1
0
Sunday 2 Nov 2014 16:49

داعش کیجانب تشویشناک رجحانات

داعش کیجانب تشویشناک رجحانات
تحریر: جاوید عباس رضوی

پرامن تحریک آزادی کشمیر پر داعش کا سایہ:
کشمیری عوام کہ جو سالہا سال سے بھارتی مظالم، استعماریت اور بربریت کے شکار رہے ہیں، مشکل ترین حالات میں بھی کشمیریوں نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، کشمیر کی سرزمین کا ذرہ ذرہ اپنی ایک منفرد خونین داستان پیش کرتا ہے، کٹھ پتلی حکمرانوں، نیتاؤں، منسٹروں اور بھارتی ایجنٹوں اور مخبروں کو مستثنٰی کرکے کشمیر کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو بھارتی مظالم و تشدد کا کسی نہ کسی اعتبار سے شکار نہ ہوا ہو، میرے کشمیر عزیز کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جس پر بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کا خون نہ بہایا گیا ہو، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اول تاریخ و اول تحریک سے ہی پرامن رہی ہے، تقریباً 1989ء سے کشمیریوں کی برسوں سے جاری پرامن تحریک میں اگرچہ شدت آگئی تھی اور یہاں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے ہتھیار اٹھائے، بھارت نے بری طرح اس پرتشدد تحریک کو کچلا، یہاں تک کہ عالمی سطح پر مطالبہ کیا گیا کہ کشمیر کی تحریک آزادی پرامن طریقے سے جاری رہے، جموں و کشمیر کے اکثر بااثر حریت پسند رہنماؤں نے اس مطالبہ کو قبول کیا اور اب چند سالوں سے ہماری تحریک آزادی پرامن بھی ہے اور پرمعنٰی بھی، اس پرامن تحریک میں بھی اکا دکا پرتشدد واقعات پیش آتے رہے، جن واقعات کو یا تو بھارت کی کارستانی کہا جاسکتا ہے یا پھر اسکی ایجنسیوں کی کارکردگی یا پھر عسکری تنظیموں کی خود کو زندہ رکھنے کی علامتیں، جو کچھ بھی ہے اسے کشمیریوں کی بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اگر کشمیریوں نے اور کشمیر کے بااثر رہنماؤں نے کشمیر کی اس مقدس تحریک کو پرامن جاری رکھنے کا عہد و پیمان کر رکھا ہے یا اگر ہمیں پرامن تحریک کے تسلسل میں ہی مثبت کامیابی دیکھنے کو ملتی ہے تو ہمارے لئے فعلاً بندوق کی موجودگی باعث تشویش ہے، پرامن تحریک میں پرتشدد واقعات پروقار قوم کے لئے فائدے مند ثابت نہیں ہوسکتی ہے، یہ باتیں طولانی اور تاریخی ہیں۔

بات جو یہاں بیان کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ کشمیر میں شدت پسندی کی جانب رجحان اور دہشت گرد تنظیموں کے حق میں نعرے بلند ہونا اور شہر و گام کی دیواروں پر داعش، طالبان اور القاعدہ کی حمایت میں عبارت کنندہ اور اس دوڑ میں عوام کے ساتھ ساتھ حریت لیڈران بھی سبقت لئے ہوئے ہیں، شہر سرینگر کے در و دیواروں پر طالبان ویلکم، القاعدہ ویلکم، داعش ویلکم اور بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں میں داعش کے پرچم بھی لہرائے جاتے ہیں، حریت پسند لیڈران نے بھی یا تو چپ سادھی ہوئی ہے یا ’’ویٹ اینڈ واچ‘‘ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ داعش کی حقیقت کیا ہے، کسی باشعور انسان سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ داعش کی پشت پناہی اور انکی معاونت کہاں سے ہو رہی ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اول تاریخ سے سے ہی دہشت گرد موجود رہے ہیں، کبھی مسلمانوں کی شکل میں تو کبھی یہود و ہنود و کفار کی شکل میں، لیکن اسلام کو سب سے زیادہ مسلم نما دہشت گردوں سے ہی خطرہ لاحق رہا ہے۔ تاریخ انسانیت نے بہت سارے ایسے واقعات دیکھے کہ اسلام کے نام پر اسلام کی گردن کٹی ہے، تکبیر کے نام پر تدبیر اسلامی کا گلہ کاٹا گیا ہے، مسلمان دہشت گردوں سے ہی اسلام ناب کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمان اور اسلام ہی عالمی دہشت گردی کے نشانے پر رہے ہیں، آج بھی نام نہاد اسلام کا اسلام ناب محمدی (ص) سے مقابلہ ہے، ایک طرف امریکی اسلام اور ایک طرف اسلام ناب محمدی (ص)۔

داعش کا پس منظر اور مسلمانوں پر انکے مظالم:
2004ء میں ابومصعب الزرقاوی نے عراق میں "توحید و جہاد" نامی دہشت گرد گروہ تشکیل دیا اور ساتھ ہی اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی، اس طرح یہ گروہ ابومصعب الزرقاوی کی قیادت میں عراق میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا، یہ گروہ بڑے پیمانے پر شدت پسندانہ کارروائیوں کی بدولت عراق میں ایک انتہائی خطرناک دہشت گروہ کی صورت اختیار کر گیا، 2004ء میں ابومصعب الزرقاوی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے "شوریٰ مجاہدین" کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے عبداللہ رشید البغدادی کو اس کے سربراہ کے طور پر معین کر دیا، 2004ء میں ہی ابومصعب الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد ابو حمزہ المہاجر اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر سامنے آیا، اس سال کے آخر میں ابو عمر البغدادی کی سربراہی میں کئی دہشت گرد گروہوں کے اتحاد سے "دولت الاسلامیہ فی العراق" کی بنیاد رکھی گئی، 19 اپریل 2010ء کو عراقی سکیورٹی فورسز اور امریکی فوجیوں نے ایک مشترکہ کارروائی کے دوران "الثرثار" نامی علاقے میں موجود ایک گھر پر حملہ کیا، جہاں توقع کی جا رہی تھی کہ ابو عمر البغدادی اور ابو حمزہ المہاجر موجود ہیں۔
 
شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد اس گھر پر ہوائی حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ دونوں دہشت گرد ہلاک ہوگئے، ان دونوں کی لاشیں عام لوگوں کو دکھائی گئیں، تقریباً ایک ہفتے بعد اس دہشت گرد گروہ نے انٹرنیٹ پر اپنے ایک بیان کے ذریعے ان دونوں دہشت گردوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ابوبکر البغدادی (اَبو کا بکرا بغدادی) کو اپنے نئے سربراہ کے طور پر اعلان کیا، ابو بکر البغدادی کی سربراہی میں داعش کے ہاتھوں ابھی تک یعنی ایک مختصر مدت کے دوران ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے سر قلم کئے گئے، سروں کو نیزوں پر بھی بلند کیا گیا، سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلا گیا، مقدسات اسلامی کی توہین کے بھی یہ تکفیری دہشت گرد مرتکب ہوئے۔ مزارات مقدسہ کے انہدام کو بھی انہوں نے روا رکھا، اصحاب کرام کے قبروں کی توہین بھی کی، عید کی نماز کو بدعت، 12 سال سے 47 سال کی خواتین کو ختنے کے فتوے بھی جاری کئے گئے، اسرائیل کے خلاف احتجاج و جہاد حرام اور مسلمانوں کے خلاف تکفیری گروہوں کی جنگ اور قتل و غارت جائز، اس قدر مظالم، قتل و غارتگری کہ القاعدہ اور طالبان نے بھی انکی درندگی کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور خود کو بعض موارد پر ان سے الگ کیا، خود کا راستہ ان سے الگ رکھا، انکی کارروائیوں سے القاعدہ اور طالبان کے مظالم بھی ماند پڑ گئے۔

بھارت میں داعش کی آمد:
بھارت کے شدت پسند مسلمان اگرچہ ظاہراً داعش کی حمایت کھلے الفاظ میں نہیں کرتے، لیکن دبے الفاظ میں داعش کی محبت کا اظہار ضرور کرتے ہیں، حال ہی میں ابوبکر البغدادی نے ہندوستانی مسلمانوں سے اپنے ملک کے خلاف جنگ کرنے کی اپیل کی تو اس کے بعد فوراً بعد بھارت کے ممتاز عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق صدر آنجہانی مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نواسے مولانا سلمان ندوی نے ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ کے سرغنہ ابوبکر البغدادی کو ایک خط لکھ کر اس کی حکومت کو مبارک دی تھی۔ انہوں نے اپنے خط میں عسکریت پسند ابوبکر البغدادی کو امیرالمومنین کے لقب سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدا ان کی حفاظت کرے، ان کے ذریعہ امت کو فائدہ پہنچے اور اسلام کا پرچم بلند ہو۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ ’’عالی جناب! میں بہت دنوں سے دولت اسلامیہ کی خبروں کو سن رہا تھا اور اس کے سلسلے میں کافی مشتاق رہتا تھا، اس سے پہلے بھی میں افغانستان میں اسلامی تنظیموں کے جہاد کی خبریں مسلسل رکھتا تھا جو کہ اصل جہاد روس کے خلاف تھا، پھر اس کے بعد عراق پر امریکی حملہ اور پھر اس کے بعد مجھے اس بات کی بھی اطلاع ہے کہ شام میں النصرة اور دولت اسلامیہ کے درمیان اختلافات بہت آگے بڑھ چکے ہیں، اس کے علاوہ شام میں جو تنظیمیں لڑ رہی ہیں ان میں باہمی اختلاف ہمارے لئے بدشگون تھے کہ اسی دوران ہم نے یہ خوشخبری بھی سنی کہ آپ نے عراق کے موصل پر قبضہ کرکے ایک مجرم نوری المالکی (عراقی وزیراعظم) کے خلاف فتح حاصل کی ہے، نوری المالکی فی الحال بہت سرکش ہے اور مذہبی فتنہ پھیلانے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ فتنہ بڑا اور اس کا کرنے والا بڑا ظالم ہے۔‘‘

مولانا سلمان ندوی نے اس خط میں مزید لکھا ’’میں نے آپ کو بہت غور سے سنا ہے جب کہ آپ کو دیکھا نہیں ہے اور اس کو سنا ہے جس کو آپ نے اپنا نمائندہ بنا رکھا ہے‘‘، مولانا سلمان ندوی نے ابوبکر البغدادی کی ہمت اور بہادری کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ بڑی چٹان بن کر آسمان کی طرف بلند کھڑے ہیں اور اس حکومت کو ختم کرکے ایسے راستے پر قدم رکھا ہے جس میں کانٹے اور پتھر ہی پتھر ہیں، آپ جو بھی کردار نبھا رہے ہیں، اس کو سبھی نے تسلیم کیا اور آپ کو امیرالمومنین مان لیا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے یہی رجحانات دیکھ کر اب داعش نے مشرق اور شمال مشرقی بھارت میں جلد اسلامی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی مشرقی ریاست بنگال میں سکیورٹی اہلکاروں کو ایسے کتابچے ملے ہیں، جن میں مبینہ طور پر القاعدہ کی طرف سے پیغام دیا گیا ہے کہ ملک کے مشرق اور شمال مشرق میں اسلامی خلافت قائم کی جائے گی۔ مغربی بنگال اور آسام کو خصوصی طور پر اس خلافت میں شامل کرنے کی بات بھی کی گئی ہے جبکہ انٹیلیجنس ماہرین کی رائے میں ریاست بہار اور جھاڑ کھنڈ کو بھی اس کا حصہ بنائے جانے کا منصوبہ ہے۔ کتابچے میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں بنگلا دیش میں شام جیسی خلافت قائم کی جائے گی۔


کشمیر میں داعش کی جانب بڑھتا رجحان:

ناآشنائی اور ناواقفیت کی بناء پر داعش کے ابھرنے پر بہت سارے لوگ انکی جانب مائل ہوتے دکھائی دینے لگے تھے، لیکن پھر جلدی وہ اپنی غیر اسلامی بلکہ اسلام مخالف کارروائیوں کے نتیجے میں بے نقاب ہوگئے، اب کم سے کم باشعور اور روشن فکر طبقے میں داعش کی اصلیت پنہاں نہیں رہی، اب ہر ایک ذی شعور حس فرد پر داعش کی دہشتگردی اور اسلام دشمنی واضح ہوچکی ہے مگر یہ کہ جو افراد اصلیت اور حقیقت سے منہ موڑنا چاہیں، ہندوستان کے ساتھ ساتھ کشمیر سے بھی بعض نوجوانوں کی داعش میں شمولیت کا انکشاف ہوا ہے لیکن ہمارے سیاسی لیڈران بھی ’’آئی ایس آئی ایل‘‘ کی جانب راغب نظر آرہے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ہم ابھی ’’ویٹ ایند واچ‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں تو بعض لیڈران اپنے بھارت مخالف احتجاجوں میں داعش کی حمایت میں نعرے بنلد کرتے ہیں اور پرچم بھی بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویٹ اینڈ واچ کے کیا معنی ہیں، ہمارے لیڈران کا کہنا ہے کہ عراق میں نام نہاد اسلامی ریاست اور خلیفہ کے اعلان پر وہ اور ان کی تنظیم کوئی رائے زنی نہیں کریں گے، لیکن ’’ویٹ اینڈ واچ‘‘ پالیسی پر کاربند رہنے کا فیصلہ کیا ہے، کشمیری لیڈران نے صاف کہا کہ ابھی ہم داعش کے سرغنہ اور نام نہاد خلیفہ کے بارے میں انتظار کر رہے ہیں، آگے بھی دیکھتے رہیں گے اور پھر کبھی حتمی فیصلہ دیں گے، ابھی شاید انہیں داعش کی سفاکیت نظر نہیں آتی، لوگوں کی کٹے سر نطر نہیں آتے، خواتین کی لٹی ہوئی عصمتیں دکھائی نہیں دیتی، آخر ان درندہ صفات دہشت گردوں کے بارے میں ہمارے لیڈران کا حتمی فیصلہ کب منظر عام پر آئے گا۔

اگرچہ جموں و کشمیر کے بعض لیڈران نے داعش اور اسکے نام نہاد خلیفے کی مخالفت اور ایسے بیانات کی مذمت کی، جو داعش کی حمایت میں ہوں اور ان لیڈران نے واضح کیا کہ اسلام میں خیلفے کا کیا مقام و کیا منزلت ہے، جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کے صدر مولانا مسرور عباس نے اس منافقانہ طرز عمل اور مصلحت پسندانہ سیاست پر انتہائی تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خود کو کشمیر کا قائد انقلاب کہلانے والے اب بھی بےگناہ لوگوں کا سفاکانہ قتل عام کرنے والے نام نہاد اسلامی خلیفہ اور اسرائیلی تربیت یافتہ داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی میں واجب الاطاعت خلیفہ ہونے کی کسوٹی کا انتظار کر رہے ہیں، تاکہ اسے خلفائے راشدین کے ساتھ منسوب کیا جاسکے، مسرور عباس نے سوال کیا ہے کہ اسلامی عدالت، انصاف اور مساوات کے علمبردار حضرت علی (ع) کو بےگناہ اور نہتے عوام کے قاتل کے ساتھ موازنہ کرنے کا سبق انہیں کون سا اسلام سکھاتا ہے، سادہ اور پرہیزگارانہ زندگی گزارنے والے خلیفہ حضرت ابو بکرؓ کو عراق اور شام کی دوشیزاؤں سے جبری جہاد النکاح انجام دینے والے اور ان کا جنسی استحصال کرنے والے بغدادی سے وہ کس طرح نسبت دے سکتے ہیں، کیا ایک کُرتے پر قناعت کرنے والے اسلامی خلیفہ حضرت عمرؓ کو چالیس لاکھ ڈالر کی گھڑی پہننے والے کے درمیان انہیں کوئی فرق نظر نہیں آتا اور قرآن کی تلاوت کے دوران شہید ہونے والے حضرت عثمانؓ کو اس فرد اور تنظیم سے کیسے شباہت دی جاسکتی ہے جو قرآن مجید کی بعض مقدس آیتیں حذف کرکے اسے بدل دینے کے مکروہ منصوبے کا برملا اعلان کرچکے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ تکفیری دہشت گردوں نے مقدس مقامات پر حملے کرکے انہیں ویران کیا ہے اور خودکش حملوں کے ذریعے شیعہ مسلمانوں کو سرعام قتل کرنا جائز جانتے ہیں مگر آج تک فلسطین یا غزہ کے مظلوم عوام یا کشمیریوں کے ساتھ کیوں زبانی ہمدردی بھی نہیں جتائی ہے، لیڈران کے تجاہل عارفانہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد المسلمین کے صدر نے واضح کیا کہ عراق میں کوئی فرقہ واریت یا مسلکی لڑائی نہیں بلکہ یہ سامراجی طاقتوں خصوصاً اسرائیل کی شہہ پر مسلمان ممالک کو کمزور کرکے ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے اور مختلف مسلکوں کے درمیان اختلافات کی خلیج پیدا کرنے کی سازش کا حصہ ہے جو آج کل اس بغدادی کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔
اب اگر ہمارے کشمیر کا کوئی لیڈر داعش کے دہشت گردوں کی حمایت بظاہر نہیں کرتا ہے، لیکن اس کے جلسے جلوسوں میں اور اجتماعی ریلیوں میں داعش کے پرچم لہرائے جاتے ہیں، یہ بھی قابل تشویش اور قابل مذمت ہی ہے، ہمیں اپنی پرامن جدوجہد میں داعش، القاعدہ اور طالبان جیسے تکفیری دہشت گردوں کی حمایت سے ہرحال میں اجتناب کرنا ہوگا، ایسے عناصر کی حمایت اور ان کو اپنے سروں پر مسلط کرنا کسی بھی نقطہ نگاہ سے سود مند ثابت نہیں ہوسکتا ہے، بڑی مشکل سے ہماری تحریک آزادی صحیح سمت میں رواں دواں ہے، کہیں عالمی دہشت گردی ہماری اس پرامن تحریک کو اپنے اصل مقصد سے منحرف نہ کرنے پائے، ہمیں اور خاص طور پر ہمارے لیڈران کو اس حوالے سے بہت ہی حساس اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اگر ہم عالمی سیاست پر نظر نہیں رکھتے ہیں تو خاموشی بہتر ثابت ہوسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 417387
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
خوبصورت اور حقائق پر مبنی تحریر ہے، جاری رکھیں
ہماری پیشکش