1
0
Monday 27 Oct 2014 17:46

محرم الحرام معیشت میں ترقی کا اہم سبب

محرم الحرام معیشت میں ترقی کا اہم سبب
تحریر: شبیر احمد شگری

اللہ کا ذکر زنگ آلود دلوں کی صفائی کے لئے آب رحمت ہے، ذکرِ اللہ بے چین دلوں کا چین ہے، جس طرح کسی مسافر کو اپنے وطن میں آکر سکون حاصل ہوتا ہے، اسی طرح اللہ کے ذکر سے دل و روح کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر مصیبت و تکلیف میں رب کو یاد کرنے کا حکم ہے۔ بعض روایتوں کے مطابق افضل ذکر ’’تسبیح فاطمہ ؑ ‘‘ اللہ اکبر، الحمدللہ اور سبحان اللہ ہے، جو کہ جگر گوشہ رسول ؑ ، زوجہ حضرت علی ؑ ، مادرِ امام حسن ؑ و امام حسین ؑ سے منسوب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی محبوب ترین ہستی حضرت محمد ؐ اور ان کی آل پاک کا ذکر بھی نہ صرف اللہ تعالٰی کی خوشنودی کا سبب ہے بلکہ ہماری روح کی غذا، اندھیروں میں روشنی ہے بلکہ ہمارے اعمال خیر اور رزق میں اضافے کے علاوہ آخرت میں نجات کا بھی ضامن ہے۔ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی ذکر و محافل کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ کثرت سے لوگ اللہ کی محبوب ترین ہستیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی یاد محرم کے مہینے کے شروع ہوتے ہی تجدید عہد کے ساتھ دوبارہ تازہ کر لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ یاد ان کے دلوں میں سدا زندہ رہتی ہے۔ جسے وہ پورا سال فراموش نہیں کرسکتے۔ حتیٰ کہ گور کے دامن میں جا سوتے ہیں لیکن اس زندہ یاد، محبت، ذکر اور توشہ کے ساتھ محشور کئے جائیں گے۔ جہاں انھیں اس ذکر کا اصل صلہ ملنے والا ہے۔

عام سوچ کے برعکس یہ ذکر اور مجالس کی محفلیں صرف چند افراد سے تعلق نہیں رکھتی ہیں بلکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کا تعلق پورے معاشرے پورے ملک سے ہے، جو کہ معیشت پر ایک بہت گہرا اثر بھی رکھتی ہیں اور اس کی ترقی میں ایک اہم کردار صدیوں سے ادا کر رہی ہیں۔ کم از کم اعداد و شمار کے مطابق جو میں آگے بیان کروں گا، اس ملک کے بجٹ کا ایک چوتھائی حصہ محرم الحرام کا مرہون منت ہے۔ کسی بھی موقع پر جب کاروبار بند ہوتا ہے تو ملک کی معیشت کو شدید دھچکا لگتا ہے، لیکن محرم الحرام کے دوران جب کاروبار بند رہتا ہے تو معجزانہ طور پر معیشت چلتی رہتی ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہوتا ہے۔ آیئے ہم محرم الحرام میں ہونے والے اخراجات پر نظر ڈالتے ہیں، یاد رہے کہ ان اعداد و شمار میں کم سے کم اندازہ شمار کیا گیا ہے اور حقیقت میں محرم الحرام میں ہونے والے اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں، جس کے اندازے کی کوئی حد نہیں۔

تبرکات کے لئے ملک میں اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، کچھ افراد تعزیوں پر سالانہ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، تعزیہ سازی ایک بہت بڑی صنعت ہے۔ دنیا میں بہت سی اقسام کے اور چھوٹے بڑے تعزیے خوبصورت شکلوں میں تیار کئے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں تقریباً 2 لاکھ تعزیے تیار کئے جاتے ہیں۔ جن کی قیمت کئی ہزار سے لے کر لاکھوں روپے تک ہوتی ہے۔ اور اگر ہم ایک تعزیے کی قیمت کم از کم 5000 روپے بھی فرض کر لیں تو ایک ارب سے زائد رقم صرف تعزیہ سازی کی صنعت سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ جو کہ نہ صرف ان کے بنانے والوں بلکہ اس سے واسطہ رکھنے والے دیگر افراد کی آمدنی اور رزق میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے۔ عاشور کے دن نیاز اور متعدد قسم کے شربت تیار کئے جاتے ہیں۔ اگر ملک کی 50% آبادی کو نکال کر باقی 50% افراد میں پانچ افراد فی خاندان، انفرادی نیاز کے اندازے کے لئے فی گھر صرف 300 روپے کے حساب سے کیا جائے تو ساڑھے پانچ ارب روپے صرف
عاشورہ کے دن انفرادی نیاز کی مد میں خرچ کئے جاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق محرم اور چالیسویں کے لئے امام بارگاہوں، مزاروں، محلوں، گلیوں اور دیگر مقامات پر حلیم کی دیگیں بنائی جاتی ہیں۔ اکثر مقامات پر یہ دیگیں 100 تک کی تعداد میں بھی ہوتی ہیں۔ اگر ان دیگوں کی مالیت کے اندازے کے لئے ملک کی 50% آبادی نکال کر باقی کی آبادی کے فی گھر پانچ افراد کی تعداد لی جائے تو یہ ایک کروڑ اسی لاکھ فیملیز نکلیں گی۔ ان فیملیز میں سے صرف 10 فیملیز کے ہاں صرف ایک دیگ کی حلیم بننے کا بھی حساب رکھ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں 10 ارب روپے کی تو صرف حلیم تیار کی جاتی ہے۔ پاکستان کی آبادی کے 12% محفوظ آبادی کی جانب دیکھا جائے، جن کی جانب سے مجالس کے سلسلے کثرت سے جاری رہتے ہیں۔ 12% آبادی جو تقریباً دو کروڑ بنتی ہے تو اگر پانچ افراد فی گھر کے حساب سے اندازہ لگایا جائے تو 40 لاکھ خاندان بنیں گے اور 40 لاکھ خاندان ایسے ہیں جو اپنے گھروں میں کم از کم ایک مجلس کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔

اگر خواتین کی صرف ایک بڑی مجلس کا اندازہ صرف 25000 روپے بھی لگایا جائے تو ان چالیس لاکھ خاندانوں کی جانب سے مجالس پر کیا جانے والا کل خرچہ 100 ارب روپے بنے گا۔ امام بارگاہوں کی تزئین، اور ان میں سونے چاندی کے استعمال، مجالس کے لئے لائیٹنگ اور قناعتوں کے اخراجات، مجالس کے لئے اشتہارات اور بینرز کے اخراجات، سبیلوں کے اخراجات، یکم سے دس محرم تک شربت اور دودھ کی سبیلوں کے اخراجات، سیاہ لباس کی خرید اور سلائی کے اخراجات اور مجالس میں آنے اور جانے کے لئے پٹرول اور سی این جی کے اخراجات کسی صورت کم از کم دسیوں ارب روپے ہی ہوں گے۔ لیکن اگر اسے 10 ارب روپے فرض کرکے بھی دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ محرم کے دوران 126 ارب روپے کی پیداوار ہوتی ہے۔ تو گویا محرم الحرام میں 126 ارب روپے کے اخراجات مجموعی قومی شرح نمو کا کم از کم ایک چوتھائی حصہ ہے۔ یہ اعداد و شمار تو صرف پاکستان کے لئے ہیں اور کم سے کم رکھے گئے ہیں جبکہ اصل اخراجات تو اس اندازے سے کئی گنا زیادہ ہوں گے، جن کا حساب کرنا بھی مشکل ہوگا۔ درحقیقت یہ ساری دنیا محمد ؐ و آلِ ؑ محمد ؐکے صدقے میں ہی کھا اور پی رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 416739
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اس کے باوجود لوگ نیاز پر ایسے ٹوٹتے ہیں جیسے زندگی میں پہلی مرتبہ یا آخری مرتبہ مل رہی ہو؟؟؟
دوسرے آپ نے ذاکرین کا اوسطاً پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپیہ فی مجلس کا حساب نہیں لگایا۔ اگر اسکا حساب بھی لگا لیا جاتا تو فِگر کئی ہزار ارب تک پہنچ جائے۔
ہماری پیشکش