2
0
Wednesday 17 Sep 2014 00:06

17 ستمبر، یوم شہادت شہید علی رضا تقوی

17 ستمبر، یوم شہادت شہید علی رضا تقوی
تحریر: علامہ صادق رضا تقوی

16 ستمبر 2012ء کی تاریخ کہ جب کراچی کی سرزمین پر عاشقان مصطفٰی (ص) نے مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے نمائش چورنگی تا امریکن قونصلیٹ تک "لبیک یارسول اللہ (ص) ریلی" نکالی۔ جس میں بڑی تعداد میں مرد و خواتین نے اپنے شیر خوار بچوں کے ہمراہ شرکت کی۔ اس ریلی میں امریکن قونصلیٹ پر تعینات پولیس اہلکار کی فائرنگ سے ایم ڈبلیو ایم کراچی ڈویژن ڈسٹرکٹ ایسٹ کے سیکریٹری اطلاعات سید علی رضا تقوی (رہ) شدید زخمی ہوگئے۔ بعد ازاں اگلے روز 17 ستمبر کو شہید ناموس رسالت نے آغا خان ہسپتال میں اپنی جان ناموس رسالت کی راہ میں قربان کر دی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہتی دنیا تک اہل تشیع کی جانب سے ناموس رسالت کی خاطر جان دینے والے پہلے فرد بن گئے۔ ہم نے شہید ناموس رسالت سید علی رضا تقوی کی زندگی کی یادگار تصاویر پیش کرکے یہ کوشش کی ہے کہ ہم شہید کی یاد کو زندہ رکھتے ہوئے پھر سے یہ عزم کریں کہ اگر پھر سے وقت آیا تو پاکستان کا ہر جوان ناموس رسالت کے دفاع میں علی رضا تقوی کی طرح اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار ہے۔

اتوار کے دن لوگ معمولاً ہفتہ بھرکاروباری اور ملازمت کی مصروفیات کی وجہ سے انجام نہ شدہ کاموں کی انجام دہی کیلے رات گئے تک جاگنے نیز ہفتہ کی تھکن اتارنے کی غرض سے دیر تک سونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 16 ستمبر 2012ء اتوار کے دن لوگ اسی طرح کی مصروفیات میں مشغول تھے لیکن شہر کراچی میں ایک عجیب سا سماں تھا، آسمانوں کے فلک نشینوں میں ایک ہلچل سی مچی تھی اور صاحبان دل کے دلوں میں ایک عجیب سی تمنا کروٹیں بدل رہی تھی۔ یوں تو طے شدہ منصوبے کے مطابق توہین رسالتؐ کے خلاف امریکہ اور یورپ کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی جانی تھی، جو اپنے مقررہ راستوں سے ہوتی ہوئی امریکی سفارتخانے پر جا کر اختتام پذیر ہوتی، یاداشت پیش کی جاتی اور پرامن طریقے سے ختم ہو جاتی۔ اِس ریلی کیلئے باقاعدہ اجازت لی گئی تھی اور رتمام راستے پولیس اور حساس ادارے موجود تھے۔ مظاہرین کو ایک امریکی سفارتخانے کے کئی فرلانگ دور ایک خاص مقام تک روکنے کیلئے ہیوی کنٹینرز کی رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھی۔ 8 کلو میٹر سے زیادہ اِس سفر میں ابتدا سے آخر تک کہیں کوئی بدمزگی سامنے نہیں آئی۔

ریلی میں شریک ہر ایک شخض ایک جذبے سے سرشار تھا، معاملہ ہی کچھ ایسا تھا، توہین رسالت مآب ؐ کا۔ ایسی لئے تو ایک خاص قسم کا جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا تھا ،ہر جوان، بزرگ، بچہ اور خاتون سبھی بے چین، مضطرب اور ایمان کی سلامتی کے حوالے سے پریشاں دکھائی تھے.......۔
رنگ برنگ پرچم اور لبیک یارسول اللہ ؐ کے سبز پرچموں نے سب کو ہم جہت و ہم صدا کر دیا تھا.......
.....مگر ایک بات ضرور ہے کہ تمام شرکائے ریلی نے اپنے تمام کاموں کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی کہ وہ ریلی کے اختتام پر کیا کیا کام انجام دیں گے.... اُنہوں نے کیا کرنا ہے اور اُن کا اگلا قدم کیا ہوگا!! مگر ان شرکاء میں ایک ایسا جوان بھی تھا جو کچھ اور ہی سوچ کر آیا تھا.......... اُس کی راہ سب سے الگ اور جدا تھی اور اُس کے ذہن میں کچھ اور ہی منصوبہ بسا ہوا تھا........!
گو کہ وہ بہت کم گو تھا لیکن اُس دن اُس کے دل میں تڑپنے والی آرزو درحقیقت اُس کے مافی الضمیر کو بیان کرنے پر اُسے مجبور کر رہی تھی۔

شہید ناموس رسالتؐ سید علی تقوی ؒ نے اس ریلی سے کچھ اور ہی معاہدہ کیا ہوا تھا....... ، وہ الگ ہی سوچ کا حامل تھا کہ جس کا اظہار اُس نے گذشتہ چند روز سے اپنے اہل خانہ اور دوست و احباب سے کیا ہوا تھا......۔ وہ ریلی میں گویا سب سے پیچھے تھا مگر سب سے آگے دیکھا گیا..... ! وہ خاموش ضرور اور چپ طبیعت کا مالک ضرور تھا لیکن اُس دن اُس کی پراسرار خاموشی اور مسکراہٹ اُس کے من میں چھپے طوفان کا پتہ دے رہی تھی.....، ریلی میں اُس کے وہ بریدہ بریدہ جملے، دوستوں سے اشاروں کنایوں میں باتیں، رموز و اسرار سے لبریز اشارے، سبھی اس کے متمنی شہادت ہونے کا پتہ دے رہے تھے۔
اُس کی شہادت کے بعد یہ راز کھلا کہ اُس کی تمام حرکات و سکنات اور باتیں اِس بات کا ثبوت فراہم کر رہی تھیں کہ وہ شہادت کا کتنا شوقین، تشنہ اور دلدادہ تھا۔ اُس کی تحریریں آج بھی اِسی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں۔

شہید سید علی رضا تقوی اپنے گھر میں چار بہنوں کے بعد پہلا بیٹا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ سے گھر والوں کی آنکھوں کا تارا تھا، مگر آٹھویں جماعت میں والد کے انتقال کے بعد اُس کی محنت و مشقت والی زندگی نے اُسے پر عزم، باحوصلہ اور آتش فشاں بنا دیا تھا۔ اُس کا کمسنی میں ہی ملازمت کرنا، اُس کے حوصلوں کی پختگی نیز اسے عشق کی بھٹی میں کندن بنانے میں مددگار بنا۔ وہ خاموش ضرور تھا مگر اپنی کم گوئی سے اہل وطن کو یہ پیغام دے گیا کہ کچھ کرنے کا جذبہ رکھو، حالات سے مت گھبراؤ، سخت حالات انسا ن کو مضبوط بناتے ہیں، اُس کے ارادوں کو مستحکم اور یقیں کو محکم کرتے ہیں۔
وہ یہی کہنا چاہتا تھا ...........گویا کہہ بھی گیا کہ............
دل میں آرزو رکھو کچھ کر گزرنے کی .........تمنا کو زندہ رکھو......حالات کتنے دشوار ہی کیوں نہ ہوں.............تمنا کو زندہ رکھو.....
خبر کا کوڈ : 410014
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

allal in k darajat men or izafa famain or ham sabko inki seerat pr chalny ki tofeeq dy ameen
shahdat har koie laiq nahi hota is k liye ishq aale mohammad ka jam sy serab hona parta hy aisy shaheedonko hamara salam ho
ہماری پیشکش