0
Saturday 30 Jun 2012 08:52

کمسن علی حسن سے خائف آل خلیفہ کے ڈکٹیٹرز

کمسن علی حسن سے خائف آل خلیفہ کے ڈکٹیٹرز
حال ہی میں ناروے کے ایک ریڈیو چینل "آسٹون" (Oston) نے اپنے ایک پروگرام میں بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مختلف واقعات کا جائزہ لیا اور کہا ہے کہ ننھے علی حسن کی گرفتاری اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ آل خلیفہ حکومت پر گرفتاریوں اور تحریک کو کچلنے کا جنون سوار ہے اور اس سلسلے میں وہ بچوں پر بھی رحم نہيں کرتی۔ اس ریڈیو نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ اس بحرینی بچے پر الزام ہے کہ "اس نے قومی سلامتی کے خلاف اقدام کیا ہے" اور جب تفصیل پوچھی جاتی ہے تو آل خلیفہ حکومت کہتی ہے کہ "اس لئے کہ اس بچے نے سڑک پر کانٹے اور گھاس پھونس پھینک دی ہے"۔

ریڈيو کا کہنا تھا، فرض کریں کہ اگر اس بچے نے واقعی ایسا کیا ہو اور اس کا یہ اقدام سڑک کی بندش کا سبب بنا بھی ہو تو یہ ملکی سلامتی کے لئے خطرناک نہيں ہو سکتا لیکن جب ہم آل خلیفہ کے جوابی اقدام اور بچے کی گرفتاری اور اس پر عدالت میں مقدمہ چلانے جیسے اقدامات پر نظر ڈالتے ہيں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ آل خلیفہ حکومت ایک بچے کے اس اقدام سے کس قدر ہراساں ہوگئی ہے! اور معلوم ہوتا ہے کہ آل خلیفہ کی ریاست ایک پولیس اسٹیٹ ہے جو ایک بچے کے سہوی اقدام اور اپوزیشن جماعتوں کے کسی رکن کے احتجاجی اقدام میں فرق کی قائل نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک بچے کے اقدام کو ایک دہشت گردانہ کاروائی سمجھ بیٹھی ہے!۔

ریڈیو کا کہنا تھا، آل خلیفہ حکومت کے اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکومت اس قدر زد پذیر اور کمزور ہے کہ ایک گیارہ سالہ بچہ اس کا تختہ الٹ سکتا ہے!۔ریڈیو نے کہا، آل خلیفہ کے اس اقدام کی مثال دنیا میں کسی بھی معاشرے میں دیکھنے کو نہيں ملتی اور افریقہ کی کسی پسماندہ قوم کے ریکارڈ میں اس قسم کا کوئی اقدام ثبت نہیں ہوا ہے۔

اس یورپی ریڈیو نے کہا، علی حسن ان لوگوں اور بچوں میں سے ایک ہے جن کو آج تک بحرینی بادشاہ کے لئے قربان کردیا گیا ہے اور آل خلیفہ کے بادشاہ کے مظالم کی زد میں آئے ہیں لیکن ضرورت تو اس امر کی تھی کہ بادشاہ اس بچے کی بجائے ان سکیورٹی اہلکاروں پر مقدمہ چلاتا جنہوں نے اس بچے کو گرفتار کیا ہے اور ان سے باز خواست کرتا کیونکہ آل خلیفہ کے سکیورٹی اہلکار ہی ہیں جنہوں نے بحرینی بچوں کو خوف و ہراس میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔

بحرینی بچے علی حسن کے وکیل "شہزلان خمیس" نے کہا تھا کہ ایسی کوئی امید اور کوئی علامت نظر نہيں آرہی کہ خلیفی حکومت اس بچے کو رہا کرے گی کیونکہ وہ گذشتہ ایک مہینے سے جیل میں ہے۔ خمیس نے امریکی ٹیلی ویژن سی این این سمیت مختلف ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بحرینی بچے کی گرفتاری کی کیفیت کے بارے میں کہا کہ آل خلیفہ کی انسداد فسادات افواج نے علی حسن اور اس کے دو دوستوں پر حملہ کیا اور اس حملے میں علی حسن کے دوست فرار کرجاتے ہیں لیکن وہ فورسز کی طرف سے گولی چلانے کی دھمکی سن کر رک گیا اور فورسز نے اس کو گرفتار کرلیا اور پہلے مرحلے میں اس پر الزام لگایا گیا کہ اس نے اجازت کے بغیر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی!۔

وکیل نے کہا کہ علی حسن ایک مہینے سے اسیر ہے اور اس کو اہل خانہ سے دور رکھا گیا ہے۔ اس پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے اجازت کے بغیر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی، نیز اس پر سڑک پر کوڑا کرکٹ پھینکنے اور سڑک کو بند کرنے کا الزام لگایا گیا ہے جبکہ فورسز نے اس سڑک کو ایک بار کھول دیا تھا!، اس بچے پر یہ بھی الزام ہے کہ گویا اس نے آل خلیفہ کے خلاف بغاوت میں شرکت کی ہے" اور ایک آدمی نے اس کو تین دینار دیئے ہیں کہ وہ ان مظاہروں میں شرکت کرے!"۔

ادھر کمسن بحرینی اسیر علی حسن کے والد نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے بچے کو فوری طور پر رہا کیا جائے کہ اس کا جیل میں رہنا آل خلیفہ حکومت کے لئے نقصان دہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا بچہ ایک علاقے میں تین دوسرے بچوں کے ہمراہ موجود تھا جبکہ آل خلیفہ کے قانون کے مطابق اگر کسی علاقے میں پانچ افراد اکٹھے ہوں تو ان کو حکومت سے اجازت لینا ہوگی! چنانچہ اس پر غیرقانونی اجتماع میں شرکت کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ آل خلیفہ حکومت نے میرے بچے پر پولیس سے مزاحمت کا الزام لگایا ہے جبکہ یہ الزام میرے بچے پر عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ ابھی گیارہ سال کا ہے اور اس کے بارے میں اس طرح کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے کہا کہ علی حسن میرے خاندان کا دوسرا لڑکا ہے جبکہ وہ تین بہنوں کا بھائی ہے۔ اس کا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے اور علی حسن چھٹی جماعت کا طالبعلم ہے۔ علی حسن اتوار 13 مئی 2012ء کو "الفریج" کے محلے میں اپنے ساتھوں کے ساتھ گھر سے نکلا جبکہ اس وقت اس علاقے میں نہ کوئی مظاہرہ ہورہا تھا اور نہ ہی جھڑپیں ہورہی تھیں لیکن بعض دوستوں نے مجھے بتایا کہ فورسز اس کو پکڑ کر لے گئی ہیں۔

واضح رہے کہ ننھے علی حسن کو خلیفی عدالت میں پیش کیا گیا اور خلیفی جج کو گویا اس کی رہائی کے سوا کوئی راستہ نظر نہ آیا کیونکہ ایک چھوٹے بچے پر اتنے سنگین الزامات کسی کو ہضم نہیں ہو رہے تھے۔ چنانچہ اس کو "ضمانت" پر رہا کیا گیا اور اب وہ اگلی سماعت کا انتظار کرے گا۔ واضح رہے کہ آل خلیفہ حکومت نے اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں درجنوں بچے بھی شامل ہیں، جو آل خلیفہ کی بوکھلاہٹ کی واضح دلیل ہے۔
خبر کا کوڈ : 175250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش