0
Saturday 23 Nov 2013 22:05

مسلمانوں کو ختم کرنیکا منصوبہ دشمنوں کی مشترکہ اور اولین ترجیح ہے، مولانا سید کلب جواد

مسلمانوں کو ختم کرنیکا منصوبہ دشمنوں کی مشترکہ اور اولین ترجیح ہے، مولانا سید کلب جواد
مولانا سید کلب جواد کا تعلق بھارت کے تاریخی شہر لکھنؤ سے ہے، آپ لکھنؤ کی تاریخی آصفی جامع مسجد میں امام جمعہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں، ’’نور ہدایت‘‘ جو ایک نشریاتی ادارہ ہے اور اپنی مطبوعات اردو، ہندی و انگریزی میں پیش کرتا ہے آپ کی سرپرستی میں چل رہا ہے، لکھنؤ کے ایک مقامی اسکول اور ایک حوزہ علمیہ کو بھی مولانا کی سرپرستی حاصل ہے، اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے آپ بنیادی رکن بھی ہیں اور آپ کے والد گرامی مولانا سید کلب عابد نقوی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بانیان میں شامل ہیں، مولانا سید کلب جواد نقوی مخلتف دینی اداروں کی سربراہی کے علاوہ ’’مجلس علماء ہند‘‘ جو ہندوستان کا قدیم ترین ادارہ ہے  کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں اور سات سال قبل مجلس علماء ہند کا احیاء نو بھی آپ ہی نے انجام دیا، آپ ہندوستان میں اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور ہندوستان کے تمام مذاہب کے علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا آپ ہی کی فعالیت کا نتیجہ ہے، اسلام ٹائمز نے مولانا سید کلب جواد نقوی سے انکی کشمیر آمد پر ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ہندوستان کی تاریخ میں اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے حوالے سے آپ کا رول اہم ہے ابھی موجودہ صورتحال کیا ہے بھارتی مسلمانوں کے اتحاد و تقریب کے حوالے سے۔؟
مولانا سید کلب جواد: میرے والد مرحوم مولانا سید کلب عابد نقوی نے ہندوستان کی تاریخ میں اتحاد کے حوالے سے بیش بہا کوششیں کی ہیں، میں نے بھی اول روز سے ہی اسی مقصد کو مدنظر رکھا کہ مسلمانوں کے درمیان اس وقت حالات بہت ہی نازک ہیں، دشمن اور باطل قوتیں آپس میں متفق اور ایک ہیں لیکن مسلمان آپسی تضاد کا شکار ہیں، اس لئے ہمیں دن رات اتحاد کے حوالے سے فعال ہونا ہوگا، ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنایا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے درمیان سے ہی بعض منحرف اور کم ایمان افراد کو اس کام کے لئے منتخب کیا جا رہا ہے اور وہ منحرف افراد اپنا دین و ایمان فروخت کر کے شرپسند عناصر کے ایجنٹ بنتے ہیں ایسے ہی ایجنٹ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے فتوے دیتے ہیں اور زہر اگلتے ہیں ، آپسی منافرت کو ہوا دیتے ہیں اور انہوں نے بھارت میں لکھنؤ شہر کو اپنا مرکز بنایا ہوا ہے۔

اس کیفیت کے پیش نظر ہم نے لکھنؤ سے ہی بیداری کی مہم شروع کی، ہم نے لکھنو سے ہی شیعہ سنی اتحاد معاہدہ شروع کیا اور اس سلسلے میں بہت کام ہوا، لیکن جب تک انسان موجود ہے شیطان اسکے خلاف سازشیں کرتا رہے گا، شیطانی عناصر کی یہ کوششں رہتی ہیں کہ مسلمانوں میں اختلاف موجود رہے اس میں اضافہ ہو اور ہر سال اس میں وہ کوئی نہ کوئی اضافہ یا کوئی نیا واقعہ یا اختلاف رونما کرتے ہیں لیکن مسلمانوں میں الحمدللہ اب بیداری پیدا ہو گئی ہے، بعض جاہلوں کو مستثنیٰ کرکے عموماً مسلمین عالم خبردار ہیں اور وہ اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں، پہلے ہمارے یہاں آپسی تضاد کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوتے تھے لیکن اب بعض چھوٹے چھوٹے واقعات پیش آتے ہیں جن پر بروقت قابو پایا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اتحاد و تقریب بین المسلمین کو آپ کس شدت سے ہندوستان میں محسوس کر رہے ہیں۔؟
مولانا سید کلب جواد: دیکھئے صرف ہندوستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں اس وقت اتحاد بین المسلمین کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جب سے انقلاب اسلامی ایران امام خمینی (رہ) کی قیادت میں برپا ہوا دشمن مسلمانوں کے خلاف بہت ہی فعال نظر آرہا ہے اور دشمنوں کے ذریعے اب یہ سازشیں ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ ان کے درمیان انتشار اور دوریاں بڑھا دی جائیں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر انہیں ختم کیا جائے، مسلمانوں کو ختم کرنے کا منصوبہ دشمنوں کی مشترکہ اور اولین ترجیح ہے، پہلے منصوبہ یہ تھا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو لیکن اب دشمن کی سازش ہے کہ لڑواؤ، تقسیم کرو اور ختم کرو یعنی دشمن اب مسلمانوں کو ختم کرکے ہی دم لے گا اگر ہم ہوش و خبرداری سے کام نہ لیں اور آگاہ نہ ہو جائیں ابھی عالم اسلام میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازش پر عمل ہو رہا ہے، دو چیزیں پائی جاتی ہیں جہاں استعماری طاقتوں کو یقین ہو گا کہ مسلمان انکے خلاف نہیں ہو سکتے ہیں وہاں حکومت کریں گے جیسا کہ بعض نام نہاد مسلم  مملکتوں میں وہ کر رہے ہیں اور جہاں انہیں معلوم ہو جائے کہ مسلمان انکے قابو میں نہیں آئیں گے وہاں انہیں ختم کیا جائے گا جیسا کی شام، مصر و بحرین میں ہو رہا ہے۔

اور ایک نئی بات یہ ہے کہ پہلے امریکہ کی مکروہ سازشوں پر عمل ہوتا تھا اب اسرائیل کی پالیسیوں پر عمل ہوتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچائی جا رہی ہیں۔ ہم سالہا سال سے مختلف اسلامی ممالک جایا کرتے ہیں آج سے بیس یا پچیس سال پہلے جب ہم تبلیغ دین کے لئے کویت، بحرین، دوبئی اور ابوظہبی وغیرہ جایا کرتے تھے وہاں ہم سے عہد و پیمان لیا جاتا تھا کہ آپ جو کچھ بھی بولیں لیکن ہماری حکومت کے خلاف کچھ ہرگز نہ بولیں اور ہماری حکومت کو ہدف تنقید نہ بنائیں، پھر کچھ عرصہ بعد ایک اور بات کا اضافہ کیا گیا کہ ایک ہماری حکومت کے خلاف اور امریکہ کے خلاف کچھ نہ کہا جائے لیکن اب ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہماری حکومت کے خلاف، امریکہ کے خلاف اور اسرائیل کے خلاف کچھ نہ کہا جائے یعنی اب تمام نام نہاد مسلمان حکومتیں اسرائیل کے کنٹرول میں آ رہی ہیں، مسلمان حکومتیں اپنی کرسی، اقتدار اور ڈالروں کی خاطر  کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں کسی کی بھی غلامی کے لئے تیار ہیں اور کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیوں نام نہاد مسلمان حکمران استعماری سازشوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور ہوش سے کام نہیں لے رہے ہیں۔؟

مولانا کلب جواد: حکومت، اقتدار اور جاہ طلبی کی ہوس اور اوپر سے امریکہ و اسرائیل کا ڈر یہ سب وجوہات ہیں کہ یہ شیطانی طاقتیں جو کچھ بھی ان سے کروانا چاہتی ہیں وہ اشاروں پر ناچنے کے لئے آمادہ ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ مسلمان کثیر تعداد کے باوجود ذلیل و رسوا ہونگے، وجہ رسوائی کی یہی ہے کہ دنیا کی محبت اور موت کا خوف، اسی وجہ سے مسلمانوں کے تمام حکمران ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جب تک مسلم حکمران دنیا کی لالچ و تمنا اور موت کے خوف کو دل سے نہیں نکالتے ہیں امریکہ، اسرائیل اور دیگر شیطانی قوتوں کے ہاتھوں انہیں رسوا و ذلیل ہونا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلام دشمن طاقتوں کے مکروہ عزائم کو ختم کرنے میں علماء اسلام کا رول کیا ہونا چاہیئے۔؟
مولانا سید کلب جواد: اصل میں خود علماء اسلام بھی آپسی تضاد کے شکار ہیں اور وہ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر ایک عالم اپنی الگ چار اینٹ کی مسجد میں مصروف و مگن ہے اور وہ مسلمانوں کے تحفظ و اسلام کی بقاء کے لئے سرگرم و متفکر نہیں ہے، ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، افسوس کی بات ہے کہ جب ہم ہندوستان میں ملکی سطح کی اتحاد کانفرنس بلاتے ہیں اس میں ہمارے مولوی حضرات پہلے سے ہی یہ کہتے ہیں کہ اگر پروگرام میں فلاں مولوی آ گیا تو میں نہیں آنے والا، اگر وہ مولوی آئے گا تو میں نہیں آؤں گا، جب علماء کے اتحاد کے حوالے سے یا آپسی تعلقات کے حوالے سے یہ روش و حالت ہو تو قوم کی پھر خیر کہاں؟ اور اس صورت میں دشمن کو ہم پر غالب آنا ہی ہے اور اس کے برعکس وہابیت اور اسلام دشمن طاقتیں آپس میں متفق ہیں جو قابل تشویش امر ہے، ان سب چیزوں کے باوجود ہمیں اپنی کوششیں ترک نہیں کرنی چاہیئیں بلکہ آج کے اس سخت ترین زمانے میں ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی جماعت کی ضرورت کس قدر پائی جاتی ہے۔؟
مولانا سید کلب جواد: مسلمانوں کو مذہبی حقوق اس وقت تک نہیں ملیں گے جب تک وہ سیاسی طور پر آگے نہ آئیں اور وہ بھارت کی سیاست میں نہ آئیں یعنی اس میں شامل نہ ہوں، مسلمانوں کی سیاست میں پیشرفت کے سلسلے میں ہم نے کوشش کی ہے لیکن ابھی یہاں عوام میں اس قدر بیداری و شعور کی بلندی نہیں پائی جاتی ہے، علماء دین کو سیاست میں آنا چاہیئے تاکہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی ممکن بنا سکیں، مذہبی حقوق انہیں مل سکیں، آج ہندوستان میں ہمارے حقوق تلف ہو رہے ہیں، ہمارے اوقاف غیر منظم ہیں وجہ اس کی یہی ہے کہ ہماری کوئی سیاسی نمائندگی نہیں ہے، ہم نے بارہا اس سلسلے میں کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن کوشش چل رہی ہے انشاءاللہ ہمیں اس میں کامیابی ملے گی۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام میں لکھنؤ کی سرزمین پر آپسی تضاد کے واقعات اکثر و بیشتر رونما ہوتے ہیں اس پر مکمل قابو پانے کے لئے کیا لائحہ عمل ہمارے پاس ہے۔؟
مولانا سید کلب جواد نقوی: اس کے لئے مولویوں کو انکے حال پر چھوڑ کر عوام کو بیداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، عوام کو باخبر اور باہوش ہونا چاہیئے، مولوی کا کام ہے لڑوانا لیکن عوام  اور دیگر ذی شعور افراد کو بیداری کی مہم چلانی چاہیئے تاکہ اس پر مکمل قابو پایا جا سکے، بعض علماء کرام بھی ہیں جو اپنے شب و روز مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پر صرف کرتے ہیں اور طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں، جو ایام چل رہے ہیں اس کے سلسلے میں کہنا چاہوں گا کہ تحریک کربلا میں ایک نمایاں اثر و جاذبیت پائی جاتی ہے، پیغام حسین (ع) اور شہداء کربلا کے مشن و مقصد کو عام کرنے کی ضرورت ہے اور عزاداری کی تحریک کو صحیح سمت و جہت دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے ذریعہ ایک عام پیغام لوگوں کو دیا جا سکے جو مسلمانوں کے دلوں میں آپسی اخوت، برابری اور بھائی چارگی کی فضا قائم کر سکے، یہ آنسو اور ہمارا غم حسین (ع) میں مغموم ہونا، رونا و بلکنا یہ ایک عظیم پیغام دے سکتا ہے اور ہم لوگوں کو اپنی جانب مائل کرسکتے ہیں اور انکی توجہ تحریک کربلا کی جانب مبذول کرا سکتے ہیں لیکن ہم نے خود اس تحریک کو اختلاف اور تضاد کا ذریعہ بنایا، لوگ قریب آنے کے بجائے دور ہوتے گئے، ہندوستان ایسی سرزمین ہے کہ جہاں ہندو اور غیر مسلم حضرات بھی مراسم عزاء میں برابر شریک ہوتے ہیں اور انہیں امام حسین (ع) سے ایک خاصی عقیدت ہے لیکن بعض عناصر نے انہیں اس تحریک سے دور کیا، ذاکرین، مبلغین اور خطباء کی ذمہ داریاں یہ ہے کہ وہ مقصد قیام امام حسین (ع) کو عام لوگوں تک پہنچائیں اور قیام امام کو اپنا شعار بنائیں۔
خبر کا کوڈ : 323156
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش