0
Tuesday 29 Jul 2014 14:29

زخم نواز عیدالفطر

زخم نواز عیدالفطر
تحریر: طاہر یاسین طاہر

غزہ لہو لہان ہے، اسرائیلی جنگی جرائم کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اب اسرائیلی حملے ہسپتالوں اور پارکوں پر بھی ہو رہے ہیں۔ دنیا کے سارے ستم گر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم مگر عید کے تہنیتی پیغامات کے بعد دعاؤں کے ذریعے دشمن پر فتح پانے کا ’’چلہ‘‘ کاٹ رہے ہیں۔ رمضان المبارک کو جس طرح ہم نے گزارا وہ بجائے خود ایک لمحہء فکریہ ہے۔ حرف از خود لہو لہو ہیں، اگرچہ ہم بڑے لحن سے اور نئی نئی تراکیب کو تراش کر عید مبارک کا ورد کیے جا رہے ہیں مگر حقیقت میں ہم مسلمانوں کے اس مذہبی تہوار کی غرض و غایت کو بھول چکے ہیں۔ کوئی عالمِ دین آئے اور لوگوں کو اس حوالے سے بتائے۔ علماء مگر فتوہ گری اور پھر اسی فتوہ کاری کے بعد ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘ والا درس دینے میں مصروف ہیں۔ علمائے حق کو بہر حال آگے بڑھنا ہوگا۔

ماہ صیام کے دوران میں ہم نے مختلف ٹی وی چینلز پر افطار و سحر کی میراتھن ٹرانسمیشن بھی دیکھیں۔ گاہے خیال گزرتا کہ کیا اسلام اس قدر کسمپرسی کی حالت میں ہے؟ کہ اس کے پاس نہ ڈھنگ کا کوئی عالم نہ روزہ کی فرضیت کے مقاصد بیان کرنے والا کوئی مفکر؟ لے دے کے کمرشل’’اتاشی‘‘ بیٹھے لوگوں میں واشنگ مشینیں اور موٹر سائیکلیں تقسیم کر رہے ہیں۔ جب بازاری لوگ دینی احکامات کو اپنی من مرضی میں ڈھالنے لگ جائیں تو مصیبتیں اپنا راستہ خود تلاش کرتی ہیں اور یہ مصیبتیں کسی ایک فرد پر نہیں بلکہ پوری ایک قوم پر نازل ہوا کرتی ہیں۔ ہم مگر خود پرستی کا شکار لوگ ہیں۔ باتیں ایسی کہ دنیا کو لمحے میں فتح کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور کام ایسے کہ بیگانوں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی مذاق اڑاتے پھریں۔ تسلیم کر لینا چاہیے کہ جب تک ہم دین میں اجتہادی نکتہ نظر کو اہمیت نہیں دیں گے، بھٹکتے رہیں گے۔ دنیا چاند تسخیر کرنے کے بعد مریخ کی طرف محوِ سفر ہے اور ہم ہیں کہ اتنے ڈھیر سارے مفتی و مولویوں سمیت بڑی بڑی مشینوں کے سہارے بھی چاند کی ایک جھلک نہیں دیکھ پاتے۔

البتہ ہر سال ’’قاسم مسجد والا مفتی پوپلزئی‘‘ ایسی نظر بازی کرتا ہے کہ چاند اس کی نظر میں سمٹ کر رہ جاتا ہے جبکہ باقی پورا پاکستان ہکا بکا مفتی پوپلزئی کی کرامت کاری کو ایک آدھ دن داد ہی دیتا رہتا ہے۔ کیا عالمِ اسلام کے جید علماء مل کر اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے؟ کیا عید کا چاند دیکھنے کا معاملہ محکمہ موسمیات کے سپرد نہیں کیا جا سکتا؟ جو اگلے ایک ہزار سال تک کے لیے بتا دیتے ہیں کہ کب اور کہاں کہاں چاند گرہن ہوگا اور کہاں سورج گرہن؟ مولوی مگر اپنی ’’رٹ‘‘ کو چیلنج نہیں ہونے دیتا۔ ہر سال ہم پوری دنیا میں تماشا بنتے ہیں۔

وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ حاکمِ وقت کی اطاعت کرو، ان سے ایک سوال یہ تو بنتا ہے کہ تم لوگ سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے مقابلے میں اپنی ’’نجی رویت کمیٹی‘‘ بٹھا کر حاکم وقت کے احکامات کے منکر کیوں بنتے ہو؟ بازاری لوگ جب دینی احکامات کو اپنی من مرضی میں ڈھالنے لگیں تو بلاشبہ مصیبتیں نازل ہوا کرتی ہیں۔ امت تفرقہ بازی کی مصیبت میں گرفتار ہے۔ وہ مولوی جس نے تکفیری رویوں کو رواج دیا، مسلمانوں کے قتل کو جائز قرار دیا، عید کے خطبات میں وہی مولوی امت کی سربلندی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو کا درس دے رہا ہے۔ میں دکھی دل کے ساتھ یہ سب صفحہء قرطاس پہ لکھے جا رہا ہوں، مگر یہ ایسے حقائق ہیں جن سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ بلاشبہ یہ عید زخم نواز ہے۔ عراق سے غزہ تک ہم چور چور ہیں۔ انبیاء علیہ السلام کے مزاراتِ مقدسہ کے ساتھ ’’جہاد‘‘ کرنے والے دین کی ایسی ایسی تعبیریں پیش کرتے ہیں جو تل ابیب والوں کو بھی راس آتی ہیں اور نیویارک والوں کو بھی۔ غزہ کے مسلمان اسرائیلی بربریت کی زد میں ہیں اور انبیاء علیہ السلام کی سرزمین عہدِ حاضر کے خوارج کی زد میں، ایسے میں مسلمان اس عید کو منائیں تو کس طرح؟ کیا مساجد میں اسرائیل اور امریکہ کی نابودی کی دعائیں کرنے سے مصیبت ٹل جائے گی؟ نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم پھر یاد آتے ہیں
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے


ہم مگر اس بلا کو دعاؤں سے ٹالنے پر بضد ہیں۔ شنید ہے کہ حماس کے خاتمے کے لیے یو اے ای اور سعودی عرب نے اسرائیل کو مالی تعاون کی بھرپور پیشکش کی ہے۔ میرے پاس اس خبر کی تصدیق کے لیے ذرائع تو نہیں، لیکن فلسطین کے حوالے سے اور امت کو کمزور کرنے کے حوالے سے اگر مذکورہ عربوں کا کردار دیکھا جائے تو اس خبر پر یقین کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ کیا طالبان کو انھوں نے سپورٹ نہیں کیا؟ کیا شام میں بشارالاسد کی حکومت گرانے کے لیے انھوں نے ’’جہادی‘‘ ایکسپورٹ نہیں کئے؟ کیا امریکہ کو شام پر حملہ آور ہونے کے لیے مالی تعاون کی پیشکش نہیں کی گئی؟ یہ سب کل کی باتیں ہیں۔

کمال منافقت ہے کہ وہی لوگ جو شام سے عراق اور عراق سے پاکستان تک دہشت گردوں کو کسی نہ کسی طرح سپورٹ کر رہے ہیں، وہی لوگ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر دنیا میں امن کے لیے دعائیں بھی مانگ رہے ہوتے ہیں۔ کیا پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے عیدالفطر پر دہشت گردی کے خطرے کی پیشنگوئی نہیں کی؟ کیا شام، عراق اور پاکستان میں مسلمان انتہا پسند تکفیریوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ نہیں ہیں؟ کیا غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینوں پر اسرائیل و مصر برابر ظلم نہیں کر رہے؟ ہم مگر نمازِ عید کے بعد عالمِ اسلام کی سربلندی اور اسرائیل و اس کے سرپرستوں کی بربادی کی لمبی دعا( اونچی آمین کے ساتھ) مانگ کر لمبی تان لیں گے۔
خبر کا کوڈ : 402086
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش