0
Friday 15 Nov 2013 22:38

ایف بی آئی نے جہاد پر اکسایا اور پھر گرفتار کر لیا

ایف بی آئی نے جہاد پر اکسایا اور پھر گرفتار کر لیا
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایک پاکستانی شہری کو امریکہ میں شامی صدر بشارالاسد کے خلاف جہادی گروپ کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہونے کا منصوبہ رکھنے کے الزامات کا سامنا ہے، 29 سالہ عبدالباسط جاوید شیخ پر الزام ہے کہ انہوں نے القاعدہ سے منسلک شامی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار جہادی گروپ میں شامل ہونے کا منصوبہ بنایا۔ امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کے جال میں پھنسنے والے قانونی طور پر امریکا میں رہائش پذیر پاکستانی پر القاعدہ سے منسلک عسکریت پسند گروپ میں شمولیت کی کوشش کی جس کے نتیجے میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر فردِ جرم عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے بیرونی دہشت گرد تنظیم کو امداد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اے پی کے مطابق عبدالباسط شیخ کے والد جاوید شیخ نے منگل کو کہا کہ وفاقی حکومت نے ان کے بیٹے پر شام میں شدت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے کا غلط الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے امریکی سکیورٹی ادارے ایف بی آئی کی طرف سے اس بیان کو رد کیا کہ ان کا بیٹا جبہتہ آلنصرہ نامی تنظیم میں شامل ہونا چاہتا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عبدالباسط شیخ کو دو نومبر کو شمالی کیرولینا میں جہاز پر سوار ہونے سے پہلے گرفتار کیا گیا۔ اے ایف پی کے مطابق عبدالباسط شیخ نے امریکی سکیورٹی ادارے ایف بی آئی کے ایک خفیہ اہلکار کو جبہتہ آلنصرہ نامی گروپ کا رکن سمجھ کر ان سے رابطہ کیا۔ امریکی محکمۂ خارجہ اس گروپ کو القاعدہ کا شام میں ذیلی گروہ سمجھتا ہے، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس شخص کی شناخت شام کی القاعدہ سے منسلک رکن کے طور پر کی ہے۔ شمالی کیرولینا میں واقع امریکی اٹارنی دفتر کے مطابق شیخ نے مجاہدین کی مدد کے لیے شام جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، پاکستانی نژاد امریکی شہری پر گذشتہ ہفتے اسی جگہ فرد جرم عائد کی گئی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کیا منصوبہ بندی کی ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ سامان کی فراہمی، میڈیا پر رائے عامہ ہموار کرنا اور اگر ضرورت پڑے تو لڑائی بھی۔ امریکی اٹارنی جنرل کے دفتر کے مطابق باسط شیخ نے شام جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تاکہ وہ وہاں کسی بھی طریقے سے مجاہدین کی مدد کرے۔ گذشتہ ہفتے عدالت میں سماعت کے دوران شیخ باسط کو اپنے دفاع کے لیے دو سرکاری وکلاء کی خدمات حاصل تھیں۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایف بی آئی کے اہلکار جیسن ماسلو نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا کہ اس سال پانچ مہینے تک عبد الباسط شیخ نے اپنے فیس بک کے صفحے پر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے شدت پسندوں کے حق میں پیغامات اور ویڈیوز شائع کیے۔ حلفیہ بیان کے مطابق اگست میں باسط شیخ نے اسلامی شدت پسندی کو فروغ دینے والے فیس بک کے صفحے پر ایف بی آئی کے ایک خفیہ اہلکار کے ساتھ تعلقات بنائے۔ حلفیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ باسط شیخ نے ایف بی آئی کے اہلکار کو ستمبر کے اوائل میں بتایا تھا کہ انہوں نے ترکی جانے کے لیے ہوائی جہاز کا یک طرفہ ٹکٹ خریدا ہے اور امید ظاہر کی کہ وہاں ان کا ایسے لوگوں سے رابطہ ہو جائے گا جو انہیں شام لے جائیں گے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ باسط شیخ نے کہا کہ وہ اس سفر پر اس لیے روانہ نہیں ہوئے کیونکہ وہ والدین کو چھوڑنے کی ہمت نہیں جا سکے۔ اس کے علاوہ ایف بی آئی کے اہلکار کے بیان کے مطابق باسط شیخ نے یہ بھی کہا کہ وہ گذشتہ سال شام کی لڑائی میں شامل ہونے کے لیے ترکی گئے تھے لیکن وہاں وہ اپنے آپ کو امریکہ کے حمایت یافتہ آزاد شامی فوج یا فری سیرین آرمی کا رکن بتانے والے افراد سے مایوس ہو گئے تھے۔ اگر عبدالباسط شیخ پر جرم ثابت ہو جائے تو انہیں 15 سال تک جیل اور 2 لاکھ 50 ہزار امریکی ڈالر جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ ایف بی آئی ایجنٹ جیسن مسلو کی جانب سے فراہم کردہ پچیس صفحات پر مشتمل حلف نامہ کے مطابق شیخ نے آن لائن کال پر بتایا کہ وہ اس جدوجہد کی راہ میں شہید ہونے کے لیے تیار ہے۔

ایجنٹ نے بیان دیا کہ اپریل دو ہزار تیرہ کے شروع میں پاکستانی باسط جاوید نے کئی بار شام میں سب سے اہم مسلح اسلامی گروپ جبہتہ النصرہ کی حمایت میں فیس بک پر پوسٹنگ کی ہے۔ شیخ کو دو نومبر کو جب گرفتار کیا گیا تو اس وقت ان کے پاس لبنان کے شہر بیروت کا ٹکٹ تھا اور ان کا لبنانی سرحد پار کر کے شام میں جانے کا منصوبہ تھا اور ان کو یقین تھا کہ اس سلسلے میں خفیہ ایف بی آئی ایجنٹ ان کی مدد کرے گا۔ اگر ان پر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اسے پندرہ سال قید کی سزا اور ڈھائی لاکھ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

امریکی سکیورٹی کے ادارے ایف بی آئی کے اہلکاروں کی طرف سے جمع کروائے گئے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے آسانی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر شیخ عبدالباسط کی پوسٹنگز دیکھ کر یا اس سے پہلے خود ایف بی آئی کے ایجنٹس نے انہیں جہادی گروپوں کیطرف سے رابطہ کیا اور بعد میں انہیں گرفتار کر لیا۔ اپنی گرفتاری سے پہلے جب وہ ترکی گئے تو بقول شیخ کے انہیں امریکی اداروں کی نہ صرف اجازت بلکہ تعاون حاصل رہا لیکن اچانک انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ شیخ نے اپنے بیان میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ترکی میں امریکی حمایت یافتہ فری سیرین آرمی سے ملوایا گیا لیکن انہیں مناسب معلوم نہیں ہوا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ ملکر شامی حکومت کے خلاف جنگ میں شریک ہوں۔ مطلب واضح ہے کہ شیخ عبدالباسط کو امریکی ادارے بشار الاسد کے خلاف جنگ پر جانے کے لیے تیار نہیں کر سکے اور الٹا انہیں ان الزامات میں دھر لیا، تا کہ کہانی کو یہیں پہ روکا جا سکے۔ اگر ایسے لوگوں کو آزاد چھوڑیں تو یا اس بات کا امکان ہے کہ وہ جہاد کی روح کے مطابق زندگی گذارنے پہ تل جائیں یا کم از کم امریکی سازشوں سے پردہ اٹھانے کی ٹھان لیں کہ کس طرح جہاد کے نام پر مسلمان نوجوانوں کو ورغلایا جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 320492
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش