1
1
Thursday 4 Sep 2014 22:13
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

پاکستان کا سیاسی حمام

پاکستان کا سیاسی حمام
تحریر: عرفان علی

ایک لمحہ تو ملے امن و سکوں کا یارب
زندگی عالم اسلام ہوئی جاتی ہے

یہ شعر اور یہ تحریر لکھنے پر مجبور ہوں۔ شام کے الیکشن میں آبزرور مشن سے واپسی پر سوچا تھا کہ مبصر مشن کے مشاہدات پر مبنی ایک اور تحریر بھی لکھوں گا لیکن عراق میں داعش کی دہشت گردی میں شدت آگئی اور توجہ اس ایشو پر مرکوز کرنا پڑی۔ عراق پر مزید لکھنے کا ارادہ تھا تو غزہ میں صہیونی جارحیت ہوگئی، یوم القدس آگیا۔ غزہ پر مزید لکھنے کا ارادہ کیا تو پاکستان میں انقلاب مارچ اور آزادی مارچ شروع ہوگیا اور پھر آپ نے دیکھا کہ ہر پاکستانی اسی ایک مسئلے کے بارے میں سننا اور پڑھنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے قیام میں امریکہ کا کردار کے عنوان سے ایک اہم بحث شروع کی تھی، بڑی مشکل سے اس کی آخری قسط انتہائی اختصار کے ساتھ لکھنا پڑی اور چند روز بعد آپ اسے یہاں ملاحظہ فرمائیں گے۔

اب اس موضوع پر بات کرتے ہیں۔ 16 اگست کو اسلام آباد پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہونے والے انقلاب اور آزادی مارچ اب پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس منگل 2 ستمبر کو شروع ہوا تھا۔ آج تیسرے روز بھی یہ اجلاس جاری ہے۔ دھواں داھار تقریریں ہوئیں، لیکن بہت سی باتیں غیر منطقی و غیر عادلانہ بھی ہوئیں۔ شروع کرتے ہیں حضرت مولوی فضل الرحمن سے۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ دیوبندی مکتب کی جمعیت علمائے اسلام کے ایک گروہ کے وہ سربراہ ہیں۔ ان کا جمہوری ریکارڈ میں پہلے ہی تحریر کرچکا ہوں۔ ان کی تقریر نے مجھے حیران کر دیا کیونکہ مولوی کسی بھی مکتب کا ہو وہ علم منطق ضرور پڑھتا ہے۔ منطق کی اپنی ایک الگ منطق ہوتی ہے۔ انگریز کہتے ہیں کہ گو کہ سیب اور نارنگی دونوں پھل ہیں لیکن دونوں کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ فارسی زبان کا یہ شعر اس تشریح کی مزید وضاحت کرتا ہے
کند ھم جنس با ھم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز


یعنی کبوتر اور باز دونوں پرندے ہیں، لیکن کبوتر کی پرواز اور باز کی پرواز الگ الگ کیٹگری میں شمار ہوتی ہیں۔ لال مسجد، سوات کے صوفی محمد اور قبائلی علاقہ جات کے طالبان سے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی زیر قیادت دھرنوں کا موازنہ بالکل غیر منطقی اور غیر عادلانہ ہے۔ لال مسجد میں طالبات پر جو ایکشن ہوا، میں اس کی مذمت کرتا ہوں، خواتین، بچے اور بوڑھے اگر اس طرح آجائیں تب بھی ان پر اس طرح کی سختی کرنا اسلامی اخلاقیات کے خلاف ہے، البتہ طالبان برانڈ اسلام میں مشرف حکومت کا یہ عمل بالکل جائز تھا۔ امر واقعہ یہ تھا کہ لال مسجد میں زیر زمین بنکرز میں مسلح دہشت گرد تھے۔ لال مسجد میں اکوپنکچر کم مساج سینٹر سے چینی شہریوں کو اغوا کرکے قید کرلیا گیا تھا۔ پولیس آئی تو ان سے اسلحہ چھین لیا گیا تھا۔ فوج آئی تو انہیں بھی مارا گیا تھا۔ وہ اس طرح پرامن طور پر جمع نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے غصب شدہ زمین پر مسجد و مدرسے و لائبریری قائم کر رکھے تھے۔ لہٰذا موجودہ دھرنوں کا لال مسجد سے موازنہ غلط ہے۔ لال مسجد کے مولوی حضرات بھی جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کی آمریت پر تو خاموش رہے، ان کے اتحادی بنے رہے، لیکن جمہوری حکومتوں میں انہیں ہمیشہ اسلام اور شریعت یاد رہی۔ مشرف حکومت کے دور میں وہ یہ فراموش کرگئے کہ اب جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کے کاک ٹیل جنرل کی حکومت تھی۔

سوات کے صوفی محمد بھی بذریعہ طاقت شریعت کا نفاذ چاہتے تھے اور دلیل سے بات کے قائل نہیں تھے۔ سوات کے صوفی محمد اور ان کے داماد فضل اللہ جو اب طالبان کے سربراہ ہیں، انہوں نے ریاست پاکستان کے مقابلے میں متوازی ریاست قائم کی۔ جس پارلیمنٹ میں فضل الرحمان نے سوات سے موازنہ کیا، اسی پارلیمنٹ میں یہ فیصلہ ہوا کہ سوات میں پاکستانی فوج کو ملٹری آپریشن کرنا چاہیے اور ایسا ہوا۔ فضل حیات عرف فضل اللہ عرف ملا ریڈیو آج بھی سوات سے فرار ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ نیو یارک ٹائمز کے نکولس اشمڈل نے ایک ایسے دور میں سوات، امام ڈھیری جا کر ملا ریڈیو پر اسٹوری کی، جب پاکستان کی فوج یا پولیس کے لئے یہ علاقے نوگو ایریا بنے ہوئے تھے۔ لال مسجد اور سوات میں تشدد کی سیاست تھی اور مطالبات ایسے تھے جس پر ملت پاکستان کا اتفاق نہیں تھا۔ اب پی پی پی اور عوامی نیشنل پارٹی بتائے کہ سوات میں کیا صورتحال تھی۔ پارلیمنٹ سیشن میں عوامی نیشنل پارٹی کے زاہد خان نے کہا کہ ہم نے سوات میں پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔ دھرنوں میں شامل ایسا کونسا رہنما اور کارکن ہے جو پاکستان کے جھنڈے کی بے حرمتی کا قائل ہے؟ لہٰذا سوات سے موازنہ بھی غلط ہے۔

طاہر القادری نے پی پی پی حکومت کے دور میں جو دھرنا دیا تھا تب بھی ان کا نعرہ تھا سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔ اور جب قادری صاحب نے یہ نعرہ لگایا، اس کے بعد کئی مرتبہ خود فضل الرحمان نے بھی ریاست بچانے کی بات کی تھی۔ فضل الرحمان دھرنے، مارچ اور دھمکیوں کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے بہت بعد میں وہ قدم اٹھایا جو حضرت فضل الرحمان بہت پہلے سے کہہ رہے تھے۔ اگر ان کی یادداشت میں محفوظ ہو تو وہ کراچی سپرہائی وے پر سہراب گوٹھ کے نزدیک اجتماع سے کئے گئے اپنے خطاب کو قوم کے سامنے دہرائیں۔ تب بھی قادری صاحب، وہ، اور آج جتنے بھی پارلیمنٹ میں دھرنوں کے مخالفین بول رہے ہیں یہ سب نواز شریف کی سپر ہیوی مینڈیٹ رکھنے والی جمہوری آئینی حکومت کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ کہیں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، کہیں پاکستان عوامی اتحاد تو کہیں پونم۔

پونم سے یاد آیا کہ حضرت محمود خان اچکزئی بھی اس لسانی قوم پرست اتحاد کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی پونم کی رکن تھی۔ کہنے کو بے نظیر بھٹو صاحبہ وفاق پاکستان کی علامت سیاستدان تھیں، لیکن رضا ربانی، خورشید شاہ اور چوہدری اعتزاز احسن کے لئے یاد ماضی عذاب نہ ہوئی ہو اور انہوں نے یارب کہہ کر حافظہ چھننے کی دعا نہ مانگی ہو تو صوبہ سندھ کی صوبہ پنجاب کے ساتھ صوبائی سرحد پر کموں شہید کے مقام کو یاد کرلیں۔ سندھو دیش کا نعرہ لگانے والے علیحدگی پسندوں کی میزبانی میں ایک دھرنا دیا گیا اور وفاق کی علامت پیپلز پارٹی نے اس کو اونرشپ دی، قیادت دی اور بے نظیر صاحبہ نے وہاں خطاب بھی فرمایا۔ پیپلز ڈیموکریٹک الائنس سے لے کر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس یا پونم تک یہ سارے رہنما پنجاب اور پنجابیوں کو پاکستان کا ولن بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ خود کو شریف برادران کی حکومت میں تخت لاہور کا قیدی سمجھتے تھے۔ حاصل بزنجو اور اچکزئی کی باتوں سے محسوس ہوا کہ انہیں پنجاب کے نواز شریف اور شہباز شریف سے محبت ہونے لگی ہے، اب تخت لاہور نے وزارت اعلٰی حاصل بزنجو کی جماعت کے میر عبدالمالک کو دے دی ہے اور گورنری محمود اچکزئی کے بھائی کو۔ یعنی اب پاکستان اور پنجابی بہت اچھے ہوگئے ہیں ۔۔ اور یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ خدا خیر کرے! نواز شریف نے پہلے بھی عطاءاللہ مینگل کے بیٹے اختر مینگل کو بلوچستان کا وزیراعلٰی بنوا دیا تھا لیکن تخت لاہور پر تنقید بند نہیں ہوئی تھی۔

پاکستان کی تاریخ میں 1977ء سے اب تک کونسا ایک ایسا الیکشن ہوا جس پر دھاندلی کے الزامات نہ لگے۔ نواز لیگی رہنما فرمائیں کہ 1988ء کے الیکشن میں پی پی پی کی حکومت کے قیام سے آصف زرداری کی زیرصدارت پی پی پی کے دور حکومت تک کونسا ایسا دور گذرا، جب وہ کسی نہ کسی بہانے سڑکوں پر نہیں نکلے۔ ایسی کونسی جمہوری سیاسی اخلاقیات کا عملی رول ماڈل (نمونہ عمل) انہوں نے پیش کیا ہے کہ جس پر وہ آج اتنا اترا رہے ہیں۔ فوج کے سیاسی کردار کے بارے میں ان ’’تجربہ کار‘‘سیاسی قائدین سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ پاکستان قومی اتحاد (PNA) سے آئی جے آئی تک اور اس کے بعد چوہدری افتخار کو ہیرو بنانے تک یہ سارے قائدین کس کے اسکرپٹ پر عمل کرتے رہے۔؟

پروفیسر ساجد میر صاحب کے احترام کے ساتھ عرض کروں کہ انہوں نے بھی فضل الرحمان کی مانند غیر منطقی موازنہ کیا۔ وہ کہنے کو مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر ہیں، لیکن سینیٹر وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے ہی ہیں۔ اس لئے حکمران جماعت کی طرف سے انہوں نے جو خطاب کیا، اس میں طالبان، لال مسجد یا صوفی محمد جیسوں سے موازنہ ایک غیر منطقی زاویہ نگاہ ہے۔ طاہر القادری صاحب کے خوابوں اور دیگر تعبیرات سے مجھے بھی کوفت ہوتی ہے، انہیں ان باتوں سے احتراز کرنا چاہیے لیکن ہم جس موضوع پر بات کر رہے ہیں، وہ ان کا دس نکاتی ایجنڈا ہے، جس میں کوئی خوابی بات شامل نہیں۔ عمران خان کے دھرنے میں دیکھی جانے والی آزادی کا میں بھی مخالف ہوں، لیکن وہ جن مطالبات پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، اسے تو حکومت بھی جائز تسلیم کرچکی ہے۔

پی ٹی وی پر حملے کی باتیں نہ ہی کی جائیں تو بہتر ہے۔ اس پارلیمنٹ کے محترم اراکین ذرائع ابلاغ کی آزادی کے کتنے قائل ہیں، یہ بھی کھلا راز ہے۔ اس پارلیمنٹ نے ریڈ زون میں صحافیوں پر پولیس تشدد کے خلاف کیا ایکشن لیا؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی ار درج نہ ہونے پر پارلیمنٹ کے محترم اراکین نے کیا ایکشن لیا؟ کیا پارلیمنٹ کا جنگلہ پولیس کی فائرنگ اور آنسو گیس شیلنگ کے بعد ٹوٹا یا پہلے؟ خواتین اور بچوں کو فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ سے بچانے کے لئے پارلیمنٹ کے لان میں جانا پڑا۔ پی ٹی وی پر آرٹیکل 245 کے تحت فوج تعینات ہی نہیں کی گئی تھی، کیوں؟ پھر یہ کہ پی ٹی وی نشریات بند کرنا عام آدمی کے بس کی بات تھی؟ حضور خدا کا خوف کیجئے، قادری صاحب کے دھرنے سے پولیس کے کئی مسلح افراد سادہ لباس میں ملبوس مظاہرین بنے ہوئے تھے۔ نذیر نامی اہلکار کارکنوں کو اکسا رہا تھا کہ یہاں حملہ کرو، وہاں حملہ کرو، پکڑا گیا تو کبھی نام حسین، غلام حسین اور غلام رسول بتانے لگا! سانحہ ریڈ زون میں بے گناہ مسلمان پاکستانی شہری شہید ہوئے، ابھی یہ مقدمہ درج نہیں ہوا، پارلیمنٹ بتائے کس آئین اور قانون کے تحت ایسا ہو رہا ہے؟ لہٰذا محترم اراکین پارلیمنٹ کی خدمت میں عرض ہے کہ:
جب کسی سے کوئی گلہ رکھنا 
سامنے اپنے آئینہ رکھنا

(نوٹ: فضل الرحمان اور انکی جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں مزید تفصیلات یہاں پڑھیں: https://www.islamtimes.org/vdccs4q042bqxi8.c7a2.html)
خبر کا کوڈ : 408260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ایک مدلل تحریر۔ شکریہ
ہماری پیشکش