0
Sunday 26 Oct 2014 11:17

دہشتگردی کے واقعات اور محرم الحرام

دہشتگردی کے واقعات اور محرم الحرام
تحریر: تصور حسین شہزاد

کوئٹہ میں دہشت گردی کی تین مختلف وارداتوں میں 14 سے زائد افراد جاں بحق اور 40 کے قریب زخمی ہوگئے، جن میں اکثر کی حالت نازک ہے، دہشت گردی کے ان واقعات میں جہاں ایک بار پھر ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا وہاں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر خودکش حملہ بھی کیا گیا۔ کم عمر خودکش دھماکہ حملہ آور کو ان کی گاڑی کی طرف بڑھنے سے سکیورٹی والوں نے روکا تو عین مولانا کے گاڑی کے پاس اس نے اپنے آپ کو اڑا لیا۔ حملے میں مولانا تو بچ گئے مگر ان کے 3 محافظ جاں بحق اور 30 کارکن زخمی ہوگئے۔ ادھر نواحی علاقے ہزار گنجی میں ہزارہ برادری کے افراد کو نشانہ بنایا گیا، دہشت گردوں نے ایک منی بس پر فائرنگ کی، جس سے 8 ہزارہ شیعہ شہید ہوگئے۔ دہشت گردی کی تیسری واردات سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ پیش آئی۔ قمبرانی روڈ پر ایف سی اہلکاروں کے قافلے کے قریب بم دھماکے میں 3 افراد جاں بحق اور 22 زخمی ہوگئے۔ ایک ہی دن میں بلوچستان کے دارالحکومت میں دہشت گردی کے 3 خوفناک واقعات حکومت بلوچستان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ وزیراعلٰی بلوچستان نہایت سادگی سے کہہ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے خودکش حملے کی دھمکیوں کے بارے میں حکومت کو آگاہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی ہزارہ برادری نے خود کو ملنے والی دھمکیوں کی رپورٹ دی تھی۔ وزیراعلٰی بلوچستان کے اس بیان پر سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ بے شرمی کی انتہا کے سوا کچھ نہیں۔

محرم الحرام شروع ہوچکا ہے، بلوچستان جو عرصہ دراز سے فرقہ واریت کا نشانہ بنا ہوا ہے، وہاں آئے روز شیعہ ہزارہ افراد کا قتل عام معمول کی بات بن چکی ہے۔ اس پر کئی بار ہزارہ برادری دھرنے دے چکی ہے، جن کے جواب میں حکومتیں انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانیاں کروا چکی ہے لیکن ہنوز ہزارہ برادری کے افراد دہشت گردوں کے ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ان معصوم لوگوں کے خلاف موت کا گھناؤنا کھیل کھیلنے والے مذہبی جنونی ہیں۔ جنہیں طالبان یا ان کے حامی نظریات کے لوگ شمار کیا جاتا ہے۔ مگر حیرت ہے کہ مکتب دیوبند سے تعلق رکھنے والے رہنما کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، جو مولانا مفتی محمود کانفرنس سے خطاب کرکے جلسہ گاہ سے نکل رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن پر حملے کی ذمہ داری جنداللہ نے قبول کی ہے، جسے القاعدہ اور اب داعش کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ انتہا پسند مذہبی جنونی تنظیم کالعدم قرار دی جاچکی ہے مگر اس کے باوجود اس کی سرگرمیاں جاری ہیں۔

بلوچستان میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات المناک بھی ہیں اور اپنی جگہ دعوت فکر بھی دیتے ہیں، ہماری سکیورٹی ایجنسیاں عرصہ دراز سے اس صوبے میں مختلف غیر ملکی ایجنسیوں کی پراکسی وار کا مقابلہ کر رہی ہے۔ بلوچستان میں قدرتی وسائل کی بے پناہ دولت کے باعث اور گوادر پورٹ کی وجہ سے بلوچستان عالمی قوتوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ عالمی سامراج ایک عرصے سے اس دولت کو ہتھیانے کے لئے باہم دست و گریباں ہے۔ بلوچستان میں یہ لڑائی پہاڑوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے ذریعے لڑی جا رہی ہے۔ شہروں اور قصبات میں اسے فرقہ واریت کا رنگ دے کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی مذموم کوشش بھی اسی پراکسی وار کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اپنے ملک کے باسی عالمی قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ یہی جنداللہ پاک ایران سرحد پر ماحول خراب کرنے میں مصروف ہے، آئے روز ایرانی فورسز پر حملے اور پھر جوابی کارروائی کا پروپیگنڈہ بھی عالمی سازش کا ہی شاخسانہ ہے، جو پاک ایران تعلقات خراب کرنے کے ایجنڈے ہر عمل پیرا ہیں۔

ہر سال محرم الحرام کے موقع پر خفیہ رپورٹیں مرتب کرکے اس ماہ مقدس میں حالات خراب ہونے سے بچانے کے لئے حفاظتی تدابیر کی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی خوفناک حادثہ رونما ہوجاتا ہے۔ گذشتہ سال راولپنڈی کے راجہ بازار میں خونی واقعہ رونما ہوا۔ جو ابھی تک ذہنوں سے محو نہیں ہوسکا۔ اس کی یاد سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے۔ اس سال تو عالمی قوتوں نے فرقہ واریت کے نام پر ملک بھر میں قیامت بپا کرنے کی بھرپور تیاری کی ہے۔ کوئٹہ کا واقعہ تو اس کا تعارفی ٹریلر تھا۔ جبکہ خفیہ ایجنسیاں رپورٹ دے رہی ہیں کہ بھارت، امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے محرم الحرام کے موقع پر شیعہ سنی فسادات کرانے کی بڑی جامع منصوبہ بندی کی ہے۔ جس کے تحت 700 تربیت یافتہ دہشت گردوں کو شیعہ سنی علماء کی طرز پر تربیت دے کر مختلف مکاتب فکر کی جماعتوں میں داخل کر دیا ہے، جو مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے شعلہ بیانی سے کام لے کر اجتماعات میں آگ لگائیں گے، لوگوں کے جذبات ابھار کر کشت و خون کا بازار گرم کریں گے۔ یہ دہشت گرد را، سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ ہیں۔ جنہیں مذہبی رہنماؤں کے روپ میں باقاعدہ مختون کرکے داخل کیا گیا ہے۔

یوں اس بار محرم میں حکومت کو محتاط روی سے کام لے کر شیعہ سنی مجالس و کانفرنسز سے خطاب کرنے والوں کی ٹھوس شناخت کا بندوبست کرنا ہوگا۔ تمام مکاتب فکر کے مستند علماء پر مشتمل مانیٹرنگ سیل قائم کئے جائیں جو کسی بھی ناگہانی صورت حال کی صورت میں فوری کارروائی کرکے فتنہ و فساد کو پھیلنے سے روکیں۔ سرکاری امن کمیٹیوں میں سے شیعہ اور بریلوی سنیوں کا کوٹہ کم کیا جانا بھی دہشت گردی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے انہیں بھی امن کمیٹیوں میں متناسب نمائندگی دی جائے۔ صرف ایک فرقہ کو نواز کر حکومت یک طرفہ فیصلے کرانا چاہتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 416504
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش