نوجوان اہلسنت عالم دین علامہ سید مبشر علی انجمن نوجوانان اسلام سندھ کے صدر ہیں اور آپ کا شمار سندھ اور خصوصاً کراچی کی فعال اہلسنت مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ انجمن نوجوانان اسلام کی مرکزی مشاورت کے بھی رکن ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ سید مبشر علی کے ساتھ مختلف موضوعات کے حوالے سے انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: طالبان اور انکی دہشتگردانہ کارروائیوں کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید مبشر علی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ یہ تمام باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تو اس وقت ایک طبقہ نے پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو کافر اعظم کہا، فضل الرحمان کے والد نے کہا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ہیں، طالبان اسی طبقے کے شاگرد ہیں، انہوں نے عالمی سطح پر پاکستان اور اسلام کو بدنام کیا، پاکستان میں جہاد کے نام پر شیعہ اور اکثریت بریلوی اہلسنت مسلمانوں کا قتل عام کیا، مزارات پر دھماکے کئے، ملک بھر میں دہشتگردی، انتہا پسندی، بربریت کا بازار گرم کیا، یہ دہشتگرد گروہ پاک فوج کے خلاف بات کرتا ہے، ہتھیار اٹھاتا ہے، حملے کرتا ہے، تو لازمی سی بات ہے انکے خلاف سخت کارروائی ہونا چاہئیے۔ کتنی
اسلام ٹائمز: طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والی جماعتوں کے حوالے سے کیا کہیں گے، جنکے قائدین طالبان کو اپنا بھائی اور بیٹا کہتے ہیں، جیسا کہ گذشتہ دنوں کراچی میں ایک جلسے کے دوران جماعت اسلامی کے سابق مرکزی امیر منور حسن نے بھی طالبان کو اپنا بھائی قرار دیا ہے۔؟
علامہ سید مبشر علی: مختصراً یہ کہنا چاہوں گا کہ جماعت اسلامی کی پالیسی بھی عجیب ہے جسے ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا، کبھی جماعت اسلامی مشرف کی وردی کو حرام کہتی ہے، اس کی شدید ترین مخالفت کرتی ہے، جبکہ ماضی میں وہ آمر جنرل ضیاء کی وردی کو حلال کہتی رہی ہے، رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان
اسلام ٹائمز: طالبان اور دیگر دہشتگرد عناصر کو کون کنٹرول کرسکتا ہے؟
علامہ سید مبشر علی: طالبان اور دیگر نام نہاد جہادی و عسکری قوتوں کو ماضی میں خفیہ ادارے سپورٹ کرتے رہے ہیں، اب انہیں خفیہ اداروں کو چایئیے کہ ان گدھوں کو کسی طرح لائن پر لائیں۔
اسلام ٹائمز: مسلمانوں پر کافر، مشرک، بدعتی کا الزام لگا کر انہیں نشانہ بنانے کی بات ہو یا پاک ایران تاریخی اور مثالی برادرانہ تعلقات کو خراب کرنے کی بات ہو، سعودی عرب کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، آپکی کیا نگاہ ہے اس حوالے سے۔؟
علامہ سید مبشر علی: دیکھیں جو بھی دہشتگرد پکڑا جاتا ہے وہ نہ تو امریکی ہوتا ہے نہ بھارتی، نہ برطانوی ہوتا ہے نہ نیپالی یا انڈونیشیائی، بلکہ پکڑا جانے وال کوئی حافظ ہوتا ہے، پکڑا جانے والا کوئی قاری ہوتا ہے، لہٰذا اس تناظر میں ہم یہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب سے پوچھا جائے کہ وہ پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کیلئے فنڈز کیوں دیتا ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو بعد میں کچھ کہیں، پہلے سعودی عرب سے پوچھا جائے، اس
اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں سعودی عرب نے حزب اللہ، حماس اور اخوان المسلمون کو دہشتگرد تنظیم قرار دیدیا ہے، اس حوالے آپکی کیا رائے ہے۔؟
علامہ سید مبشر علی: بیت المقدس کے امام اور دیگر مذہبی رہنماء بارہا کہہ چکے ہیں کہ سعودی مفتیوں نے کئی جگہوں پر کہا ہے کہ یہاں جہاد فرض ہے، وہاں جہاد فرض ہے مگر آج تک اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیا، بلکہ عالمی سامراجی قوتوں کو سعودی عرب لکھ کر دے چکا
اسلام ٹائمز: شام میں حضرت اویس قرنی (رض) اور حضرت عمار یاسر (رض) کے مزارات کو بشار الاسد حکومت مخالف باغیوں کے ہاتھوں شہید کئے جانے کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ اس سے قبل بھی شام میں دہشتگردوں نے صحابی رسول حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے مزار کو شہید اور انکے جسد اطہر کو نکال کر بے حرمتی کر چکے ہیں۔؟
علامہ سید مبشر علی: اسلام تو جنگ کے دوران کھیت کھلیانوں، درختوں تک تباہ کرنے سے روکتا ہے تو اسلام و جہاد کے نام پر اہلبیت (ع) اور صحابہ کرام (رض) کے مزارات کو کیسے نشانہ بنایا جاسکتا ہے، یہ مسلمانوں کا لبادے اوڑھ کر یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ، ابوجہل و ابوالہب کی نسل سے تعلق رکھنے والے اس قسم کی وحشیانہ کارروائیاں کرکے یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد نے جو مسلمانوں سے شکست کھائی تھی ہم اسکا بدلہ لے رہے ہیں۔ وہابی فرقہ نے اہلبیت (ع) بالخصوص اور اسکے بعد صحابہ کرام (رض) کے مزارات کو متنازعہ بنا کر انہیں ڈھایا ہے، مزارات کے مسمار کرنے کا سلسلہ سعودی عرب سے شروع ہوا ہے، انہوں نے ہی ان دہشتگردوں کو راہ دی ہے، اس لئے سعودی عرب پر انگلی اٹھ رہی ہے، اگر سعودی عرب اس میں ملوث نہیں ہے تو اسے چاہئیے کہ مزارات مسمار کرنے والے دہشتگردوں
اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب ایران سے خوفزدہ ہے، اور ایک طبقے کی اس رائے کے حوالے سے کیا کہیں گے کہ جو یہ کہتا ہے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کو بہتر بنانے میں پاکستان کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئیے۔؟
علامہ سید مبشر علی: دیکھیں سعودی عرب، سلطنت عثمانیہ کی قبر پر بنایا گیا ہے، مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ پر اسے قائم کیا گیا ہے، اب وہاں قرآن و حدیث کے بجائے سعودی بادشاہت کا نظام ہے کہ جو اس کی تعریف کرے گا وہ اسے نوازیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب ایران کے اسلامی انقلاب سے خوفزدہ ہے اور سمجھتا ہے کہ اس اسلامی انقلاب کی وجہ سے خود سعودی عرب میں بھی بغاوت ہوسکتی ہے، اسی لئے سعودی عرب نے صدام کو ایران کے خلاف استعمال کیا، مگر آج تک سعودی عرب عالمی استعمار اور عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن امریکہ کے خلاف کچھ نہیں بولا۔ سعودی عرب کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئیے، سوچنا چاہئیے اور ایران سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہئیے جبکہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہئیے، پاکستان کو قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا کہ جس طرح ماضی میں پاکستانی پالیسی ساز اداروں نے چین و امریکہ کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔