0
Thursday 30 Oct 2014 23:30

آصف زرداری نے مجھے کہا 2013ء کا الیکشن فکس میچ تھا، ملک عامر ڈوگر

آصف زرداری نے مجھے کہا 2013ء کا الیکشن فکس میچ تھا، ملک عامر ڈوگر
ملک محمد عامر ڈوگر کا تعلق ملتان کے معروف سیاسی گھرانے سے ہے، ڈوگر خاندان شروع سے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ رہا ہے، ملک عامر ڈوگر نے میٹرک گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول سے پاس کیا، جب اُن کے والد ملتان کے میئر تھے، ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج بوسن روڈ سے پاس کیا، گریجویشن کے بعد گیلانی لاء کالج سے ایل ایل بی کیا، اسلامیہ یونیورسٹی پہاولپور سے ایم اے پولیٹیکل سائنس کا امتحان پاس کیا۔ 1998ء میں کونسلر بنے، 2001ء میں نائب ناظم یونین کونسل منتخب ہوئے، 2005ء کے بلدیاتی الیکشن میں بلامقابلہ ناظم منتخب ہوئے، 2008ء میں صوبائی حلقہ پی پی 198 سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، 2012ء میں نمایاں کارکردگی کی بناء پر آپ کو سابق صدر آصف زرداری کی ہدایت پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کا سیکرٹری جنرل نامزد کیا گیا۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے کا الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے، جبکہ 2014ء میں منجھے ہوئے سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی کے استعفے کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی نشست پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا، ملکی سیاست میں اہمیت حاصل کرنے جانے والے حلقہ این اے 148 کے الیکشن میں کامیاب ہوگئے۔ ''اسلام ٹائمز ''نے نومنتخب رُکن قومی اسمبلی کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے، (ادارہ)

اسلام ٹائمز: 2013ء کے جنرل الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ہارنے کے بعد پارٹی کا کیا ردعمل تھا۔؟
ملک محمد عامر ڈوگر:
2013ء کے جنرل الیکشن کے بعد پنجاب بھر سے ہارنے والے قومی اور صوبائی ٹکٹ ہولڈرز کا اجلاس سابق صدر آصف علی زرداری کے زیرصدارت منعقد ہوا، اس اجلاس میں کچھ منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی شامل تھے، اس اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کی شکست کے اسباب کا جائزہ لینا تھا، اس کمیٹی کے سربراہ اعتزاز احسن مقرر کئے گئے، اجلاس کے بعد جب میری آصف علی زرداری سے بات ہوئی اور میں نے جنرل الیکشن میں دھاندلی کی شکایت کی تو اُنہوں نے کہا ڈوگر بیٹا 2013ء کا الیکشن فکس میچ تھا، تب میرے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور حیرت میں پڑ گیا۔ لیکن میں نے ہمت کی اور زرداری صاحب سے کہا کہ اس طرح تو پیپلزپارٹی کی پنجاب میں سیاست ختم ہوجائے گی۔ جس پر اُنہوں نے کہا کہ بیٹا سیاست مجھ سے سیکھو، مجھے سیاست سکھائو نہ۔ میں یہ سن کر خاموش ہوگیا، اس الیکشن کے نتیجے میں پیپلزپارٹی نے پنجاب کی قیمت پر سندھ میں حکومت بنائی، اور یہی وہ موقع تھا جب آصف علی زرداری نے بلاول ہائوس لاہور میں یہ نعرہ لگایا تھا ''قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔'' لیکن میں پھر بھی پیپلزپارٹی کے لئے کام کرتا رہا کیونکہ میری رگوں ملک صلاح الدین ڈوگر کا خون تھا، جنہوں نے پیپلزپارٹی کے لئے جیل کاٹی اور ایک طویل جدوجہد کی۔

اسلام ٹائمز: آپکا مخدوم شاہ محمود قریشی سے کب اور کیسے رابطہ ہوا۔؟
ملک محمد عامر ڈوگر:
مخدوم شاہ محمود قریشی سے ہمارا خاندانی اور احترام کا تعلق ہے، ویسے بھی ملتان کی روایت کے مطابق اختلافات اپنی جگہ لیکن ہم ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے رہتے ہیں، میں نے اُن کے ساتھ 2 سال بطور نائب ضلع ناظم بھی کیا تھا، اس لءے ہمارے درمیان اعتماد کا رشتہ بھی تھا اور جب بھی ملتان میں ملاقات ہوتی تو وہ بحیثیت وائس چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اپنی دل کی باتیں مجھ سے کیا کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کیونکہ مسلسل فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی اور میرے حلقہ کے عوام کو یہ بات پسند نہیں تھی، اس لئے میری پیپلزپارٹی سے راہیں جدا ہونا شروع ہوئیں، لیکن میں نے پورے سیاسی سفر میں احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور پیپلزپارٹی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، حالانکہ مجھ پر میڈیا کا شدید دبائو تھا۔

اسلام ٹائمز: حالیہ ضمنی الیکشن میں کن وجوہات کی بناء پر آپ نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔؟
ملک محمد عامر ڈوگر:
جب مخدوم جاوید ہاشمی، جن کا میں آج بھی اپنے والد کی طرح احترام کرتا ہوں، کیونکہ میرے بزرگوں کا ان سے گہرا تعلق تھا اور میرے والد ملک صلاح الدین ڈوگر ہاشمی صاحب کے ساتھ ایک سال جیل میں رہے، جب وہ قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوئے تو اُنہوں نے ملتان میں نجی محافل میں کہنا شروع کیا کہ ضمنی الیکشن میں پارلیمنٹ کی تمام جماعتیں، پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی میری حمایت کریں گی، انہی دنوں مجھے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ آصف علی زرداری بھی چاہتے ہیں کہ ضمنی الیکشن میں مخدوم جاوید ہاشمی کی حمایت کی جائے، کیونکہ اُنہوں نے جمہوریت کے لئے کافی قربانیاں دیں ہیں، لیکن یوسف رضا گیلانی نے زرداری صاحب سے کہا کہ حلقہ این اے 149 ڈوگر فیملی کا حلقہ ہے اور ملک عامر ڈوگر پاکستان پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے جنرل سیکرٹری ہیں، اُنہیں اعتماد میں لینا چاہیے۔ تب کراچی میں اجلاس بلاکر سٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا، مجھے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے فون کرکے کہا کہ مخدوم جاوید ہاشمی نے کیونکہ پارلیمنٹ کو بچایا ہے اسی لئے ہمارا (محمود خان اچکزئی، خواجہ سعد رفیق) فیصلہ ہے کہ اُن کی حمایت کرنی چاہیے، چنانچہ میں نے اپنے حلقہ احباب اور حلقہ کے لوگوں سے مشاورت کی تو اُنہوں نے کہا کہ آپ کو حلقہ خالی نہیں چھوڑنا چاہیے، ویسے بھی مخدوم جاوید ہاشمی کبھی بھی پاکستان پیپلزپارٹی کا حصہ نہیں رہے۔

قصہ مختصر ملتان میں سیلاب کے حوالے سے ہونے والے اجلاس، جس کی صدارت پاکستان پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم شہاب الدین کر رہے تھے، اس میں فیصلہ کیا گیا کہ پیپلزپارٹی کو این اے 149 سے الیکشن لڑنا چاہیے، لہذا بیرسٹر حیدر زمان قریشی، خواجہ رضوان عالم اور نوازش پیرزادہ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی، جس نے کراچی جا کر بلاول بھٹو زرداری کو یہ بتانے کا فیصلہ کیا کہ اگر ملتان میں مخدوم جاوید ہاشمی کی حمایت کی گئی تو پاکستان پیپلزپارٹی کو نقصان ہوگا، ہمیں تین دن کے بعد بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کا ٹائم ملا، کراچی کی میٹنگ میں میرے ساتھ بیرسٹر حیدر زمان قریشی، خواجہ رضوان عالم اور نوازش پیرزادہ تھے، اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے مجھ سے پوچھا کہ ڈوگر صاحب آپ نے این اے 149 کا ضمنی الیکشن لڑنا ہے۔؟ جب میں نے ہاں میں جواب دیا تو بلاول بھٹو نے کہا کہ کس ایجنڈے پر۔؟ میں نے کہا کہ ''گو نواز گو'' کے ایجنڈے پر۔ جس پر بلاول طیش میں آگئے اور کہا کہ آپ بابا (آصف علی زرداری) کی پارٹی کو بائی پاس کر رہے ہو، کیونکہ پیپلزپارٹی کی پالیسی گو نواز گو نہیں ہے، جس پر میں نے کہا کہ عوام سننا چاہتے ہیں گو نواز گو۔ مجھے اس اجلاس میں کوئی مثبت جواب نہ ملا، البتہ مجھے کہا گیا کہ بلاول بھٹو جب ملتان آئیں گے تو وہاں اعلان کریں گے، چنانچہ میں واپس آگیا اور ملتان میں بلاول بھٹو کے دورے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔

جب بلاول ملتان آئے تو پورا میڈیا گواہ ہے کہ میں ساتھ ساتھ تھا، لیکن گیلانی ہائوس میں خطاب کے دوران جب این اے 149 کے ٹکٹ کی بات نہ کی گئی تو میں واپس گھر لوٹ آیا، بلاول بھٹو کے دورے کے اختتام پر میں نے یوسف رضا گیلانی سے کہا کہ بلاول بھٹو نے این اے 149 سے میرا اعلان نہیں کیا، اس لئے مجھے آزاد الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے، میں نے اپنے احباب اور حلقے کی عوام سے مشاورت کرکے اُسی رات این اے 149 کے ضمنی الیکشن میں آزاد حیثیت سے لڑنے فیصلہ کیا اور مخدوم شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا۔ جس کے بعد یوسف رضا گیلانی سے میری اُنکی رہائش گاہ پر ون ٹو ون ملاقات ہوئی جو کہ ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی، اس دوران میں نے اُنہیں این اے 149 کی مکمل صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا کہ آپ مہربانی کریں، میری فیملی نے اس حلقے سے پانچ الیکشن لڑے ہیں، اب مجھے آزاد الیکشن لڑنے کی اجازت دیں، مگر اُنہوں نے کہا کہ میں مجبور ہوں، دو دن بعد دوبارہ گیلانی صاحب کا فون آیا اور اُنہوں نے کہا کہ آپ کا ٹکٹ آگیا ہے، تب بہت دیر ہوچکی تھی کیونکہ میرے حلقے کے لوگ ''گو نواز گو'' کے نعرے پر الیکشن لڑنا چاہتے تھے، میں نے گیلانی صاحب سے کہا کہ آپ میرے لئے انتہائی احترام کے قابل ہیں، لیکن میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑوں گا، چنانچہ اُس روز سے میری اور پیپلزپارٹی کی راہیں جدا ہوگئیں۔

اسلام ٹائمز: آپ تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں، لیکن اسمبلی میں کس حیثیت سے بیٹھیں گے۔؟
ملک محمد عامر ڈوگر:
میں نے کیونکہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا ہے، اس لئے میں قومی اسمبلی میں آزاد حیثیت سے بیٹھوں گا اور مستقبل کی سیاست میں عمران خان کے ایک کارکن کی حیثیت سے کام کروں گا۔

اسلام ٹائمز: اتنا اہم الیکشن جیتنے کے بعد اسمبلی میں آپ کا ایجنڈا کیا ہوگا۔؟
ملک محمد عامر ڈوگر:
میرا پہلا ایجنڈا ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے عوام کا مقدمہ اسمبلی میں پیش کرنا ہوگا، کیونکہ جنوبی پنجاب آج بھی بے پناہ مسائل کا شکار ہے، یہاں کے لوگوں کو لاہور جاکر دھکے کھانے پڑتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کا مطالبہ سرائیکی صوبے کا قیام ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے بے پناہ جدوجہد کی اور اُس کی یہ سزا ملی کہ اُنہیں گھر بھیج دیا گیا، لیکن سرائیکی صوبے کے حوالے سے سابق صدر آصف علی زرداری کے قول و فعل میں تضاد رہا، یہاں تک کہ اُنہوں نے سرائیکی بینک کے قیام کا وعدہ بھی پورا نہ کیا، جس کی سزا 2013ء کے جنرل الیکشن میں ملی اور ہم الیکشن ہار گئے، میں انشاء اللہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں سرائیکی صوبے کے قیام اور ملتان سمیت اپنے حلقے کے عوام کی محرومیاں کا مقدمہ پیش کروں گا، کیونکہ ماضی میں میرے حلقے کو نظرانداز کیا گیا ہے، خدمت خلق میرا مشن ہے اور ڈوگر ہائوس کے دروازے حسب روایت عوام کے لئے کھلے رہیں گے، سیاست کے ساتھ ساتھ میرا مشن سماجی خدمت انجام دینا ہے اور انشاءاللہ کوشش کروں گا کہ اپنے حلقے کے عوام کی اُمنگوں پر اُتروں۔
خبر کا کوڈ : 417332
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش