0
Wednesday 26 Mar 2014 01:34

سرکاری اداروں کی ہمدردیاں شہداء کے خانوادوں کی بجائے قاتلوں کیساتھ ہیں، زاہد علی جعفری

سرکاری اداروں کی ہمدردیاں شہداء کے خانوادوں کی بجائے قاتلوں کیساتھ ہیں، زاہد علی جعفری
علامہ زاہد علی جعفری ڈیرہ اسماعیل خان میں مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا تعلق کچی کاٹھگڑھ کے ایک دینی گھرانے سے ہے۔ ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ ماڑی انڈس میں حاصل کرنے کے بعد ایران چلے گئے، وہاں مدرسہ قم المقدسہ میں فیض حاصل کرتے رہے۔ جس وقت ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا عفریت ہر گلی، کوچے اور بازار میں ملت تشیع کے جوانوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہا تھا، اس وقت علامہ زاہد علی جعفری نے ڈیرہ اسماعیل خان میں قیام کیا اور انتہائی مصائب و آلام سے بھرے دور میں ملت کو منظم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب ڈی آئی خان میں چہار سو خوف کی فضا قائم تھی تو مذہبی ذمہ داریوں کی انجام دہی کسی چیلنج سے کم نہیں تھی، مگر علامہ زاہد علی جعفری نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق نہایت پرخلوص خدمات سرانجام دیں۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کے خلاف جب ملک بھر میں دھرنوں کا سلسلہ جاری تھا تو ڈی آئی خان میں کالعدم تنظیموں کے دہشت گرد اس گمان میں تھے کہ دہشت گردی کے خوف سے شائد یہاں دھرنے دینے کے لیے اہل تشیع گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے، مگر ملت کے چند مخلص سپوتوں کی مسلسل کوششوں سے خوف و ہراس کی اس فضاء کا نہ صرف خاتمہ ہوا بلکہ عوام کا جوش و جذبہ پہلے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ ان مخلص افراد میں ایک نام علامہ سید زاہد علی جعفری کا بھی ہے۔ علامہ زاہد علی جعفری ایران سے شائع ہونیوالے فاطمیہ میگزین سے بھی منسلک رہے ہیں اور ان کو آیت اللہ مصباح، آقای مہدویان سے بھی فیض حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ علامہ زاہد علی جعفری کو اسی کمرے میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، جہاں امام خمینی تشریف فرما ہوتے تھے۔ اسلام ٹائمز نے ڈی آئی خان میں ایم ڈبلیو ایم کی خدمات، لائحہ عمل اور حائل مسائل کے حوالے سے ان سے گفتگو کی ہے، جو قارئین کے لیے حاضر خدمت ہے۔ 

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا چرچا ہے، مجلس وحدت مسلمین انتخابات میں حصہ لینے کا ایک تجربہ پہلے بھی کرچکی ہے، جسے لوگ کامیاب قرار نہیں دیتے، اب کیا لائحہ عمل اختیار کیا جا رہا ہے۔؟
علامہ زاہد علی جعفری: خیبر پختونخوا میں اہل تشیع کو نشانہ بنانے کی جہاں دیگر بہت سی وجوہات ہیں، وہاں ایک بڑی وجہ سیاسی میدان کو خالی چھوڑنا بھی ہے۔ پورے خیبر پختونخوا کا جائزہ لینے کے بجائے صرف ڈی آئی خان کی حد تک بھی دیکھ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ سٹی اور مضافاتی علاقوں میں اہل تشیع کا لہو پانی کی طرح بہایا گیا ہے۔ جس میں سرکاری اداروں کی ہمدردیاں بھی قاتلوں کے ساتھ رہی ہیں نہ کہ شہداء کیساتھ۔ لیکن اگر بلوٹ، پہاڑ پور سائیڈ کے علاقوں میں دیکھیں تو وہاں فرقہ واریت، ٹارگٹ کلنگ یا دہشتگردی نظر نہیں آتی۔ وجہ فقط اتنی ہے کہ وہاں مخدوم برادری سیاسی طور پر مضبوط تھی، انہوں نے شرپسند عناصر کو ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر ڈیرہ سٹی میں بھی اہل تشیع اپنا سیاسی وزن بڑھاتے اور ایک نمائندہ بھی قومی یا صوبائی اسمبلی تک لانے میں کامیاب ہوجاتے تو نہ ہی انتظامیہ بے حسی کا مظاہرہ کرتی اور نہ ہی اہل تشیع کی املاک کے خلاف قانون سازی ہوتی۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ سیاسی سیٹ اپ میں نہیں آنا چاہیے، یہ علماء ملت کے دوست نہیں ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایم ڈبلیو ایم کا انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ غلط تھا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینے کا ہمارا گذشتہ فیصلہ بھی درست تھا اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا موجودہ فیصلہ بھی درست ہے۔ ڈیرہ سٹی میں اہل تشیع کا 26 ہزار ووٹ ہے۔ اگر یہ ووٹ کسی بھی امیدوار کو ملے تو اس کی جیت یقینی ہے۔ مولانا برادران نے ہمارے چند علماء سے روابط استوار کئے ہوئے ہیں، جن کی بدولت ملت کا انتہائی قیمتی ووٹ عرصہ دراز سے ضائع ہو رہا ہے۔ ہم بلدیاتی انتخابات میں اپنا ناظم لانے میں اگر کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ کسی جماعت یا کسی فرد واحد کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا بلکہ پورے ڈی آئی خان کے اہل تشیع کیلئے انتہائی سود مند ہوگا۔ عوام سے اپیل ہے کہ خدارا حالات کو سمجھیں اور تدبر پر مبنی فیصلے کریں۔

اسلام ٹائمز: ڈیرہ جیل جیسے واقعات شہر میں رونما ہوئے، جس میں دہشتگردوں نے اپنا شو آف پاور کیا، اس میں بھی اہل تشیع کی شہادتیں ہوئیں، ایسے شہر میں آپ عوام کو کیسے احساس تحفظ فراہم کرکے انہیں سیاسی میدان میں کودنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔؟
علامہ زاہد علی جعفری: ڈیرہ جیل کا سانحہ ایسے وقت میں پیش آیا، جب طالبان کی طاقت بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی تھی۔ مرکزی و صوبائی حکومت اس میں براہ راست ملوث تھی۔ شہر میں ان سیاسی جماعتوں کی ایماء پر پولیس افسران کا تقرر کیا جاتا ہے، جو طالبان کی نمائندہ جماعتوں کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ڈی پی او سے لیکر نچلی سطح تک افسران کی تقرریوں میں مولانا برادران کی ایماء شامل ہوتی ہے۔ سیاسی افسران سے اس سے زیادہ کیا امید کی جاسکتی ہے۔ ڈیرہ جیل کے سانحہ کے علاوہ دیگر سانحات پر بھی نظر دوڑایں تو اس میں بھی انتظامیہ اہل تشیع کی مخالف فریق اور دہشت گردوں کی پشت پناہ نظر آتی ہے، لیکن دوسری طرف آپ اہل تشیع کی استقامت اور ثابت قدمی کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اتنے سانحات کے باوجود جب ایم ڈبلیو ایم نے کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات کے خلاف دھرنوں کی کال دی تو عوام نے بھرپور شرکت کی۔ فوارہ چوک پر، کوٹلی امام حسین (ع) کے سامنے دھرنوں میں ملت نے بھرپور شرکت کی۔ کیا خراب حالات میں ایم ڈبلیو ایم کی کال پر ان کا سڑکوں پر نکلنا مجلس وحدت مسلمین پر اعتماد کا مظہر نہیں ہے۔ اگر چند علماء ملت سے مخلص ہوکر حقیقی معنوں میں تدبر پر مبنی فیصلے کریں اور ساتھ دیں تو کوئی شک نہیں ملت تشیع اپنے امیدوار اسمبلیوں تک پہنچا سکتی ہے اور انشاءاللہ ایم ڈبلیو ایم ایسا کرکے دکھائے گی۔ ایک وقت وہ تھا کہ اہل تشیع خاندان یہاں سے نقل مکانی پر مجبور تھے، آج وہی خاندان واپس آرہے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: آپ نے ضلعی انتظامیہ خصوصاً پولیس پر کڑے سوالات اٹھائے ہیں، اگر آپ کے پاس اتنی تفصیلی معلومات موجود ہیں تو پھر آپ نے قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی۔؟
علامہ زاہد علی جعفری: آپ کو یاد ہوگا کہ اسی شہر میں نو اور دس محرم کو جلوس عزا میں دو دھماکے ہوئے تھے۔ پہلے دھماکے کے بعد شہر کا کنٹرول فوج کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا، لیکن اس اعلان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس کے بعد دس محرم کو غفوری نامی ڈی ایس پی جو مرکزی جلوس میں سکیورٹی کا ذمہ دار تھا، اسے اہل تشیع نے اپنے خدشات سے بھی آگاہ کیا۔ بعد میں گرفتار ہونیوالے مجرموں میں پولیس کے اعلٰی افسران کے بچے بھی شامل تھے۔ ہونیوالی تحقیقات میں پولیس براہ راست اس سانحہ میں ملوث نکلی۔ جس وقت یہ سانحات ہوئے، اس وقت اس شہر میں ایم ڈبلیو ایم کا باقاعدہ سیٹ اپ قائم نہیں کیا گیا تھا، اگر اس وقت سیٹ اپ قائم ہوتا تو ضرور ان پولیس افسران کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی، جو ان سانحات میں ملوث تھے۔ 

اسلام ٹائمز: چلیں مان لیا کہ یہ سانحات اس وقت پیش آئے جب ایم ڈبلیو ایم کا سیٹ اپ قائم نہیں ہوا تھا، اب تو سیٹ اپ قائم ہے، لیکن اس سیٹ اپ کی موجودگی میں خیبر پختونخوا میں واحد وقف امام حسین (ع) زمین کوٹلی امام حسین (ع) کو پی ٹی آئی حکومت نے اپنی ملکیت میں لے لیا ہے، لیکن تاحال ایم ڈبلیو ایم نے کوئی ایکشن نہیں لیا، کیوں۔؟
علامہ زاہد علی جعفری: کوٹلی امام حسین (ع) کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کسی صورت میں خاموش نہیں رہے گی اور نہ ہی صوبائی حکومت کو اس مذموم سازش میں کامیاب ہونے دے گی۔ کوٹلی امام حسین (ع) جس طرح بنام وقف امام حسین (ع) تھی، اسی طرح رہے گی۔ چاہے اس کے لیے مجلس وحدت مسلمین کو عوامی احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پڑے یا قانون کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے۔ یہاں میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، لیکن کوٹلی کی انتہائی قیمتی زمین میں سب سے زیادہ مولانا برادران دلچسپی رکھتے ہیں۔ سب سے پہلا فرض تو ان کا تھا جو کوٹلی کی سرزمین پر مدرسہ بنائے ہوئے ہیں۔ علامہ رمضان توقیر صاحب اگر دلچسپی لیتے تو کوٹلی کی زمین کا ایک انچ بھی کہیں نہیں جاسکتا تھا۔ 

اسلام ٹائمز: کچھ عرصہ قبل پیغام مصطفٰی کانفرنس کے انعقاد کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی، ملت کا مورال بلند کرنے کے لیے کیا ایم ڈبلیو ایم کسی کانفرنس کے انعقاد کا ارادہ رکھتی ہے۔؟
علامہ زاہد علی جعفری: پیغام مصطفٰی کانفرنس میں ان جماعتوں کے رہنماؤں کی شرکت کا اعلان کیا گیا تھا جو جماعتیں طالبان کی نمائندہ جماعتوں کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ڈی آئی خان کے اہل تشیع دہشت گردی سے ستائے ہوئے ہیں، کیا اب بھی آپ ان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان جماعتوں کو گوارا کریں گے، جو دہشت گردوں کے پشت پناہ ہیں۔ میرے خیال میں شیعہ علماء کونسل پر بھی یہ واضح تھا کہ عوام اس کانفرنس کو مسترد کریں گے۔ اگر شیعہ علماء کونسل چند دن قبل صورتحال کا اعادہ کرکے اس کانفرنس کی منسوخی کا اعلان کر دیتی تو وہ زیادہ بہتر تھا۔ ایک بڑی کانفرنس کا پریس کانفرنس میں بدل جانا کوئی بہتر اقدام نہیں تھا۔ ایم ڈبلیو ایم ڈیرہ اسماعیل خان میں بہت جلد ایک بڑے پروگرام کا انعقاد کرے گی، جس میں مرکزی قائدین بھی شریک ہونگے اور عوام اس کانفرنس میں شرکت سے اپنے اعتماد کا ثبوت بھی دیں گے۔

اسلام ٹائمز: بلدیاتی انتخابات کے لیے سہ جماعتی اتحاد وجود میں آچکا ہے، اسکی موجودگی میں ایم ڈبلیو ایم کیسے انتخابات میں حصہ لے گی۔؟
علامہ زاہد علی جعفری: ہم جانتے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پر مشتمل سہ جماعتی اتحاد وجود میں آچکا ہے۔ ہمارا مقصد انتخابات میں حصہ لینا نہیں بلکہ ملت کا مفاد مقصود ہے۔ اگر سہ جماعتی اتحاد نے رابطہ کیا تو ہم اپنے خدشات، تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے مشاورت سے فیصلے کریں گے۔ جہاں ملت کے مفاد میں انتخاب میں حصہ لینا ضروری ہوا وہاں الیکشن لڑیں گے۔ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مشاورت سے انتخابات میں حصہ لینے کی حکمت عملی اپنائیں گے۔ اس حوالے سے مستقبل قریب میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔
خبر کا کوڈ : 365817
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش