرونی طور پر کمزور ہوں، خلافت عثمانیہ، مغل حکومت، عراق، لیبیا، افغانستان کی مثالیں اس دعویٰ کی دلیل ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں ملی غداروں کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ خلافت عثمانیہ کے زوال سے لے کر آج تک عرب حکمرانوں اور نیٹو میں شامل ممالک نے ویسے تو امت مسلمہ کا بہت نقصان کیا، تاہم اس دفعہ کا اتحاد اس مقدس شعلہ کے درپے ہے، جس کے بارے میں امل ملیشیا کے سربراہ شہید موسی صدر نے کہا تھا کہ ”تحریک آزادی فلسطین ایک مقدس شعلہ ہے، جس کی حفاظت ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔“ شام میں حکومت کی تبدیلی خالصتاً شامی عوام کا معاملہ ہے، تاہم ایک ایسی تبدیلی جس کا مقصد تحریک آزادی فلسطین یا علاقے میں کسی اور اسلامی قوت کو کمزور کرنا ہو، مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں نہیں۔
خبر کا کوڈ : 181794
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
very well allah app kay qalam koo mzeed toofeeq day
ہماری پیشکش