0
Monday 29 Sep 2014 21:52

یہ کیسا نظام ہے؟

یہ کیسا نظام ہے؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

ریاستی ادارے اپنی فعالیت کے لئے بے شک حکومت کے مرہونِ منت ہوتے ہیں، جمہوری ممالک میں حکومتیں عوام کی حقیقی نمائندہ ہوتی ہیں۔ وہاں دھاندلی وغیرہ کا تصور نہیں ہوتا۔ اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن ہار جائے تو وہ بجائے دھاندلی کی الزام تراشیوں کے اپنی ان سیاسی غلطیوں پر غور کرتی ہے جس کی وجہ سے اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے ہاں مگر روایت مختلف ہے۔ جمہوری ممالک میں ایسا بھی نہیں ہوتا کہ پولنگ بوتھ سے نتائج آرہے ہوں اور کسی سیاسی جماعت کا سربراہ اپنے بھائی بندوں کے ساتھ ٹی وی پہ آکر ایسا خطاب کرے جس میں ایسی التجائیں جھلک رہی ہوں کہ مجھے صرف اکثریت نہیں دو تہائی والی اکثریت دلا دیں۔ سوال عمران خان کا غلط بھی نہیں، بالکل منطقی ہے۔ بھئی رات گیارہ بجے آپ کس سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے دو تہائی اکثریت دلا دیں؟ 

گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ حکمت ہی خیرِ کثیر ہے، وہ مگر جو خود سے سوچتے بھی نہیں، انھیں ندامت کا سامنا رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں شخصی جمہوریت کا راج ہے۔ وزارتیں اور سیاسی پارٹیوں کی قیادت اولاد میں ایسے منتقل ہوتی ہے جیسے یہ ان کا ترکہ ہو۔ جماعت اسلامی البتہ اس حوالے سے اپنا الگ اور منفرد نظام رکھتی ہے۔ اختلاف ممکن ہے، مگر وراثتی سیاسی نظام کو جماعت اسلامی نے اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا۔ انسان مگر اقتدار کا بھوکا ہے۔ ہر شخص اپنی ذات میں ایک کاریگر۔ بلاول بھٹو صاحب کو آج یاد آیا کہ پی پی پی کے کارکن بھی ہوا کرتے ہیں۔ بے شک کسی بھی جماعت کی طاقت اس کے نظریاتی کارکن ہوتے ہیں۔ ’’مفاداتی کارکن اور رہنما‘‘ تو ہوا کے رخ پہ پرواز کرتے ہیں۔ محترمہ کے بیٹے کو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے کارکنوں کی اوالعزمی دیکھ کر یاد آیا کہ تاریخ کی کتابوں میں ذوالفقار علی بھٹو کے جیالوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔

پیغام میں ایک التجا ہے، منت کہ پی پی پی کے کارکن کسی اور پارٹی میں نہ جائیں۔ جمہوریت بچائیں۔ بلاول بھٹو صاحب یہ نون لیگ والے کارکن نہیں، یہ پی پی پی کے جیالے ہیں، یہ تو محترمہ سے بھی پوچھ لیا کرتے تھے۔ آپ سے تو ضرور پوچھیں گے کہ میاں کون سی جمہوریت؟ وہی جس میں پی پی پی پنجاب کا صدر منظور وٹو ہو؟ جو کسی بھی’’حسبی نسبی‘‘ جیالے کو کسی طرح گوارا نہیں۔ کون سی جمہوریت؟ جس میں آپ نے پانچ سالوں میں سوائے لوڈشیڈنگ کے اور کچھ نہ دیا؟ بے شک بجلی کے منصوبے بنائے گئے، ان پہ کام بھی ہوا مگر سوال یہ ہے کہ عام آدمی کو اٹھارہویں، انیسویں، بیسویں ترمیم سے کیا فائدہ ہوا؟ اس میثاقِ لندن کا عام آدمی کے بجائے تو نون لیگ کی قیادت کو فائدہ ہوا۔ صوبائی خود مختاری بجا، مگر مہنگائی؟ یہ بھی تو اسی جمہوریت کی عطا ہے نا، جس میں کسی بھی عہدے کے لیے صرف ایک ہی میرٹ ہے اور وہ ہے’’رشتہ داری بشرطِ استواری‘‘ 2009/2010ء میں بھی سیلاب آیا۔ 1992ء میں بھی آیا تھا۔ 2009/2010ء میں جب سیلاب آیا تو پی پی پی کی قیادت ٹی وی کیمروں کے ساتھ پانی کو پاؤں تلے روندتی چلی جا رہی تھی۔ آج 2014ء میں سیلاب آیا تو نون لیگ کی صوبائی قیادت یعنی خادم اعلٰی نے ٹی وی کیمروں کے سامنے پانی کو جوتے کی نوک پہ رکھا ہوا ہے۔ کیا اس سے سیلاب زدگان کا دکھ کم ہو جائے گا؟

بلاول بھٹو صاحب سیلاب زدگان کی خبر گیری کو لاہور آئے تو میاں شہباز شریف صاحب نے سندھ کا رخ کر لیا۔ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔‘‘ کیا سیلاب جیسی مصیبت بھی پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کی وجہ سے آئی؟ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا اکٹھ تو یہی ظاہر کرتا ہے۔ میاں برادران اور ان کے رشتے داروں کی اکثریت پہ مشتمل کابینہ والے کہتے ہیں کہ دھرنے والو آؤ مل کے سیلاب زدگان کی مدد کرتے ہیں۔ میرا سوال مگر یہ ہے کہ کیا 1992ء اور پھر 2009/2010ء کے تباہ کن سیلابی ریلوں کے بعد بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی ایسی پالیسی بنائی، جس سے قدرتی آفات سے نمٹنے کا انتظام نظر آتا ہو؟ اگر یہ لوگ مل کر 10 ڈیم ہی بنا لیتے تو سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جاسکتا تھا۔ بنانے انھوں نے اب بھی نہیں۔ یہ لوگ تو جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں مانگتے ہیں کہ زلزلے اور سیلاب آئیں۔ بیرونی امداد آئے اور ان کے ذاتی مزے ہوں۔ بلاول بھٹو صاحب اگر چاہتے ہیں کہ پی پی پی کے کارکن پیپلز پارٹی کو نہ چھوڑیں، تو انھیں سیاسی بازی گری کے بجائے پاکستان پیپلز پارٹی کے اس منشور کی طرف لوٹنا ہوگا، جس نے عام آدمی کو جینے کا حوصلہ اور امید بخشی تھی۔ کیا پی پی پی کی قیادت نے سوچا کہ عوامی تحریک اور پی ٹی آئی نے 44 دنوں سے کیوں دھرنا دے رکھا ہے؟ کیا پی پی پی کی قیادت نے ڈاکٹر طاہر القادری کے منشور میں سے غربت، افلاس، بے روزگاری اور تفرقہ بازی و تکفیریت کے خاتمے کی اسی طرح کھل کر حمایت کی، جس طرح پی پی پی کی قیادت میاں نواز شریف کی حمایت کر رہی ہے۔؟

تسلیم کر لیا جائے کہ جمہوریت اور آئین کی حمایت کے پردے میں سٹیٹس کو اور وراثتی سیاست کی حمایت کی جا رہی ہے۔ پی پی پی کا کارکن اس مرحلے پر نالاں ہے، اپنی قیادت سے۔ اگرچہ قیادت کا فقدان ہے۔ درست لفظ اپنے پارٹی مالکان سے۔ کیا ہم ایسی جمہوریت کو تسلیم کر لیں جس کی پیدائش ہی مشکوک ہے؟ دھاندلی اور کس چیز کا نام ہے؟ کیا ہم ایسی جمہوریت کو تسلیم کر لیں، جس میں ریاست کی طرف سے کالعدم قرار دی گئی دہشت گرد تنظیمیں ’’جمہوریت اور حکومت‘‘ کے حق میں ریلیاں نکالیں اور ریاستی ادارے ایسی تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکیں؟ یہ کیسا نظام ہے کہ جسے بچانے کے لیے ایم کیو ایم، پی پی پی، اے این پی بھی میدان میں ہے اور جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن، نون لیگ اور کالعدم تنظیمیں بھی میدان میں ہیں۔
یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
خبر کا کوڈ : 412346
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش