0
Friday 26 Sep 2014 11:01

القاعدہ اور طالبان کے بعد داعش، امریکہ کا نیا کھیل

القاعدہ اور طالبان کے بعد داعش، امریکہ کا نیا کھیل
تحریر: تصور حسین شہزاد

اسلامی دنیا کیخلاف برسرپیکار امریکی سامراج نے نیا پینترہ بدلا ہے۔ القاعدہ اور طالبان کے بعد اب اس نے دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش یا آئی ایس آئی ایس) کو حریف مان کر اس کیخلاف دنیا کو ایک نئی جنگ کے لئے تیار کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما نے کہا کہ مسلم ممالک کو دہشت گرد تنظیموں کی سوچ مسترد کرنا ہوگی۔ یہ بات کہتے ہوئے امریکی صدر بھول گئے کہ اسلامی ریاستوں میں دہشت گردی کرنے والی ساری جہادی تنظیمیں جنہیں اوباما اور اس کے پیش رو جارج ڈبلیو بش جونیئر دہشت گرد قرار دیتے ہیں، سب کی سب خود انہیں یورپی و امریکی سامراج کی کوکھ سے پیدا ہوئی تھیں، جنہوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے تحت اسلامی ممالک میں تیل، گیس و دیگر قیمتی معدنیات کے ذخائر ہتھیانے اور ان پر قبضہ کرنے کے لئے شوریدہ سر عناصر کو اپنا آلہ کار بنا کر ان ممالک میں بھیجا تھا۔

خود امریکی تجزیہ نگار اس رائے کے حامی ہیں کہ القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیم ایسے ممالک میں بنائی گئی جہاں جہادیوں کا نام و نشان تک نہیں ہوتا تھا اور اب داعش امریکہ و برطانیہ کے ذہنی اختلاط سے پیدا ہوئی ہے۔ اس نئے عفریت کو امریکی صدر اوباما کینسر قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ داعش کے خاتمہ کے لئے مشترکہ جدوجہد ضروری ہے، تاکہ ان جنگجوؤں کی کمر توڑ کر انہیں تباہ کیا جاسکے۔ امریکی صدر اوباما جنرل اسمبلی کو یہ بتاتے ہوئے کہ دنیا کو انتہائی مہلک اور نظریاتی طور پر خطرناک دہشت گردوں کا سامنا ہے، یہ بھول گئے کہ مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں کوشاں شدت پسندوں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرکے عرب تحریکوں اور خطے کی سیکولر حکومتوں کو کمزور کرنے کے لئے تیار کئے گئے، انہی کی پیداوار ہیں جنہوں نے قوت پکڑتے ہی اپنی توپوں کی دہانے اپنے آقاؤں کی طرف موڑ لئے ہیں۔ آج اگر بقول اوباما دنیا امن اور جنگ کے درمیان پھنسی نظر آتی ہے تو اس میں اصل قصور وار خود امریکی سامراج ہے، جس نے 1980ء کی دہائی سے افغانستان میں سویت یونین کے ساتھ پنجہ آزمائی شروع کرکے اسے زک پہنچانے کیلئے آپریشن سائیکلون کا آغاز کیا۔

یہی طوفان امریکیوں کو نائن الیون کے تلخ ترین تجربے سے دوچار کر گیا۔ جس کے بعد سے امریکہ نے وار آن ٹیرر کے نام پر دنیا کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس نے نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ خطے کی دیگر ریاستوں کو بھی عدم استحکام سے دوچار کرکے غربت و افلاس کی چکی میں پیس کے رکھ دیا، جبکہ خود امریکی اقتصادیات کو بھی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ امریکہ کی جنگی جنون میں مبتلا قیادتیں بنیادی طور پر امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں جن کے مالکان صہیونی ہیں، کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔ انہیں اپنے کاروبار کو چمکانے کے لئے ایک کے بعد ایک نئی جنگ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکی جرائد میں ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے وظیفہ خوار امریکہ کو مستقبل قریب میں 6 بڑی جنگوں کے لئے تیار رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں، جن میں 2 ہدف چین اور روس جیسی ایٹمی ریاستیں ہیں۔ مبینہ اطلاعات ہیں کہ امریکہ پر قابض ان گروہوں کو ہمیشہ اپنے مقصد کے لئے کسی نہ کسی نئے ہدف کی تلاش رہتی ہے جو اسے فی الوقت اسلامی ریاستوں کی شکل میں مل گیا ہے۔ امریکہ اسلحہ ساز کارخانوں کے مالک اپنی اس کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے کہ ان کی گرتی ہوئی شرح منافع میں یک دم کئی سو فیصد اضافے کے قوی امکانات روشن ہیں۔

اس کے لئے حیران کن امر یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کو عراق و شام میں نئی جارحیت کا ارتکاب کرنے میں 10 عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ جن سے مل کر جنگی حکمت عملی طے کی گئی ہے کہ امریکی اور نیٹو فورسز داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کریں گی، جبکہ زمینی کارروائی ان عرب ممالک کی مشترکہ فوجیں کریں گی۔ جنہیں اپنے بھائیوں کو مارنے کے لئے امریکہ اسلحہ ساز فیکٹریوں کا بنایا گیا اسلحہ خود ان عرب ریاستوں سے پیسے لے کر فروخت کیا جائے گا۔ تعجب خیز صورت حال یہ ہے کہ اس نئی جنگ میں شریک فریقین کے درمیان مسلم و غیر مسلم کی تمیز تو آشکار ہے مگر خود مسلمانوں کے مابین جنگ کے فریقین کی شناخت میں مسائل کو پیچیدہ تر بنا دیا ہے۔ شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان جنگ میں حکمران گروہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے جبکہ جہادیوں کو تکفیریوں جہادی کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔ ان کی حمایت خلیج کے امیر، مغربی طاقتیں اور اسرائیل کر رہے ہیں۔ ششدر کر دینے والی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں بشارالاسد حکومت کے مخالفین کی دامے، درہمے، سخنے حمایت کرنے والوں میں سعودی عرب، قطر، اردن اور اسرائیل یکسو ہیں۔

اسرائیل اور تکفیری جہادیوں کے گٹھ جوڑ کی بنیادی وجہ اسرائیل کی علاقائی سکیورٹی کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت معرض وجود میں آیا ہے کہ ایران شام اور حزب اللہ پر مشتمل شیعہ اتحاد اسرائیل کی بقا کے لئے خطرہ ہے۔ ایران کے جدید ترین میزائل پروگرام سے اسرائیلی بقا کو جو خطرات لاحق ہیں اس میں دوست دشمن کی تفریق ختم کرکے ایک مشترکہ دشمن کیخلاف مختلف الخیال اتحاد کو جنم دیا ہے۔ دیکھنے میں تو اسلامک اسٹیٹ کیخلاف متحد ہونے والی سامراجی قوتیں اس وقت یکجان و کئی قالب بنی ہوئی ہیں مگر جونہی ان کے اہداف حاصل ہوں گے ایک بار پھر سے باہم برسرپیکار ہوکر دنیا کے امن کو تہہ وبالا کرنے میں جت جائیں گے۔ بنیاد پرستی کی اساس پر جہادی تنظیموں کو جنم دینے کا گناہ کرنے والا سامراجی صہیونی سرمایہ داروں کے کاروباری مقاصد پورے کرنے کے لئے پوری دنیا کو جنگ کی آگ کے شعلوں میں جھونکے چلا جا رہا ہے۔ جارج بش جونیئر کے دور سے اوباما کے دوسرے دور حکومت تک امریکی سامراج نے جس طرح مسلمان ملکوں کیخلاف عسکری قوت کا بے ہنگم استعمال کرکے لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو شہید اور اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا ازالہ کرنے کی بجائے ایک نیا ہدف کھڑا کرکے قیام امن کی راہیں مسدود کی جا رہی ہیں۔

اوباما جنرل اسمبلی کے اجلاس میں داعش کے جنگجوؤں کو موت کے سوداگر کہہ کر انہیں انجام تک پہنچانے کی بڑھک لگاتے ہیں جبکہ درحقیقت گذشتہ 14 برسوں میں دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ موت کے اصل سوداگر کون ہیں۔ پاکستان جیسے امن پسند ملک کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کر شکست خوردہ ہو کر افغانستان سے بھاگنے کو تیار امریکہ اب عراق و شام میں مسلمانوں کو جنگ کا ایندھن بنانے جا رہا ہے۔ داعش بھی امریکہ نے انہی مقاصد کے حصول کے لئے خود ہی بنائی ہے۔ اسلامی ممالک کو باہمی منافرت کو بھول کر امریکی و یورپی و صہیونی سامراج کے خوفناک عزائم کا ادراک کرکے ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اسلامی اتحاد کی زنجیر کی کڑیاں بن کر ایک ہونا ہوگا، وگرنہ کرہ اراض پر مسلمان ممالک اور اہل ایمان کا نام و نشان تک نہیں ملے گا۔ یہ موت کے سوداگر اپنی سازش پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بے تاب بیٹھے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 411716
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش