11
0
Tuesday 5 Aug 2014 12:50

شہید ابنِ شہید

شہید ابنِ شہید
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com


تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال پہلے کی بات ہے کہ جب یہی رمضان المبارک کا مہینہ تھا، شبِ قدر کی راتیں تھیں اور ملتِ اسلامیہ دعا و مناجات و تلاوتِ قرآن میں مشغول تھی کہ ایک روز اذانِ صبح کے بعد توحید کی شہ رگ پر شرک کا خنجر چلا اور یوں فرزندانِ توحید یتیم ہوگئے۔ صاحبانِ تحقیق کے لئے مقامِ فکر یہ نہیں تو اور کیا ہے کہ یہ خنجر کسی کافر، مشرک، یہودی، عیسائی، نصرانی یا مجوسی نے نہیں چلایا تھا بلکہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے ایک شخص نے یہ خنجر چلایا تھا۔ اس خنجر کی لمبائی، چوڑائی اور طول و عرض کا اندازہ اس سے کر لیجئے کہ آج تک یہ خنجر دنیائے اسلام کی جڑوں کو کاٹ رہا ہے اور اس خنجر کو چلانے والے اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہے ہیں۔

اس سال ماہِ مبارک رمضان میں شبِ قدر، نزولِ قرآن، شہادت امیرالمومنین (ع)، یوم القدس کے ساتھ ساتھ ایک اور مناسبت بھی آگئی ہے، ایک ایسی مناسبت کہ جس نے ایک مرتبہ پھر امیرالمومنین ؑکی شہادت کے زخم تازہ کر دئیے اور ازسرِ نو ملت اسلامیہ کوی تیمی کا حساس دلایا۔ جی ہاں اس سال ماہِ مبارک رمضان میں 5 اگست کو علامہ شہید عارف حسین الحسینی کی برسی کا دن بھی آپہنچا ہے۔ وہ 5 اگست 1988ء کی ایک صبح تھی جب نمازِ صبح کے بعد ہمارے عہد کے ابنِ ملجم نے اپنے وقت کے فرزندِ علی (ع) پہ فائر کیا۔ اس گولی کے چلنے کے بعد بہت سارے لوگوں نے بہت کچھ کہا کسی نے شہید کو وحدتِ اسلامی کا ستون قرار دیا، کسی نے علامہ کے قتل کو "ایک عہد" کا قتل کہا، کسی نے اس خونِ ناحق کو شمعِ بصیرت کو گُل کرنے کے مترادف سمجھا، کسی نے شہید کے قتل کو افغانستان میں جاری جہادِ اسلامی کی موت قرار دیا اور کسی نے کہا کہ یہ قتل بیک وقت وحدتِ اسلامی، عدل و انصاف، استعمار شناسی، بصیرت اور قیام و جہاد کا قتل ہے۔

سب نے اپنی اپنی فکر اور سوجھ بوجھ کے مطابق شہید کی ذات کے بارے میں الفاظ کے موتی پروئے، لیکن ایک جملہ شہید کے قاتل یعنی وقت کے ابنِ ملجم نے بھی کہا وہ ایک جملہ کہ اگر اسے شفق کی سرخی میں ڈبو کر آفاق کی وسعتوں پہ لکھا جائے تو آسمان کا جگر شق ہوجائے، ستارے آپس میں ٹکرا جائیں، زمین اپنے مکینوں کو نگل لے اور دریا و سمندر قہرِ الٰہی کے قالب میں ڈھل جائیں۔ وہ ایک جملہ جو قاتل نے اپنے اشکوں کو پونچھتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے احساس ہوتا ہے کہ "مجھ سے وقت کا کوئی پیغمبر قتل ہوگیا ہے۔" [1]

ہاں قارئین محترم! یہ عظمت، یہ سربلندی، یہ رفعت صرف اور صرف خاندانِ رسول (ص) و خاندانِ علی ابن ابیطالب (ع) کو ہی حاصل ہے کہ ان کی مظلومیت پر ان کے قاتل بھی روتے ہیں، ان کی صداقت کی گواہی ان کے دشمن بھی دیتے ہیں اور ان کی بلندی کردار کو ان کے بدترین عدو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ شہید ابنِ شہید کی برسی کے دن ہیں، یہ اس کی برسی کے ایّام ہیں کہ جسے امام راحل نے اپنا بیٹا کہا تھا اور اس کے افکار کو زندہ رکھنے کی تاکید کی تھی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شہید کی برسی کی اہمیت "یوم القدس" سے کسی طور بھی کم نہیں۔ علامہ کی شہادت یقیناً ایک بہت بڑا المیہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا المیہ اس وقت ہوگا جب ہم شہید کے افکار کو فراموش کر دیں گے۔ خدا ہم سب کو شہید کے افکار کو زندہ رکھنے، انہیں سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔
------------------------------------------------------------------------------
[1] قتیلِ سحر ص ۱۸۳
خبر کا کوڈ : 289380
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
ماشاءاللہ نذر بھائی
آپ نے ایمان تازہ کر دیا۔
سدا سلامت رہیں اور اس ملت مظلوم کی ترجمانی کرتے رہیں۔
سلام
بہت اچھا نذر بھائی
اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔
Pakistan
اجرکم علی اللہ
سبحان اللہ۔
Iran, Islamic Republic of
نذر بھائی ہر حال میں یہ یاد رکھیں کہ آپ انگلیوں پر گنے چنے چند لوگ اس ملت کی آواز ہو، جس کی کوئی آواز نہیں۔
ہمیشہ سلامت رہیں اور اس ملت بے نوا کی خاطر آواز بلند کرتے رہیں۔
جزاک اللہ
بہت اچهی تحریر ہے، ماشاءالله
Iran, Islamic Republic of
خدا ہم سب کو شہید کے افکار کو زندہ رکھنے، انہیں سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔
سبحان اللہ دل میں اتر جانے والی تحریر ہے۔
محمد علی ایڈیٹر والقلم
Iran, Islamic Republic of
بہت جامع بات ہے کہ یہ قتل بیک وقت وحدتِ اسلامی، عدل و انصاف، استعمار شناسی، بصیرت اور قیام و جہاد کا قتل ہے۔
Iran, Islamic Republic of
مختصر، مفید اور موثر
Great piece of writing
Iran, Islamic Republic of
Its beautiful Nazar bhai.. The title is superb


Allah bless U
ہماری پیشکش