0
Monday 12 Apr 2010 11:54

آیت اللہ باقرالصدر اور صدام

آیت اللہ باقرالصدر اور صدام
 آر اے سید
مکافات عمل اسی کو کہتے ہیں کہ ڈکٹیٹر صدام نے جس شخص کو اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ انتہائی مظلومانہ انداز سے گرفتار کر کے سخت ترین تشدد کے بعد شہید کیا تھا آج اس عظیم شخصیت یعنی آیت اللہ سید محمد باقر الصدر کی برسی عراق سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں انتہائي احترام اور عقیدت کے ساتھ منائی گئی۔شہید باقرالصدر کا شمار ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صدام نے اپنے پورے دور حکومت میں جتنے عراقیوں کو قتل کیا،اسلام کے لئے اس کا نقصان اتنا بڑا نہیں،جتنا ایک فرد یعنی آیت اللہ باقر الصدر کی شہادت کی وجہ سے دین اسلام اور امت مسلمہ کو پہنچا ہے۔
آپ کو اور آپکی عالمہ اور مجاہدہ بہن سیدہ بنت الہدی کو صدام نے 1980ء میں گرفتار کر کے سخت ترین تشدد اور شکنجے کے بعد گرفتاری کے تین دن کے اندر شہید کر دیا تھا،کتنی عجیب بات ہے کہ صدام کی حکومت کا خاتمہ بھی عین اسی دن ہوا جس دن صدام نے شہید آیت اللہ باقر الصدر اور ان کی ہمشیرہ کو شہید کیا تھا۔عراق میں اس دن جہاں باقرالصدر کی برسی منائی جاتی ہے وہاں صدام حکومت کے خاتمے پر خدا کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
دارالحکومت بغداد میں شہید آیت اللہ محمد باقرالصدر کی اکتیسویں برسی نہایت عقیدت و احترام سے منائي گئي۔اس موقع منعقدہ تقریب میں حکومت کے اعلی عھدیداروں نے بھی شرکت کی۔آیت اللہ شہید محمد باقرالصدر کی برسی کی مجلس میں سب سے پہلے عراق کے صدر جلال طالبانی نے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ آيت اللہ صدر کی شہادت سے ملت عراق کا شیدید نقصان ہوا۔وزیراعظم نوری المالکی نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہید صدر کے افکار اور زندگي ہمارے لئے نمونہ عمل رہیں گے۔
عراق میں گزشتہ چند دنوں میں چند ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس نے عالمی میڈیا اور عالمی برادری کی توجہ کو ایک بار پھر عراق کی طرف مبذول کر دیا ہے۔نو اپریل صدام کی ڈکٹیٹر حکومت کا خاتمہ ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ قابض امریکی افواج کے عراق پر قبضے کا آغاز بھی ہے۔گزشتہ روز عراق کے مختلف شہروں بالخصوص نجف اشرف میں قابض افواج کے خلاف بھرپور عوامی مظاہرہ ہوا ہے۔ مظاہرین نے اپنے نعروں اور مقررین نے اپنی تقریروں میں قابض امریکی افواج کے مظالم کی نشاندہی کرتے ہوئے غیر ملکی افواج کے فوری انخلاء کا مطالبہ کیا۔عراق کے عوام اگرچہ صدام حکومت کے خاتمے پر بہت زیادہ خوش تھے لیکن قابض افواج کے اقدامات نے آہستہ آہستہ اس مٹھاس اور خوشیوں کو تلخیوں اور غموں میں تبدیل کر دیا۔قابض افواج نے ابو غریب اور عراق کے دوسرے عقوبت خانوں میں عراقی عوام کا اس طرح کا استحصال کیا کہ عراق کی موجودہ نسل تو اپنی جگہ نئي نسل بھی امریکہ سے شدید نفرت کرتی ہے۔چادر چار دیواری کے احترام کا خاتمہ،معمولی شک پر عام شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا،جمہوری اقدامات کے راستے میں نت نئی رکاوٹیں کھڑا کرنا چند ایسے اقدامات ہیں جس نے عراق کو ایک غیر معمولی بحران سے دوچار کر رکھا ہے۔ 
ان تمام منفی ہتھکنڈوں کے علاوہ قابض افواج نے اپنے مفادات کے لئے دہشت گردی اور تشدد پسندی کا جو بیج بویا ہے اس کے اثرات مدتوں تک عراقی معاشرے پر چھائے رہیں گے۔عراق،جہاں اسلام کے نام پر مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان ہمیشہ سے رواداری رہی،لیکن امریکی ایما پر عراق کے عرب ہمسایہ ملکوں بالخصوص سعودی عرب اور اردن نے مذہب اور فرقہ کے نام پر جو گھناونا کھیل کھیلا ہے عراقی تاریخ اسے ہرگز فراموش نہیں کرے گی۔کسی ملک پر قبضے کے بعد قابض افواج اس ملک کے امن و امان کی ذمہ دار ہوتی ہے،لیکن عراق کے آگاہ ذرائع کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ امریکہ بعث پارٹی کے سابق عہدیداروں کو عراقی حکومت کے خلاف بھڑکاتا ہے جبکہ سعودی عرب ڈالروں،ریالوں اور جدید ترین ہتھیاروں کے ذریعے بعث پارٹی کے ان زرخرید ایجنٹوں اور مذہبی جنونیوں کو خودکش حملوں کار بم دھماکوں اور سڑک کنارے بم نصب کر کے عام شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیلتا ہے۔ گزشتہ ہفتے بم دھماکوں کی جو سیریز دکھائی گئی،جس میں ایران،مصر،جرمنی،برازیل اور شام و غیرہ کے سفارتخانوں کے سامنے بم دھماکے کئے گئے،کیا یہ دھماکے کرنے والے محب وطن اور عراقی عوام کے دوست ہو سکتے ہیں؟ چار سو کے قریب بے گناہ افراد کو موت کی گھاٹ اتارنا نہ مذہبی خدمت ہوسکتی ہے اور نہ ہی حب الوطنی کے اظہار کا طریقہ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جن قوتوں نے یہ وحشیانہ بم دھماکے کئے ہیں انکا نہ اسلام اور دین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی انہوں نے اس اقدام سے وطن کی خدمت ہے۔عراق کے ایک معروف رہنما احمد چلبی نے ان دھماکوں پر بڑا معنی خیز تجزيہ کیا ہے ان کا کہنا ہے دہشت گردوں نے حکومت سازی کے عمل میں تاخیر کو اپنے سامنے رکھ کر یہ گھناؤنی سازش رچائی اور اگر حکومت سازي کا عمل جلد مکمل نہیں ہوا،تو بعید نہیں دشمن اس روش کو دہرانے کی کوشش کرے۔
صدر گروپ کی دعوت پر نجف اشرف میں ہونے والے امریکہ مخالف مظاہروں میں اہلسنت کی اہم شخصیات اور بڑے بڑے قبائل کے سردار بھی شامل تھے۔نجف اشرف کے اس عظیم الشان عوامی مظاہروں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عراق میں ہر طبقہ فکر اور زندگي کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد امریکی موجودگي کے خلاف ہیں اور وہ قابض افواج کے جلد از جلد انخلا کو عملی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں دوسری طرف وہ گروہ جو عراق میں امریکی افواج کی موجودگي پر راضي ہے وہ دھماکوں اور دہشت گردانہ اقدامات سے عالمی برادری کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ عراق میں امن و امان کی برقراری کے لئے بیرونی افواج کی موجودگي ضروری ہے امریکی حکام بھی اسی گروہ کو دامے درمے سخنے مدد کر رہے ہیں،کیونکہ دہشت گردوں کے یہ اقدامات امریکہ کو یہ جواز مہیا کرتے ہیں کہ وہ عراق پر مزید قابض رہیں۔
عراق پر امریکی قبضے کے سات سالوں میں امریکہ عراق کے تیل پر قابض رہا،عراق کی تعمیر نو کے لئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی امداد امریکیوں کے کنٹرول میں رہی جبکہ امریکہ کی پرائیویٹ کمپنیوں نے عراق کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور عراق کے وسائل کو جس بے دردی سے تباہ و برباد کیا،اس سے صدام کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گئی۔امریکہ جمہوریت کے نفاذ اور عراقی عوام کو صدام کے ظلم وستم سے نجات دلانے کے بہانے عراق پر قابض ہوا تھا لیکن عراق میں گزشتہ دنوں جو ویڈیو فلم ریلیز کی گئی اس نے امریکہ کے تمام دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔یہ فلم سن دو ہزار کے ایک دلخراش واقعے کی حقیقی فلم ہے جس میں امریکی فوجی آپاچی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نہتے عراقی عوام کا شکار کر رہے ہیں۔اس وحشتناک فلم میں امریکی فوجیوں نے ایک گن شپ ہیلی کاپٹر کے ذریعے بارہ عام شہریوں کو بغداد کی گلیوں میں بغیر کسی جرم کے گولیوں سے بھون ڈالا،مرنے والے افراد میں رویٹر خبررساں ایجنسی کے دو رپورٹر بھی شامل تھے۔
اس فلم کے واقعے کے بارے میں ایک چھ سات سالہ عراقی بچے نے ذرائع ابلاغ کے سامنے جو روداد بیان کی ہے اس کو سن کر ہر باشعور انسان کے ذہن میں امریکی فوجیوں کا وحشیانہ چہرہ مجسم ہو جاتا ہے۔یہ بچہ کہتا ہے میرا باپ اور بھائي گلی میں موجود زخمی کو اٹھانے کے لئے گئے تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اسی ہیلی کاپٹر سے جس سے کچھ دیر پہلے گلی میں موجود عام افراد کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا،اسی ہیلی کاپٹر سے ان افراد پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئي جو زخمیوں کو اٹھا رہے تھے۔میرا باپ بھی گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں سے ایک تھا۔اس فیلم میں ایک گاڑی بھی دکھائی گئي ہے جس میں دو کم سن بچے سوار ہیں اور امریکی آپاچی ہیلی کاپٹر ان پر اندھا دھند فائرنگ کر رہا ہے۔اس ویڈیو فلم میں دکھایا جانے والا یہ واقعہ ان واقعات میں سے ایک معمولی نوعیت کا واقعہ ہے جو امریکہ نے گزشتہ سات سالوں میں عراق میں انجام دیئے ہیں عراق پر امریکہ کے سات سالہ قبضے نے اس ملک کو بدامنی،بے سرو سامانی اور دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔اب جبکہ عراقی قیادت اور عراقی عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت جمہوری سفر کا آغاز کیا ہے تو امریکہ اس پر بھی خوش نہیں ہے اس نے اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے پہلے انتخابات میں گنتی کے عمل میں ہیرا پھیری کی اور اب سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے تشدد اور تفرقے کی سیاست کو فروغ دے رہا ہے
آج ایک بار پھر آیت اللہ شہید باقر الصدر کے افکار و نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے عراقی عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس عظیم اور مجاہد عالم دین کے نقش قدم پر چلیں۔شہید باقرالصدر فرمایا کرتے تھے کہ تم امام خمینی(رح) کی ذات میں اس طرح ضم ہو جاؤ جس طرح وہ اسلام میں ضم ہو چکے ہیں۔آج عراقی عوام بھی تمام قومی،قبائلی،علاقائی،سیاسی خاندانی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام اور امام خمینی(رح) کے افکار و نظریات میں ضم ہو جائیں اور ایک اسلامی و فلاحی حکومت کا قیام عمل میں لاکر قابض طاقتوں اور مداخلت کرنے والے ملکوں کے ارادوں کو خاک میں ملا،دیں۔
خبر کا کوڈ : 23490
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش