0
Saturday 23 Aug 2014 02:35
احتجاجی دھرنوں کا انجام سوائے رسوائی کے کچھ نہیں

دہشتگردی کے حالیہ سانحات ڈی آئی خان کی انتظامیہ کیلئے ٹیسٹ کیس ہیں، علامہ رمضان توقیر

کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ہمارے حق میں مخلص نہیں
دہشتگردی کے حالیہ سانحات ڈی آئی خان کی انتظامیہ کیلئے ٹیسٹ کیس ہیں، علامہ رمضان توقیر
علامہ محمد رمضان توقیر ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں جو تعارف کی محتاج نہیں۔ شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر ہیں۔ خیبر پختونخوا (صوبہ سرحد) میں ایم ایم اے دور میں وزیراعلٰی کے خصوصی مشیر رہ چکے ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے ملت کے دکھوں کا مدوا کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ انکا کا تعلق شہداء کی سرزمین ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ اس وقت جامعۃ النجف، کوٹلی امام حسین (ع) اور دیگر مدارس میں انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ مختلف سیاسی و قومی امور پر اسلام ٹائمز سے ملاقات میں جو گفتگو انہوں نے فرمائی ہے، قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
 
اسلام ٹائمز: موجودہ سیاسی بحران کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے،؟ اس میں ملت تشیع کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر: سب سے پہلے تو آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس ایک، ڈیڑھ سال میں کونسے ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں کہ جس کی وجہ سے وزیراعظم سے استعفٰی طلب کیا جا رہا ہے۔ میری نظر میں جن مسائل کو بنیاد بنا کر یہ سیاسی بحران پیدا کیا گیا ہے، اور جو مطالبات مظاہرین کی جانب سے کئے جا رہے ہیں، وہ کمزور ہیں۔ جہاں تک دھرنوں میں ملت تشیع کے کردار یا جماعتوں کے کردار کی بات ہے تو میرے خیال میں دھرنا دینے والے اتنے قابل یا اہل نہیں ہیں کہ ان کو اتنی اہمیت دیکر ان کا ساتھ دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ دھرنوں کا کونسا ممکنہ انجام دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر: مجھے اس احتجاج اور دھرنوں کا انجام سوائے رسوائی کے اور کچھ نظر نہیں آرہا۔ میں یہ باتیں مسلم لیگ (ن) یا نواز شریف کی حمایت میں نہیں کر رہا، بلکہ بحیثیت پاکستانی ہونے کے میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ ایسی کونسی مشکلات آگئی ہیں کہ پہلا مطالبہ ہی یہی کیا گیا ہے کہ ایک منتخب پاکستانی وزیراعظم استعفٰی دے، کیوں۔؟ دھرنا دینے والے کہہ رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ جو باقی وزن دار سیاسی جماعتیں ہیں جن میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام، ایم کیو ایم اور دیگر شامل ہیں، وہ تو اس احتجاج اور کئے جانیوالے مطالبے کی اعلانیہ مخالفت کرچکے ہیں۔ اسمبلی میں ایک باقاعدہ قراداد پاس ہوچکی ہے۔ اس کے بعد کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ ایک دیوانہ آتا ہے اور آکر ادھر ادھر سے افراد کو اپنے ساتھ ملا کر مطالبہ کر دیتا ہے کہ وزیراعظم مستعفی ہوجائے۔ کیوں۔؟ کل کلاں کوئی اور بھی اس روایت کو دہرا سکتا ہے۔ فرض کریں کل خود عمران خان کی حکومت آجاتی ہے، یہ تو آج دس پندرہ ہزار افراد کو دھرنوں کیلئے ساتھ لائے ہیں، انتقام میں نواز شریف پچاس ہزار افراد کو ساتھ لیکر آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ استعفٰی دے۔ تو کیا اسے جائز سمجھا جائے گا۔؟ مجھے خورشید شاہ کی بات بہت اچھی لگی ہے کہ اگر سپریم کورٹ یہ تسلیم کرتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو پھر عدالتی فیصلے کے بعد استعفٰی کیلئے سوچا جاسکتا ہے۔ مجھے تو اپنے دوستوں پر حیرانگی ہے کہ انہیں کیا نظر آیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں ایم ڈبلیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک میں کونسے مشترکات ہیں جنکے باعث یہ ایکدوسرے کے قریب ہیں، اور آپ ان دونوں کے درمیان جاری تعاون کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر: مجھے دونوں کے درمیان سیاسی ناپختگی، میڈیا کوریج کا بھرپور اشتراک نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی مشترک چیز نہیں ملتی۔ کیا طاہر القادری نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسلامی نظام لیکر آؤنگا۔ طاہر القادری نے تو امریکہ و برطانیہ کے نظام کی مثالیں دیں ہیں، کیا ایم ڈبلیو ایم کا ہدف یہ نظام ہے۔؟ ایم ڈبلیو ایم تو انقلاب کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ وہ تو ولایت فقیہ کا نعرہ لگاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاک فوج کے ترجمان کیجانب سے جو بیانات سامنے آئے ہیں، عمومی خیال یہی پایا جاتا ہے کہ ان بیانات سے دھرنے دینے والوں کے پلڑے میں وزن زیادہ ہوا ہے، آپکی کیا رائے ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر: نہیں ان کے بیانات کا وزن احتجاج کرنیوالوں کے پلڑے میں بھی نہیں ہے اور موجودہ حکومت یعنی نواز شریف کو بھی سبق دیا جا رہا ہے۔ حامد میر والے واقعہ میں وزیراعظم نے بہتر کردار ادا نہیں کیا۔ مشرف کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ نواز شریف کو ایک سبق سکھایا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کی پشت پناہی کے حوالے سے نواز لیگ کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے، کیا آپ نہیں سمجھتے کہ انکے ہاتھ ملت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، پھر اس کیخلاف ہونیوالے احتجاج میں تشیع اپنا کردار کیوں ادا نہ کریں۔؟
علامہ رمضان توقیر: ملت تشیع کے دفاع، حقوق کے تناظر میں دیکھیں تو حقیقی بات یہ ہے کہ کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ہمارے حق میں مخلص نہیں ہے۔ کیا پیپلز پارٹی کا دور ملت کے مشکل نہیں تھا، کیا مشرف دور میں ہمارا خون نہیں بہایا گیا۔ ان ادوار کے ساتھ موازنہ کریں، ان ادوار میں ہمارا نقصان زیادہ ہوا ہے یا مسلم لیگ نواز کے دور میں زیادہ نقصان ہوا ہے۔ حالانکہ مشرف پر آپ شیعہ دشمنی کا الزام عائد نہیں کرسکتے۔ اسی طرح غلام حیدر وائیں کے دور میں خطرناک اور مشہور دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: نظام اسلامی کا نفاذ تمام اسلامی جماعتوں کی دیرینہ خواہش ہے، مگر طویل کوشش کے باوجود بھی موجودہ نظام میں رہتے ہوئے بارآور نہیں ہوئی، تو ایسے میں نظام کی تبدیلی کے لیے طاہرالقادری کا نعرہ کیا بہتر راستہ نہیں ہے، کہ جس سے نظام میں تبدیلی لائی جاسکے۔؟
علامہ رمضان توقیر: موجودہ نظام میں ہر چیز موجود ہے، آئین پاکستان میں ہر چیز موجود ہے۔ دستور پاکستان میں ہر شے موجود ہے۔ اگر وہ روٹ لیول تک منتقل نہیں ہو رہی تو اس میں حکمرانوں کی نااہلی اور غفلت کارفرما ہے۔ ایم ایم اے کے دور میں حسبہ بل کے نام سے ایک متفقہ بل پاس کیا گیا تھا جو تمام مسالک کا متفقہ بل تھا۔ اس بل پہ شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی سب خوش تھے۔ مختلف پلیٹ فارمز سے شریعت بل پاس ہوتے رہے، لیکن ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے جو شریعت بل پاس ہوا اسے بالکل اوپن کیا گیا تھا۔ اس میں تمام مسالک کے اسکالرز کو اوپن دعوت دی گئی تھی کہ یہ بل ہے اس پر کسی کو اعتراض ہے تو بتائے، چونکہ وہ وفاق کی جانب سے منظور نہیں ہوا، اس لیے اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ جب ہم پاور میں ہوں گے تو ان بلز پر ضرور عملدرآمد کرائیں گے۔

اسلام ٹائمز: ڈی آئی خان میں یکے بعد دیگرے کئی بے گناہ اہل تشیع کو شہید کیا جاچکا ہے، کیا یہ پرانی ٹارگٹ کلنگ کی نئی لہر ہے، اور اسکا مستقل حل کیا ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر: ہم نے پہلے بھی حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ جو دہشت گرد پہاڑوں میں چھپے ہوئے تھے، آپریشن کے نتیجے میں شہروں کا رخ کریں گے اور ظلم و بربریت کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں گے۔ اب ظاہر ہے وہ جہاں جائیں گے، کارروائیاں کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ انتظامیہ کی نااہلی ہے کہ معلوم ہونے کے باوجود ان کا گھیراؤ نہیں کیا گیا۔ وہ دہشتگرد یہاں موجود ہیں۔ ایجنسیوں کو بھی علم ہے۔ پولیس کو بھی علم ہے۔ اس حوالے سے ہم انتظامیہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ دہشت گردی کے حالیہ سانحات ڈی آئی خان کی انتظامیہ کے لیے ٹسٹ کیس ہیں، اگر انہوں نے قاتلوں کی گرفتاری سے سستی برتی تو جیسے پہلے ان کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں، دوبارہ بھی پیدا ہوجائیں گی۔

اسلام ٹائمز: آپ ملکی و صوبائی سطح کی شخصیت ہیں، لیکن جس شہر میں مستقل سکونت ہے، وہاں بھی ملت کے مسائل کے حل کیلئے کوئی لائحہ عمل نظر نہیں آتا،؟ کیا وجہ ہے۔؟ کیا قوم سست ہے یا آپ کی عدم دلچسپی ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر: ہم تو ہر حوالے سے ہرممکن کوشش کرتے ہیں، لیکن شروع سے ہی چند مسائل کا سامنا رہا ہے، جس میں ساتھیوں کا نہ ہونا، قوم کی حمایت کا نہ ہونا، شامل ہیں۔ ہماری دعا اور کوشش ہے کہ اللہ انہیں دوست دشمن کی تمیز دے۔ شہر کے حالات آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ کیا لوگوں کو دعوت نہیں دی، کیا ان تک پیغام نہیں پہنچایا۔ اس کے جواب میں جو صلہ ملتا ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت کیجانب سے، قائد کی جانب سے اکثر اوقات کہا گیا ہے کہ قومی دفاعی پالیسی کا اعلان کیا جائے گا، وضاحت فرمائیں۔؟
علامہ رمضان توقیر: قومی دفاعی پالیسی کا مقصد ضروری نہیں کہ بندوق اٹھانا ہو۔ تمام مسالک کے درمیان موجود رہ کر اپنا مسئلہ بیان کرنا، یہ بھی دفاع ہے۔ حالات واقعات کو سامنے رکھ کر قانون آئین کے دائرے میں رہ کر اپنا نقطہ نظر پیش کرنا۔ خدا کرے کہ ذمہ دران کے کانوں تک ہماری بات پہنچ جائے، ورنہ تنگ آمد، بجنگ آمد کے مصداق ہوگا۔ پاکستان کا آئین و قانون بھی ہمیں اجازت دیتا ہے کہ حفاظت کے لیے جنگ کرو۔ تعلیمات قرآن بھی ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ۔ تو ہمیں مجبور نہ کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 406181
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش