0
Sunday 9 Mar 2014 10:33

بھارتی انتخابات، مسلمانوں سے جعلی ہمدردی جتانے کے دن

بھارتی انتخابات، مسلمانوں سے جعلی ہمدردی جتانے کے دن

لوک سبھا کے سولہویں چناؤ میں فی الوقت کسی دائیں، بائیں جماعت کے سیاسی مستقبل کے بارے میں رائے زنی قبل از وقت ہو گی، کیونکہ بھارتی سیاست اس وقت چوں چوں کا مربہ معلوم ہوتی ہے۔ البتہ کم سے کم موجودہ حکمراں نیشنل کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی، سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے منہ زور سیاسی لیڈر اپنی جسمانی قوت کو مجتمع کر کے انتخابی جیت کو یقینی بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ انتخابات سے قبل مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ نرمی، چاپلوسی اور ’’منافقانہ رواداری‘‘ بھارتی سیاست کا اہم ترین عنصر سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں رہنے اور وہاں کے حالات سے بخوبی آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ مسلمانوں سے جعلی ہمدردی جتانے کے دن ایک مرتبہ پھر آگئے ہیں۔

سونیا گاندھی، ان کے فرزند ارجمند راہول گاندھی، چشم بددور من موہن سنگھ، بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی، پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ اور دیگر کے بیانات اٹھا کر دیکھیں تو ایسے لگ رہا ہے کہ ان کی ہار جیت مسلم ووٹ بنک پر منحصر ہے۔ خاص طورپر یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس نے ماضی میں مسلمان اقلیت کے حقوق کے لیے ہونے والی کسی بھی کوشش کو ہمیشہ ناکام بنایا۔ 

یہ پارٹی نہ صرف مسلمانوں کو بنیادی شہری حقوق دینے کی کھلی مخالف رہی بلکہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے قتل عام میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ آج اگر نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ مسلمانوں سے معافی کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی مسلمانوں کے قتل عام کے بعد انتخابات کے موقع پر اس جماعت کے سورماؤں کا یہی طرز عمل رہا ہے۔

بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب میں کہا کہ اگر ان کی جماعت کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں تو وہ معافی مانگتے ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی معافی کی بات کو ’’اگر‘‘ کے لفظ سے مشروط کرکے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کو ’’بے جے پی‘‘ کے مظالم اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے واقعات آج بھی یاد ہیں۔ 

یہی وہ پارٹی ہے جس نے ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے لیے اپنے غنڈوں کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بابری مسجد کی شہادت مسلمانوں کو ا ب بھی یاد ہے۔ یہ مذہبی دہشت گردی بھی بی جے پی کی کارستانی تھی۔ ریاست آسام میں ایک ہی دن میں پانچ ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا کانگریس نے کرایا تھا؟ کیا جنتا پارٹی وہ قتل عام بھول گئی۔ ریاست اترپردیش اور بہار میں بی جے پی اور سماج وادی پارٹی نے مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کی۔ واضح رہے کہ اترپردیش میں مسلمانوں کے قتل عام کا الزام جھوٹا نہیں۔

خود بھارتی میڈیا اور عدالتیں مسلمانوں کے کشت و خون میں بی جے پی کی رہ نما سنگیت سوم کو قصور وار قرار دے چکی ہیں۔ سب کو یاد ہے کہ پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے مسلمانوں کی اس قاتل کو ’’ہیرو‘‘ قرار دیا تھا۔ کانگریس کی حکومت لوک سبھا کے الوداعی اجلاس تک چار سال کے دوران انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن کئی بار کی کوشش میں بی جے پی ہی حائل رہی اور مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا یہ بل منظور نہ کیا جا سکا۔ 

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی تو ہر حکومت کے دور میں رہی ہے لیکن بی جے پی جب بھی برسر اقتدار آئی اس نے کشمیر میں جارحیت میں اضافہ کیا۔ انسانی حقو ق کی تنظیمیں آج بھی گواہ ہیں کہ وادی جنت نظیر میں گمنام قبریں اس دور میں بنیں جب مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور شری اٹل بہاری واجپائی جیسے امن دشمن لوگ مقتدر تھے۔

پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں سے یہ جعلی ہمدردیاں صرف بی جے پی کی جانب سے نہیں بلکہ دوسرے سیاست دان اور جماعتیں بھی مسلمانوں کے حقوق کی کھل کر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ہاں اس میدان میں اگر بھارت کے مسلمانوں کو کچھ امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں تو عام آدمی پارٹی سے ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ یہ نئی جماعت کم سے کم قومی خزانے کی لوٹ مار پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ 

رہی کانگریس تو اس نے 55 سال ہندوستان میں حکومت کی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے لوگ اس پارٹی میں رہے لیکن مسلمان اقلیت کے بارے میں جو طرز عمل جواہر لعل نہرو نے اختیار کیا تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔ کانگریس اگر اتنی ہی مسلم نواز ہوتی تو کشمیر میں سات لاکھ فوج کے ذریعے نہتے شہریوں کا قتل عام نہ کراتی اور بی جے پی جیسی انتہاپسند تنظیموں کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی شفاف تحقیقات کی جاتیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 359689
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش