0
Friday 28 Sep 2012 17:01

توہین رسالت (ص) اور آزادی اظہار

توہین رسالت (ص) اور آزادی اظہار

تحریر: جاوید عباس رضوی

حضرت رسول اکرم (ص) کے بارے میں امریکی و اسرائیلی توہین آمیز فلم، جس نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کرکے عالم اسلام کو شدید غم و غصہ میں مبتلا کر دیا ہے، فلم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس میں سرور کائنات (ص) کو دہشت گرد، بے رحم، شہوت پسند شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے، تاکہ دنیا کو سمجھایا جاسکے کہ دہشت گردی، بے رحمی اور شہوت رانی پیامبر اسلام (ص) کی میراث ہے، جو مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے۔

ایسا پروپیگنڈا اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ یورپ میں اسلام کی طرف بڑھتا ہوا رجحان اور مشرق وسطیٰ میں خاص کر اسلامی بیداری کو ختم کیا جاسکے، امریکی عوام کو مذہب اسلام میں داخل ہو کر ان کو مسلمان بننے سے روکنے کیلئے امریکی حکمران عیسائیت کے مفاد میں مسلمانوں کے امریکہ مخالف جذبات بھڑکا کر ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، اور اس فلم کی عکاسی مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے، البتہ متعصب یہودیوں کی طرف سے ایسی کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ لوگ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں بھی انہیں کو ساہر، کاھن اور دیوانہ کہہ کر آپ (ص) کی عظیم شخصیت کو خدشہ دار کرنے کے درپے تھے، لیکن یہ لوگ اس وقت بھی ناکام رہے اور اللہ تعالٰی کے فضل سے آج بھی ناکام ہونگے۔

توہین رسالت (ص) کے ردعمل میں پوری دنیا میں احتجاج اور مظاہرے ہوئے، اس میں جو اہم بات قابل غور ہے وہ یہ کہ مسلمان بیدار ہیں، اور اپنے اصلی دشمن یعنی امریکہ و اسرائیل کو اچھی طرح پہچانتے ہیں، اور دشمن کے مکر و فریب کے باوجود ان کے مقاصد سے آگاہ ہیں، البتہ ہمیں کچھ اسلامی و عرب ممالک پر مسلط غدار اور ڈکٹیٹر حکمرانوں سے غرض نہیں ہے کہ جو اپنے عوام کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں، اور انہیں بنیادی ترین حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔

امریکی حکومت سے جب پوچھا گیا کہ آپ اس فلم پر پابندی کیوں نہیں لگاتے؟ یا مجرم کو سزاء کیوں نہیں دیتے؟ تو کافی بے شرمی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم آزادی بیان و اظہار (Right to Expression) پر پابندی نہیں لگا سکتے، بلکہ یہاں ہر ایک کو اپنی بات کہنے کا حق ہے، ہمارا سوال امریکی حکمرانوں سے یہ ہے کہ ٹھیک اگر آپ اپنے قول میں سچے ہو کہ ہم آزادی بیان کے حامی ہیں، تو پھر آپ کے ملک امریکہ میں ہولو کاسٹ کے واقعہ پر کسی کو بات کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی، کیوں اس نقلی داستان کے بارے میں ریسرچ نہیں ہونے دیتے، کیوں اپنے ہی ملک کے اہل قلم کو قید و بند سے دوچار کرتے ہو، اگر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے چند سال قبل اس مبینہ واقعہ کی تحقیق کرنے کا مطالبہ کیا تھا تو آپ کیوں آگ بگولا ہوگئے تھے۔
 
اگر امریکہ آزادی بیان کا سچے دل سے حامی ہے تو کیوں امریکہ میں موجود ہم جنس پرستی پر قلم اٹھانا جرم بن گیا ہے، کیوں اس غیر فطرتی عمل پر کسی کو اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہوتی، آخر کیوں یہ دہرا معیار امریکہ میں پایا جاتا ہے، در اصل آزادی اظہار، جمہوریت، آزادی، ہیومن رائٹس ایسے الفاظ ہیں کہ اسلام دشمن مغربی طاقتیں ہمیشہ ان الفاظ کا استحصال کرتی آئی ہیں، حقیقی آزادی بیان و اظہار نیک شے ہے، آزادی اظہار الگ چیز ہے جو استعماری و استکباری طاقتوں کی سمجھ سے بالا تر ہے، اور مقدس ہستیوں کی توہین بالکل الگ معاملہ ہے۔
 
اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب، مخالف مذہب کی شخصیات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی کوئی مذہب ایسی شرمناک حرکات کو آزادی اظہار تسلیم کرتا ہے، یہ انسانی حقوق اور آزادی کا اظہار نہیں بلکہ عالمی انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے، پیغمبر اسلام (ص) کی ذات میں ایسی گستاخی ناقابل معافی اور سنگین جرم ہے۔ آج توہین رسالت (ص) ہوئی تو آزادی بیان کا پردہ اس پر رکھا گیا، عراق و افغانستان پر فوجی قبضہ کیا گیا تو جمہوریت کے بہانے، جمہوری اسلامی ایران پر ہر طرف سے دباو ڈالا گیا تو انسانی حقوق کے دفاع کے بہانے۔
 
حالانکہ ان دس برسوں میں ہر ایک پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ اور دیگر استعماری طاقتوں کو انسانوں کی عزت و احترام سے کوئی واسطہ ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ طاقتیں ہمیشہ ان خوبصورت فریبندہ الفاظ و عنوانات کے سائے میں اپنی غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکات جاری رکھے ہوئے ہیں، البتہ یاد رکھیں کہ ان کی دشمنانہ حرکتوں سے دین اسلام کی عظمت اور محبوبیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، بلکہ الہیٰ وعدے کے مطابق آخرکار سارے عالم پر دین اسلام کا ہی غلبہ ہوگا۔ (توبہ، آیت۔32)

خبر کا کوڈ : 199218
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش