0
Sunday 20 Apr 2014 00:30

جناب سیدہ فاطمہ زہرا، اسوہ کامل

جناب سیدہ فاطمہ زہرا، اسوہ کامل
تحریر: علی ناصر الحسینی

ہمارے پیارے نبی اکرم ؐ کی اکلوتی و پیاری دختر گرامی، زوجہ امیر المومنین علی ابن علی طالب علیہ السلام، مادر حسنین کریمین، حضرت فاطمہ (س) عصمت و طہارت کا ایسا نمونہ تھیں جو آج کی خواتین کیلئے بھی اسی طرح قابل رشک ہیں جیسے آج سے چودہ صدیاں قبل تھیں، آپ سلام اللہ اپنے باپ کی ڈھارس ،مونس اور غم خوار تھیں خدا نے آپ کو یہ سعادت بخشی کہ سلسلہ امامت کی کڑیاں آپ سے چلیں اور اس سلسلہ کی آخری کڑی (حضرت مہدی عج) دنیا جن کی منتظر ہے وہ بھی آپ کی نسل سے ہوں گے۔ اگر آج کی عورتیں جناب سیدہ فاطمہ طاہرہ (س) کی زندگی اور اسوہء طاہرہ پر عمل کریں تو ہمارا معاشرہ قابل رشک، پاک و پاکیزہ اور صحت مند ہونا لازمی ٹھہرے گا جبکہ نسوانیت جو شدید مشکلات سے دوچار ہے آج کے افراتفری سے لبریز دور میں بھی عفت مآبی اور قابل احترام سمجھی جائے گی۔ جناب سیدہ (س) کی حیات طیبہ اپنے دامن میں بے شمار گراں قدر دروس لیے اور وہ تمام اسباق جو ہمیں ان عظیم خاتون کی حیات طیبہ سے حاصل ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک پر اگر تفصیلی روشنی ڈالی جائے تو کئی ضخیم کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ہم ان کی زندگی بالخصوص انکی استقامت اور قیام کے حوالے بےحد خوبصور ت مثالیں اپنے لئے نمونہ قرار دیکر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ خواتین کیلئے آپ کا ہر عمل اور قول مکمل نمونہ عمل ہے، آپ بچپن سے ہی بےحد سادہ اور حیا پسند تھیں۔ کفار و مشرکین کی طرف سے آپ اپنے والد گرامی کو دی جانے والی ایذاؤں پر بہت زیادہ دکھ محسوس کرتی تھیں جب ایک بار آپ پر ابوجہل نے عقبہ کے ذریعے حالت نماز میں اونٹ کی اوجھڑی ڈالوئی تو آپ کو اس کی خبر ملی آپ اس وقت صرف پانچ چھ برس کی تھیں اور آپ نے کسی کا خوف محسوس نہیں کیا اور دوڑی آئیں، اوجھڑی ہٹائی اور عقبہ کو بددعا دی الغرض آپ کو خدا نے جو سعادتیں بخشی ہیں اس کا کوئی نعم البدل نہیں تھا، آپ بیک وقت اکلوتی بنت نبی آخر (ص)، زوجہ امیر المومنین (ع) ،اور مادر حسنین کریمین (ع) جنہیں رسول اللہ (ص) نے اپنے بیٹے فرمایا تھا۔

حضر ت فاطمہ(س) کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) کی بہت سی احادیث ملتی ہیں جن سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
فاطمہ (س) میری پارہ جگر ہے، جس نے اسے غضبناک کیا مجھے غضبناک کیا-
* فاطمہ (س) میرا جزو بدن ہے، جس نے اسے اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت دی-
* مریم (س) اپنے دور کی ساری عورتوں سے افضل تھیں البتہ فاطمہ (س) ہر دور کی عورتوں سے افضل ہے۔
* فاطمہ(س) جنت میں داخل ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی۔
* فاطمہ(س) جس سے ناراض ہوتی ہیں اس سے خدا ناراض ہوتا ہے- جس سے فاطمہ(س) خوش ہوتی ہیں اس سے خدا بھی خوش ہوتا ہے۔
* فاطمہ(س) آیت تطھیر کی مصداق تھیں، آپ ہی سورہ ء کوثر کی مصداق ٹھہریں ا ور آپ ہی آیت مباہلہ میں نمایاں ترین کردار کی حامل نظر آئیں۔ سیدہ سلام اللہ کے مختلف القاب ذکر ہوئے ہیں جو رسول خدا (ص) نے عطا کیے تھے مثلا ام الآئمہ، البتول، سیدۃ النساء العالمین، راضیہ، مرضیہ، عابدہ، زاہدہ، ساجدہ، صابرہ، طاہرہ، خاتون جنت وغیرہ- ہر لقب اس وقت ملا جب عملاً آپ اس پر کار بند رہیں ظاہر ہے پہلے امتحان ہوتا ہے بعد میں سند ملتی ہے وگرنہ کئی اولوالعزم پیغمبروں کی بیویاں بھی ایسے القابات سے محروم نظر آتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جہاں اب خواتین کی تعداد مرد حضرات سے بڑھ چکی ہے اگر خواتین اپنا آئیڈیل سیدہ (س) کو قرار دے کر زندگی گذاریں تو خاندانوں اور برادریوں میں پڑنے والی پھوٹ اور لڑائی جھگڑوں کی نوبت ہی نہ آئے اور معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نظر آئے۔ زندگی میں کام کی تقسیم ، زندگی کا ایک قانون اور گھریلو زندگی میں توازن کا باعث ہے۔ گھریلو و خانوادگی زندگی میں ہر مرد اورعورت کے لئے بعض ذمہ داریوں کو سنبھالنا لازمی و ضروری قرار پاتا ہے ان ذمہ داریوں اور کاموں کی تقسیم میں عدالت۔

اور مصلحت کا یہ تقاضا ہے کہ ایسے کام کہ جن کے لئے بدنی و جسمانی طاقت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے انہیں مردوں کو، اور جو کام عطوفت و مہربانی اور زیادہ مہر و محبت کے حامل ہیں انہیں عورتوں کو سونپا جائے، اس بنا پر اسلام میں ماں کا کردار عورتوں سے اور روزی کی تلاش کا کام مردوں سے مخصوص ہے لیکن گھریلو کام کس طرح سے انجام دیا جائے؟ کیا اسلام اسے عورتوں کی ذمہ داری قرار دیتا ہے یا مردوں کی؟ اسلامی نقطہ نگاہ سے، اخلاقی و جذباتی پہلو سے عورت گھر کے کام انجام دینے کے لئے زیادہ مناسب ہے لیکن اسلامی قانون کے اعتبار سے اصولی طور پر گھر کے کام عورت کے سر تھوپنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس قسم کے کاموں میں عورتوں کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے ۔ گھرانے میں عورت کی ذمہ داری صرف اور صرف شوہر کی خدمت اور شوہر سے وفاداری کرنا ہے۔ لیکن بچے کو دودھ پلانا، برتن دھونا، کپڑے دھونا اور گھر صاف کرنا عورت کی شرعی ذمہ داری نہیں ہے۔ امام خمینی (رہ) اس سلسلے میں فرماتے ہیں۔ " شوہر کو یہ حق نہیں ہے کہ زوجہ کو گھر کے کام اور خدمت پر مجبور کرے۔" اگرچہ اسلام نے گھر کے کام کی انجام دہی کو ہرگز عورت پر مسلط نہیں کیا ہے تاہم اخلاقی پابندیوں کے ذریعے عورت سے یہ تقاضا ضرور کیا ہے کہ گھر کے امور انجام دینے میں کوتاہی نہ کرے اور اسے ایک طرح کی عبادت سمجھ کر انجام دے۔ ظاہر ہے کہ گھریلو زندگی میں توازن برقرار کرنے کے لئے کام کی تقسیم لازمی امر ہے اور اسی بنیاد پر مردوں کو گھر سے باہر کے سخت کاموں کو انجام دینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) عورتوں کو خطاب کرکے فرماتے ہیں ہر وہ عورت جو شوہر کے گھر میں کوئی کام انجام دے اور اس کا مقصد گھر کے امور کی اصلاح ہو تو خداوند عالم اس پر نظر رحمت کرتا ہے اور جس پر خدا نظر رحمت کردے اس پر عذاب نہیں ہوگا۔ گھر کے حوالے سے عمومی طور پر ہمارے اسلامی معاشروں میں عورتیں بہت زیادہ ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں بلکہ کسی بھی گھر کی سجاوٹ، صفائی، اور اس کی ترتیب و تزئین سے عورت کی سلیقہ شعاری کا اندازہ لگایا جاتا ہے، گھر کے داخلی ماحول سے ہی عورت کے مزاج اور طبیعت کا پتہ چلتا ہے، سیدہ سلام اللہ گھریلو کاموں کو بہتر انداز میں تقسیم کر کے گھر کا نظام چلاتی تھی، سیدہ سلام اللہ نے جس انداز میں مولا امیر المومنین علیہ السلام کیساتھ زندگی گذاری ہے وہ آج کی خواتین کیلئے عملی نمونہ اور اسوہ کامل ہے۔ آپ کو علماء "ناصرہ ولایت" بھی کہتے ہیں اس لئے کہ آپ نے امیر المومنین اور اپنے حق کے حصول میں تاریخی جدوجہد کی بلکہ اسی راہ میں اپنی زندگی بھی قربان کر دی، یہ بھی ایک درس اور سبق ہے ہماری خواتین کیلئے کہ اپنے حق کے دفاع کیلئے اگر جان بھی چلی جائے تو اس کی پرواہ نہیں کرنے چاہیئے۔ رسول اللہ  جسے اس قدر چاہتے اور پیار کرتے تھے اس ہستی پر بابا کی رحلت کے بعد جو مصائب آن پڑے وہ تاریخ کا سیاہ دور ہیں۔ سیدہ سلام اللہ نے بڑے دکھ کیساتھ فرمایا کہ اے بابا آپ کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں آن پڑیں کہ اگر دنوں پر پڑتیں تو سیاہ راتوں میں بدل جاتے جبکہ رسول اللہ (ص) نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے آزار یا تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی یقیناً جس نے رسول ؐ اکرم کا قلب دکھایا اس نے خدا کو غضب ناک کیا، سیدہ سلام اللہ اتنی دکھی ہوئیں کہ بہت تھوڑے عرصہ کے بعد اپنے بابا کے پاس چلی گئیں مگر بہت سے نامور لوگوں سے سخت ناراض رخصت ہوئیں۔

بنت رسول کو اس قدر دکھ ملے کہ ان کا جنازہ بھی رات کی تاریکی میں خاموشی سے اٹھایا گیا اور ان کی وصیت کیمطابق کسی کو بھی جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی بس گھر کے افراد یعنی حسن و حسین علیہما السلام، عقیل اور باوفا صحابی سلمان فارسی، عمار، ابوذر، اور بعض روایات میں عباس، فضل، حذیفہ، ابن مسعود اور بریدہ کا نام بھی آیا ہے جبکہ قبر سیدہ سلام اللہ کو بھی ظاہر نہیں کیا گیا تاکہ محفوظ رہے۔ معروف طور پر آپ کا مدفن جنت البقیع ہے ورنہ سیدہ کے گھر کا صحن، قبر رسول یا منبر رسول بھی لکھا گیا ہے۔ سیدہ سلام اللہ کے دکھوں اور مصائب کا اندازہ لگانا ہو یا آپ کی طاغوت کیخلاف جدوجہد کو دیکھنا ہو تو آپ کے خطبات کو پڑھنا چاہیئے،جن میں آپ  نے اتنا کچھ بیان کیا ہے جسے آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی بےمثال و بےنظیر کہا جا سکتا ہے، اس خطبہ میں جو آپ نے صحابہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ علماء نے سات محوروں میں تقسیم کیا ہے یعنی سات باب قائم کئے گئے ہیں، پہلا باب توحید، خدا کی صفات، اسماء الہی اور غرض خلقت پر بحث کرتا ہے، دوسرا باب پیغمبر اکرم کی عظمتوں کا ذکر کرتا ہے اور ان کی عظیم ذمہ داریوں نیز مقاصد کو بیان کرتا ہے، تیسرا باب اللہ کی پاک اور لاریب کتاب کی اہمیت، اسلامی تعلیمات کی گہرائی، احکام کے اسرار و رموز، اور نصیحتوں کا تذکرہ کرتا ہے، چوتھا باب اپنے تعارف کیساتھ ساتھ اس امت کیلئے اپنے باب یعنی پیغمبر اکرم کی خدمات، اور عربوں کی جاہلیت و قدیم حالات کا بعد از پیغمبر  کے حالات سے موازنہ کیا گیا ہے، پانچواں باب پیغمبر اکرم ؐ کی رحلت کے بعد رونما ہونے والے واقعات، منافقین کی پراسرار اور ان سازشوں کا تذکرہ جو وہ اسلام کو نابود کرنے کیلئے کر رہے تھے، چھٹا باب فدک کے چھن جانے اور ان حیلوں بہانوں پر مشتمل ہے جو اسے غصب کرنے کیلئے تراشے گئے، ساتواں باب پیغمبر اکرم ؐ کے اصحاب و انصار کو مخاطب کیا گیا ہے ان پر اتمام حجت کیا گیا ہے، ان سے تعاون طلب کیا گیا ہے، اور آخر میں خدا کے دردناک عذاب کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ اس تاریخی خطبہ کے بعد اس وقت موجود انصار و مہاجرین کو علم ہوا کہ بنت نبی کس قدر پراثر خطیب اور حالات پر گہری نگاہ رکھنے والی ہیں اور ان کا استدلال کس قدر قوی اور جاندار ہے۔

سیدہ زینب و ام کلثوم سلام اللہ کے درباروں اور بازاروں میں تاریخی خطبات یقیناً اپنی والدہ گرامی کی میراث کہے جا سکتے ہیں۔ آج ہم سب بالخصوص عورتوں کو پڑھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاشرے کی ناہمواریوں کیخلاف اسے اسوہ قرار دے کر جدوجہد کی مشعل روشن کی جا سکے، آج چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جنت البقیع میں واقع آپ کی قبر پر پہرے ہیں اور بادشاہان وقت کے محلات تو روشن ہیں مگر آپ کی قبر پر اندھیرا ہے،تین جمادی الثانی کے دن پوری دنیا میں آپ کی شہادت کا دن منایا جاتا ہے،جبکہ 20جمادی الثانی کو یوم ولادت و آمد مبارک کا دن ہوتا ہے، یہ بات بھی بےحد خوش آئند ہے کہ سالار حریت، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کا یوم ولادت بھی 20جمادی الثانی ہی ہے۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوہٗ کامل بتول
خبر کا کوڈ : 374105
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش