0
Friday 24 Oct 2014 13:47
لگتا ہے حکومت کی پرویز مشرف کیساتھ ڈیل ہوچکی ہے

ایم کیو ایم سمیت کسی سہارے کی ضرورت نہیں، پیپلزپارٹی دھرنا دیتی تو شیر بلی بن کر بھاگ جاتا، لطیف کھوسہ

ایم کیو ایم سمیت کسی سہارے کی ضرورت نہیں، پیپلزپارٹی دھرنا دیتی تو شیر بلی بن کر بھاگ جاتا، لطیف کھوسہ
سردار لطیف کھوسہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما ہیں، پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں گورنر پنجاب کی ذمہ داری بھی انہی کے پاس تھی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد انہیں گورنر پنجاب نامزد کیا تھا۔ معروف قانون دان ہیں۔ ملک کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں۔ لطیف کھوسہ سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان اور سابق سینیٹر بھی ہیں۔ پاکستان بار کونسل کے ایگزیکٹو چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے لاہور میں ان کے ساتھ ایک مختصر نشست کی جس کا احوال قارئیں کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارت جس انداز میں سرحدی خلاف ورزی کر رہا ہے، کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ اسے منہ توڑ جواب دے اور دوسری جماعتوں کو بھی نہیں چاہیئے کہ وہ حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں۔؟
سردار لطیف کھوسہ: بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے، وہ جب چاہتا ہے کہ گولہ باری کر دیتا ہے اور الٹا الزام بھی پاکستان پر دھر دیتا ہے۔ بھارتی جارحیت کے باعث سرحدی علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ اس گولہ باری میں درجنوں شہری شہید اور کئی زخمی ہوچکے ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں نے تو بھارتی جارحیت کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے، مگر حکومت کی جانب سے بھارتی حملوں پر خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ ہماری پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو بھارتی وزیراعظم مودی پر واضح کر دیا ہے وہ پاکستان کو اپنا گجرات نہ سمجھیں، اور نہ ہی ہم بھارتی مسلمان ہیں کہ جن پر حملے کرا کے انہیں خاموش کرا دیا جائے گا، ہم بھارت کو خطے میں اسرائیل جیسا کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہماری بہادر فوج دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھارتی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرائے اور ان پر واضح کر دے کہ اس قسم کی جارحیت کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ 
بلاول بھٹو زرداری کے بیان نے مودی سرکار کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ کو ہیک کر لیا، ابھی تو شروعات ہیں، بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں گے، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز پر اس طرح بھارت کو للکارا تھا، انہوں نے ہی بھارتی عزائم سے بچانے کے لئے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس ملک کو میزائل ٹیکنالوجی دی جبکہ پیپلز پارٹی کے دور میں ہی بھارت کیساتھ شملہ معاہدہ ہوا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے آباء کی تقلید کرتے ہوئے اس ملک کو مضبوط اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں ،اسی لئے انہوں نے دبنگ انداز میں بھارتی حکمرانوں کو للکارا ہے، آج اس قسم کی قیادت کی ضرورت ہے کہ بھارت کو اس کے ہی انداز میں جواب دیا جاسکے، تاکہ اسے پتہ چل سکے کہ ہمارے پاس ایسی قیادت موجود ہے جو ملی غیرت کے جذبے سے سرشار ہے مگر پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کو بھارتی قیادت کے سامنے بات کرنے کی جرات کیوں نہیں ہوتی۔

اسلام ٹائمز: عام انتخابات میں ہونیوالی دھاندلی کیخلاف پی ٹی آئی کا دھرنا جاری ہے، آپکی جماعت کے بھی الیکشن میں ہونیوالی دھاندلی کے حوالے سے تحفظات تھے، آپ اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔؟

سردار لطیف کھوسہ: پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کو بنیاد بنا کر ریلیوں، دھرنوں اور جلسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، ان کے مطالبات جائز ہیں، مگر ہمیں ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہے، ہم کہتے ہیں کہ ملک میں انتخابی دھاندلی فیصلے جلد کئے جائیں، آئندہ انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری کو قائم رکھنے کے لئے انتخابی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، یہ سب صیح باتیں ہیں، مگر اس کے لئے اسمبلی فلور موجود ہے، آپ استعفوں کی بجائے اسمبلیوں میں اپنے مطالبات اٹھاتے اور عدالتوں سے رجوع کرتے تو نوبت یہاں تک نہ آتی، اب چونکہ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے اور مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے تو تمام سیاسی جماعتیں متحرک نظر آتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی جماعت کو اپنے مطالبات منوانے کے لئے احتجاج کا حق حاصل ہے، مگر اس کے لئے کسی طرح بھی غیر جمہوری طاقتوں کو آگے آنے کی دعوت دینا جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش ہے، اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے، اسے چاہیے کہ مذاکرات کرکے دھرنے والوں کو گھر روانہ کر دے، اگر طوالت بڑھ گئی تو جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ آپکی جماعت خاندانی جماعت بن کر رہ گئی ہے، آپ نون لیگ پر تو بادشاہت کا الزام عائد کرتے ہیں، اپنی جماعت کی اصلاح کیوں نہیں کرتے۔؟
سردار لطیف کھوسہ: پاکستان پیپلز پارٹی پر خاندانی سیاست کا الزام لگانے والوں کو پتہ ہونا چاہیئے کہ پی پی کی لیڈر شپ نے شہادت کی داستانیں رقم کی ہیں، اس ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کے پھندے کو چھو لیا تھا، پھر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے عوام کے لئے جام شہادت نوش کیا۔ ان کے بھائی مرتضٰی اور شاہ نواز بھٹو شہید کر دیئے گئے، یہاں اگر کوئی خاندانی سیاست کرتا ہے تو وہ سمجھ لے کہ مقتل گاہ کا انتخاب کرتا ہے، ہماری پارٹی کے قائد کے خاندان نے اس ملک و ملت کے لئے شہادت کی داستانیں رقم کیں اور کسی پارٹی نے اتنی قربانیاں نہیں دی ہوں گی، جتنی پی پی پی نے دی ہیں، اس لئے چیئرمین کی سیٹ کے لئے بلاول بھٹو زرداری کا انتخاب ان کے خاندان کی قربانیوں کا صلہ ہے، اس سے بڑھ کر کوئی اور اتنی قربانیاں دے کر تو دکھائے۔ اب تو بعض سیاست دان انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، مگر عوام کو پتہ ہے کہ ان کے لئے کس نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ اگر کسی کو سیاست سیکھنا ہے تو وہ بھٹو خاندان سے سیکھے۔ پی پی پی چونکہ ایک خاندان کی طرح ہے، اس لئے ہم خاندانی سیاست کرتے رہے ہیں، یہ دراصل ہمارا شہداء کے ساتھ ایک عہد ہے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ سیاست کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟

سردار لطیف کھوسہ: یہ وقت دھرنوں اور مارچوں کا نہیں، بلکہ ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ بنانے کا ہے، اس لئے عمران خان کو دھرنا ختم کرکے انتخابات تک انتظار کرنا ہوگا۔ ہمارے بھی انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ مگر ہم نے کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلائی بلکہ ملک اور جمہوریت کی مضبوطی کی خاطر حکومتی مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ جب اسمبلی موجود ہے، عدلیہ آزاد ہے، تو پھر سڑکوں پر جلسے جلوس منعقد کرنے کا بھلا کیا فائدہ، اس طرح افراتفری سے ملک اور جہوریت کا نقصان ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسی کی تحت سب سیاسی جماعتوں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا، ہمارے دور میں جناب نواز شریف اور شہباز شریف لوگوں کو سڑکوں پر لائے تھے مگر حکومت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، جس کے سبب پانچ سال پورے ہوئے مگر میاں صاحبان میں اتنی برداشت کیوں نہیں کہ وہ صبر و تحمل سے مخالفین کو برداشت کرتے، انہوں نے جلد بازی میں منہاج القرآن کے کارکنوں پر گولیاں چلوا دیں، اور پھر اسلام آباد میں بھی سیاسی کارکنوں پر تشدد کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ اب تک سڑکوں پر ہیں۔

اسلام ٹائمز: جس طرح نون لیگ نے آپکے دور میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا، اب آپ فرینڈلی اپوزیشن بنے ہوئے ہیں، تو کیا یہ جمہوریت ہے یا سودے بازی۔؟
سردار لطیف کھوسہ: ہم نے اپنی پالیسی کے مطابق طے کیا ہے کہ حکومت کے منفی کاموں پر تنقید کریں گے جبکہ مثبت کاموں کو سراہیں گے، اب 90ء کی دہائی نہیں رہی، یہ نیا دور ہے اور نئے دور میں سیاست دانوں نے اپنے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے، جو لوگ چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں محاذ آرائی اور سڑکوں پر دنگا فساد ہو انہیں منہ کی کھانی پڑے گی، آج میڈیا آزاد ہے، اس کی ہماری ہر سرگرمی پر نظر ہے، اس لئے ہر کسی کو قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔ تنقید برائے تنقید نہیں چلے گی بلکہ تنقید برائے اصلاح کا دور شروع ہوگیا ہے، اب عوام کو حقیقی معنوں میں اپوزیشن کرکے دکھانی پڑے گی، اب نورا کشتی نہیں ہوسکتی، نہ ہی مصنوعی بحران پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ ہم ایشوز کی سیاست کریں گے، جن ایشوز پر ہم سمجھیں گے کہ یہاں کھل کر تنقید ہوسکتی ہے اسے کھل کر بیان کریں گے، کسی معاملے پر عوام کو بے خبر نہ رکھیں گے، ہمارا کام حکومت کی اصلاح کرنا ہے، اس کو گرانا نہیں، اس لئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہم آہنگی کو نورا کشتی نہیں کہا جا سکتا۔
جہاں تک ہماری کارکردگی کا تعلق ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں نہ صرف بلوچستان پیکج دیا بلکہ آئین کو اس کی حقیقی روح کے مطابق بحال کر دیا، آج اسی کے ثمرات سے حکمران فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہمارے صدر نے اپنے بعض اختیارات وزیراعظم کو منتقل کئے۔ انہوں نے ملک میں جمہوری روایات اور جمہوری کلچر کو فروغ دینے کے لئے وزیراعظم کو طاقتور بنایا، پھر چیئرمین نیب بنانے کے لئے اپوزیشن اور حکومت میں مشاورت بھی آئینی طریقے سے ہوئی۔ کئی ماہ کی مشاورت کے بعد چوہدری قمر زمان کو چیئرمین نیب کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس عہدے پر آئین اور قانون کی متعلقہ دفعات کے تقاضوں کے مطابق کسی ایسی شخصیت کو ہی نامزد کیا جانا تھا جس کے کردار اور اہلیت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اس سلسلہ میں حکومت اور اپوزیشن نے باہمی مشاورت سے چوہدری قمر زمان کے نام کی منظوری دے دی جو خوش آئند بات ہے، ان سے بہتر توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ حقیقت نہیں کہ پیپلز پارٹی کو ناقص کارکردگی کے سبب الیکشن میں شکست ہوئی، پھر آپ کس طرح بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔؟

سردار لطیف کھوسہ: پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، ہمیں اقتدار اور عہدوں سے زیادہ وطن کی سالمیت عزیز ہے، اس لئے ہم کبھی بھی ملک میں انتشار پیدا نہیں کریں گے۔ ہمارے سامنے شہادتوں کی طویل تاریخ پڑی ہے، جس سے ہم سبق حاصل کرتے ہیں، پی پی پی ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط جماعت ہے، اسے کوئی بھی آمر نہ توڑ سکا ہے، نہ اس کے کارکنوں کو خریدا جاسکتا ہے، اس کو جتنا دبایا جائے یہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اسی لئے یہ جمہوریت پسند افراد کے دل کی دھڑکن ہے، یہ حقیقت ہے کہ ہم گذشتہ دور میں پوری کوشش کے باوجود عوام کے مسائل حل نہیں کرسکے، مگر اب ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے پھر عوام میں آگئے ہیں۔ یہ عوام ہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کونسی جماعت ان کے مفادات کا تحفظ کرسکتی ہے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے دور میں مزدور، کسان اور طالب علموں کے مسائل حل کرنے کی بات کی۔ 
اب روٹی کپڑا اور مکان کی بات کریں گے، آصف علی زرداری کی قیادت میں پارٹی ازسرنو منظم کریں گے، تاکہ جیالے پھر سے نئے عزم اور جذبے کے ساتھ پیپلز پارٹی کو لے کر آگے بڑھیں، پیپلز پارٹی کی جمہوریت دوستی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم جہاں کہیں سمجھیں گے کہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے، تو ہم عوام کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے میدان میں آجائیں گے۔ ہم اسمبلی کے اندر اور باہر غربیوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ ہار جیت جمہوریت کا حصہ ہے، جلد ہی بلدیاتی انتخابات کا دنگل شروع ہونے جا رہا ہے، اس سلسلہ میں ہماری پارٹی اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ ہم عوامی طاقت سے کامیابی حاصل کرکے بلدیات میں جائیں گے اور عوام کی بھرپور خدمت کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ کہتے ہیں عام انتخابات دھاندلی ہوئی، پھر بھی آپ نے جعلی مینڈیٹ کیوں قبول کیا۔؟
سردارلطیف کھوسہ: ہم نے الیکشن میں اپنی شکست کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا، ہم نے حلقہ بندیوں کے لئے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے موقع پر ان کا جعلی مینڈیٹ قبول کر لیا کہ ملک افراتفری کا شکار نہ ہو۔ مگر اب بلدیاتی الیکشن میں ان کی جعلسازی روکیں گے۔ اگر پھر بھی دھاندلی کی گئی تو بھرپور مزاحمت کریں گے۔ حکمرانوں نے اپنی پالیسیاں جاری رکھیں اور لوگوں کی پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا تو لوگ خود سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ اگر عوام حکومت کیخلاف سڑکوں پر نکلے تو پیپلز پارٹی ان کا ساتھ دے گی۔ اس لئے حکمران اپنا قبلہ درست کر لیں۔

اسلام ٹائمز: مہنگائی کی ایک نئی لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کیساتھ آنکھیں بند کرکے معاہدے کر لئے ہیں، عوامی مفاد کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا۔؟

سردار لطیف کھوسہ: حکومتی اقدامات سے تو ایسا لگتا ہے کہ حکمران عوام کو نہیں آئی ایم ایف کو جوابدہ ہیں، اس لئے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ملک میں مہنگائی کا سیلاب آیا ہے، موجودہ حکومت عوام کو سنہرے سپنے دکھا کر اقتدار میں آئی ہے، ابھی اس کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم نہ ہوا تھا کہ اس نے مہنگائی کرکے لوگوں کو مایوسی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے، عوام کے صبر کا پیمانہ ایک سال بعد ہی لبریز ہوچکا ہے، اس لئے کہ حکومت بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائے چلی جا رہی ہے۔ جس سے آٹا گھی اور چینی کی قیمتوں میں ازخود اضافہ ہوجاتا ہے۔ قیمت خرید عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہے، اب لوگ چیز دیکھ سکتے ہیں اسے خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ عوام پر ٹیکس لگانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے، مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ موجودہ حکومت پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ہی ٹیکس لگا رہی ہے، جس سے عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ ہم عوام کو مشکل میں نہیں دیکھ سکتے، حکومت اپنا قبلہ درست کر لے ورنہ پیپلز پارٹی عوام کے لئے میدان میں اتر آئے گی۔

اسلام ٹائمز:آپکے دور میں پرویز مشرف کے خلاف مقدمات قائم ہوئے لیکن پھر انکی ضمانت منظور کر لی گئی،کیا یہ کوئی ڈیل تھی کہ پرویز مشرف کچھ عرصے بعد بیرون ملک چلے جائیں گے۔؟

سردار لطیف کھوسہ: پرویز مشرف کی تمام مقدمات میں ضمانت ہوجانے پر ہم کیا تبصرہ کریں گے، یہ عدالتی فیصلہ تھا، جب اٹارنی جنرل اور حکومتی وکلا کیس کو کمزور انداز میں پیش کریں گے تو اس قسم کے مقدمات میں پھر ضمانت کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ اکبر بگٹی اور بے نظیر قتل کیس میں پرویز مشرف کی ضمانت ہوگئی تھی مگر اس کے خلاف آئین کی آرٹیکل 6 کے تحت آئین توڑنے کا مقدمہ تاخیر سے درج ہوا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پس پردہ کوئی ڈیل ہوئی ہے، جس کے تحت پرویز مشرف بیرون ملک چلے جائیں گے۔ حکمرانوں نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمات چلانے کے بہت دعوے کئے، لیکن جب قید میں خود صیاد آگیا تو اسے باہر نکالنے کے عذر تلاش کئے جانے لگے۔ اسی لئے حکومت نے عدالتوں میں ان کے خلاف کوئی سخت موقف اختیار نہیں کیا، جس کے سبب تمام مقدمات میں پرویز مشرف کی ضمانت ہوگئی۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنا ختم کرکے کیا اچھا اقدام اٹھایا ہے۔؟
سردار لطیف کھوسہ: جی بالکل انہوں نے اچھا کیا ہے، ہم نے تو پہلے دن سے ہی کہا تھا کہ ان کا احتجاج کا طریقہ کار درست نہیں، اس لئے یہ اچھا ہوا کہ انہوں نے حکمت عملی تبدیل کر لی ہے، اب وہ الیکشن کی تیاریاں کر رہے ہیں اور اچھی بات ہے، اب پارلیمنٹ کا فورم ہے، اس میں آکر بات کریں۔ جس نظام پر وہ تنقید کرتے ہیں اسے پارلیمنٹ میں آکر بدلیں، باقی جہاں تک ڈاکٹر طاہرالقادری کے دس نکاتی ایجنڈے کا تعلق ہے تو وہ بہت اچھا ایجنڈا ہے، عوامی تحریک اب الیکشن میں حصہ لے اور پارلیمنٹ میں آکر اسے نافذ کرے اور پارلیمنٹ میں ہی نظام بدلنے کی تحریک بھی چلائے۔ اس حوالے سے ہم تو عمران خان کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ ضد چھوڑ دیں اور وہ بھی پارلیمنٹ میں استعفے دینے کے بجائے پارلیمنٹ میں اپنی بات منوائیں۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم کیساتھ کشیدگی چل رہی ہے، انہوں نے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے، کیا کہیں گے۔؟
سردار لطیف کھوسہ: ہم نے ایم کیو ایم کو مفاہمت کی وجہ سے ساتھ رکھا ہوا تھا ورنہ پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں۔ کوئی ہمارے ساتھ نہیں چل سکتا تو راستے سے ہٹ جائے، پیپلز پارٹی عوامی جماعت ہے، اسے کسی اتحادی کی ضرورت نہیں، بلاول بھٹو زرداری کے جلسے بھی ثابت کر دیا ہے کہ عوام پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں، ایم کیو ایم اصل میں پیپلز پارٹی کی قوت سے خوفزدہ ہوگئی ہے اور واضح ہوگیا ہے کہ عوام تو آج بھی بھٹو کے ساتھ ہیں، اس لئے انہوں نے سچ کو برداشت نہیں کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں تمام باتیں سچ کی ہیں۔ یہ نیا دور ہے اور نئی نسل لگی لپٹی کے بغیر ہی بات کرتی ہے۔ ہماری جماعت کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں، ہمیں تو 2018ء میں بھی کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ موجودہ حالات میں اگر پیپلز پارٹی دھرنے دیتی تو شیر نے بلی بن کر بھاگ جانا تھا۔
خبر کا کوڈ : 416207
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش