0
Thursday 23 Jun 2022 19:03

کالعدم ٹی ٹی پی کیلئے شراکت اقتدار کا فارمولا؟

کالعدم ٹی ٹی پی کیلئے شراکت اقتدار کا فارمولا؟
تحریر: توحید عباس

مملکت خداداد پاکستان دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ افغان جنگ میں شرکت سے اس میں اضافہ ہوا۔ افغان جنگ سے پہلے امریکی استعمار نے ایٹمی پاکستان کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو سزا دلوائی، جس سے پاکستانی عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے اور خلیج میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے بعد روس کیخلاف جنگ میں امریکی اتحاد میں شمولیت اور فرنٹ لائن اتحادی کے اسٹیٹس کے باوجود جنگ کے منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے۔ روس کی افغانستان سے واپسی یا شکست کے بعد افغانستان بدترین بحران کی لپیٹ میں آگیا، ایک دفعہ پھر اس کے اثرات بھی پاکستان پر مرتب ہوئے۔ 1988ء میں سولین حکومت بنی، لیکن سیاسی فیصلوں میں آزادی نہ ہونے کی وجہ سے نہ احتساب کا نظام قائم ہوسکا، نہ ہی تسلسل قائم رکھنے اور پائیدار اصولوں پر مبنی پالیسیاں اختیار کی جا سکیں۔ البتہ جہادی گروہوں کی سرپرستی کرنیوالی اشرافیہ اور امریکی جنگ میں ڈالر بنانے والوں نے کنگ میکر کی سیٹ نہ چھوڑی۔ دراصل یہ دس سالہ جنگی جہادی مومنٹم تھا، جو افغان جہاد میں شریک اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی مذہبی قوتوں کو مزید دس سال تک اشرافیہ کی اپنی ہی متعین کردہ سمت میں متحرک رکھنے میں معاون ثابت ہوا۔

لیکن جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو جہادی کلچر کے خاتمے کے اعلان سے سیاسی بے یقینی کے خاتمے کی امید پیدا ہوئی۔ مقتدرہ نے نائن الیون کیوجہ سے پیدا ہونیوالے امریکی دباو کو دلیل قرار دیا اور پاکستان کی دفاعی فرنٹ لائن کہلوانے والے جہادی اب فقط نان اسٹیٹ ایکٹرز کہے جانے لگے۔ 70 کی دہائی کے آخر میں روس کی افغانستان میں مداخلت کے موقع پر جب ضیاء الحق نے امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو اس وقت اشرافیہ کا دیا ہوا نعرہ یہ تھا کہ یہ جہاد نہ صرف روسی استعمار سے افغناستان کو آزادی دلوائے گا بلکہ پاکستان کے بلوچ ساحلی علاقوں کو بھی سرخ ریچھ کی رسائی سے بچائے گا، اس طرح پاکستانی اور افغانی بھائیوں کے درمیان اشتراک اور اخوت کے احساس اور شعور کیساتھ ریاستی اور غیر ریاستی اداروں میں مثالی اتحاد اور ہم آہنگی پیدا ہوئی اور ایک دہائی تک سعودیہ کے ذریعہ فراہم کیے گئے امریکی مالی وسائل کے بل بوتے پر چلتی رہی اور افغان جہادی گروہ اور شخصیات کیلئے پاکستان دوسرا گھر پایا۔

روسی افواج کے افغانستان سے جانے کے بعد بھی افغانستان میں سیاسی عمل جاری رکھنے کے نام پر ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کو مورد اعتماد سمجھتے ہوئے، افغان قیادت نے پاکستانی اشرافیہ سے مشاورت کا عمل جاری رکھا، کابل میں اقتدار کی جنگ شروع ہونے تک مجاہدین کے گروپوں، افغان سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے جماعت اسلامی، جے یو آئی، سابق جرنیلوں سمیت پاکستانی اشرافیہ کو افغان امن عمل میں بھروسے کے ساتھ شریک رکھا۔ لیکن کابل مسلسل بدامنی کا شکار رہا، بالآخر ملا عمر مرحوم کی قیادت میں افغان طالبان منظم ہوئے یا کیے گئے اور انہوں نے کابل پر اپنا پرچم لہرایا اور بظاہر ایک قوت افغانستان پر حکمران ٹھہری۔ 80 کی دہائی میں عرب ممالک سے آئے ہوئے یا لائے گئے مجاہدین نے القاعدہ کے نام سے جو تنظیم بنائی، اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کابل میں افغان طالبان کے مہمان تھے۔ 80 کی دہائی میں روس افغانستان آیا، پوری دہائی جنگ رہی، 90 کی دہائی میں مقامی افغان گروپوں کے درمیان جنگ اور خانہ جنگی رہی۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا بہانہ کرکے پھر افغانستان پر حملہ کر دیا، اگلی دو دہائیاں بھی بدامنی اور قتل و غارت کی نذر ہوگئیں۔

پاکستان گذشتہ بیس سال یعنی جنرل مشرف کی طرف سے امریکی اتحاد میں شمولیت کے بعد سے اب تک پاکستان براہ راست دہشت گردی اور قبائلی علاقوں میں بغاوت پر مبنی سرکشی کا شکار ہے۔ دہشت گردی تو پاکستانی عوام کیخلاف ہو رہی ہے، لیکن بغاوت پر مبنی سرکشی مسلح افواج اور پیراملٹری فورسز کیخلاف ہے۔ 80 اور 90 کی دہائیوں میں پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی پاکستان کے بڑے شہروں تک محدود تھی، جس کی پشت پر بھارتی ایجنسی را کا ہاتھ تھا اور روسی کے جی بی ملوث تھی۔ پاکستانی سرخے اور پیسوں کی خاطر کام کرنیوالے را کے ایجنٹ اس بھیانک عمل کا حصہ تھے۔ دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی الذولفقار ضیاء الحق سے انتقام لینے کی کارروائیوں میں ملوث رہی۔ 80 کی دہائی میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے، لیکن نوبت قتل و غارت تک نہیں پہنچی۔ گلگت اور کوئٹہ میں عالمی استعمار کے اشاروں پر انقلاب اسلامی ایران اور فلسطینوں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، لیکن یہ امریکی اشاروں پر ہونیوالے ناجائز آپریشنز تھے، نان اسٹیٹ ایکٹرز یا فرقہ وارانہ گروپوں کی متشدد کارروائیاں نہیں تھیں۔ شاید سارے جتھے افغانستان میں مصروف تھے۔

لیکن 90 کی دہائی میں جب روس افغانستان سے چلا گیا تو پاکستانی سیاسی مذہبی جماعتوں میں سے ایسے گروہ برآمد ہوئے، جنہوں نے پورے پاکستان کو خون میں نہلا دیا۔ ملک کے طول و عرض میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم تھا۔ کوئی شہری محفوظ نہیں تھا۔ اس دوران مقامی اشرافیہ اور مذہبی سیاسی جماعتیں دراصل اپنے آپ کو افغانستان میں سیاسی استحکام پیدا کرنیوالا سب سے بڑا ذمہ دار سمجھ کر شیعہ مسلمانوں کی قتل و غارت سے صرف نظر کرتی رہیں۔ اشرافیہ میں موجود جہادی عناصر وسط ایشیاء اور یورپ کی دہلیز تک جہادی ریاست کا خواب دکھاتے ہوئے پاکستان کے گلی کوچوں میں شیعہ پروفیشلز، علمائے کرام، واعظین، مقررین، ذاکرین، فعال خواتین اور عزاداروں کے بہنے والے خون کو حقیر جانتے ہوئے اسے معمولی مسئلہ قرار دیتے رہے۔ ضیاء الحق کے اسلامی نظام کے نعرے اور جہاد افغانستان کی کھوکھ سے جنم لینے والے وسیع تر جہادی ریاست کے خواب نے اسلام کا روپ دھارے طاقتور لوگوں کو فرعون بنا دیا تھا۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد مشرف کی طرف سے امریکی اتحاد میں شمولیت کے فیصلے نے جہاد کے نام پر امریکی امداد سے پھولائے گئے غبارے سے اسوقت ہوا نکال دی، جب ان جہادیوں کے لیے غیر ریاستی عناصر کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔ پہلے یہ جہادی کہلاتے تھے، جو پاکستان، افغانستان سمیت پوری دنیا میں اپنے آپ کو اسلامی مفادات کا محافط سمجھتے تھے۔ جہادیوں کو ریاستی سے غیر ریاستی عناصر کا درجہ دینے کے جنرل مشرف کے فیصلے کو بھی جنرل ضیاء کے فیصلے کی طرح ریاستی اور سرکاری حیثیت حاصل تھی، ضیاء الحق کے سرکاری فیصلے سے غیر ریاستی عنٓاصر کی حیثیت اور اسٹیٹس سرکاری اور ریاستی تھا، جو کہ اچانک مشرف کے سرکاری اور ریاستی فیصلے سے غیر ریاستی عناصر میں بدل گیا۔ اس سے پل بھر میں ان گروہوں کی منافقت پر مبنی حب الوطنی اور اسلام دوستی کھل کر سامنے آگئی۔ اشرافیہ کیساتھ جہادی گروپوں کا اتحاد مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا، بلکہ اشرافیہ نے ایک نئی پالیسی اختیار کی تھی، یہ جہادی پہلے بھی جانتے تھے کہ اشرافیہ میں بیٹھے لوگ استعماری اور سامراجی پٹھو ہیں، لیکن چونکہ ان کے وارے نیارے تھے، امریکی ڈالروں سے انہیں پورا حصہ مل رہا تھا، اس لیے یہ دھچکا برداشت نہیں کرسکے۔

مشرف دور میں افغانستان میں بے نظیر دور کی بنائی گئی افغان طالبان کی حکومت امریکیوں نے فوجیں لا کر ختم کر دی، اس کے آفٹر شاکس پاکستان میں بیٹھے ہوئے طالبان کے حامیوں اور اپنے آپ کو ان کا حصہ شمار کرنے والوں تک بھی پہنچے۔ آفٹر شاکس سے مراد طاقت اور دولت کی ریل پیل کا خاتمہ تھا۔ افغان طالبان اور پاکستان میں ان کے حامی جہادیوں پر مشتمل وجود میں آنے والی ان کی شاخ تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں امریکہ کیخلاف براہ راست اور بالواسطہ جنگ کے بہانے پاکستان کے طول عرض میں دہشت گردی اور قبائلی علاقوں میں مسلح افواج کیخلاف بغاوت شروع کر دی۔ اس جنگ کی اب پشت پناہی امریکہ اور بھارت مل کر رہے ہیں، اس جنگ نے عفریت کا روپ دھار لیا ہے اور ففتھ جنریشن اسٹائل نے پاکستان کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی کا شکار بنا رکھا ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی اور مشرف کے دور میں بھی، امریکی امداد کی وجہ سے معاشی صورتحال دیوالیہ ہونے کی نوبت تک نہیں پہنچی۔

آج جب ہم دہشت گردی، مسلح سرکشی، بیرونی مداخلت سمیت اس سے ملتے جلتے عوامل کو معاشی کمزوری، ترقی کے عدم تسلسل سے جوڑتے ہیں تو یہ مدنظر رکھنا چاہیئے کہ یہ وہی پاکستان ہے، جس پر امریکی ایماء پر لڑی گئی جنگوں اور دوسرے ملکوں میں مسلح مداخلت جیسی استعماری پالیسی میں ان کا اتحادی بن کر ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے لوگ حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ اس دوران ہونیوالے معاشی، جانی، سماجی اور سیاسی نقصانات کو کیسے نظرانداز کیا گیا۔؟ آج جن حقائق سے عمران خان پردہ اٹھا رہے ہیں کہ ہم نے امریکی ایما پر لڑی جانیوالی جنگوں سے نقصان اٹھایا ہے، یہ حقائق نہیں ہیں، یہ ہماری قومی پالیسیوں کے نتائج ہیں۔ امریکی ڈالروں کی جھنکار نے اشرافیہ کو اندھا کر دیا تھا اور وہ اندھے ہیں۔ نہ وہ پاکستان میں رہیں گے، نہ ان کی اولادیں یہاں ہیں، نواز شریف ملک سے باہر ہے تو جنرل مشرف بھی بیرون ملک سیٹل ہیں۔ ہم صرف ان حقائق کو سمجھ سکتے ہیں، صورتحال کو تبدیل کرنیوالے عوامل کہیں نظر نہیں آتے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کی آئین اجازت نہیں دیتا، لیکن ہو رہے ہیں، جیسا کہ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے کونسا آئین کے مطابق امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے کیے تھے۔ کالعدم ٹی ٹی پی دراصل فوجیوں کی قاتل اور پاکستان کی باغی ہے، پشاور اے پی ایس پر حملے کے بعد ان کی کمر توڑ دی گئی، لیکن ٹوٹی ہوئی کمر کیساتھ بھی انہوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ اے پی ایس پشاور کے زخم تازہ ہیں، لیکن مذاکرات کے نام پر افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان کیخلاف لیورج کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اقتدار اور طاقت کے کھیل کا یہ انوکھا روپ ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے ایماء پر اقتدار میں آئے، لیکن بھارت کیساتھ فوج کی ٹریننگ کے معاہدے کر رہے ہیں، ایسے میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں علاقہ فراہم کر دیا جائے تو وہ افغان طالبان کے ایماء پر افغانی اور بھارتی مفادات کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔ اگر عسکری طور پر وہ خود کو غیر مسلح بھی کرتے ہیں تو افغان طالبان کی حکومت کی موجودگی میں اس کی کیا ضمانت ہوسکتی ہے کہ وہ مختلف بہانوں سے پاک فوج کیخلاف کارروائیوں سے باز آجائیں گے۔

امریکی استعمار کا اتحادی بننے کی پالیسیوں کے اثرات میں سے ہی ہیں یہ کالعدم تحریک طالبان جیسے دہشت گرد قاتل گروہ، البتہ یہ ریاست کے باغی بھی ہیں۔ کابل میں افغان طالبان کی ثالثی اور سرپرستی میں کالعدم ٹی ٹی پی کیساتھ ہونیوالے مذاکرات کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے۔؟ وہ کچھ علاقے لیں گے، اقتدار کے شراکت دار بن جائیں گے، بالکل ایسے ہی جیسے کرپٹ سیاسی اشرافیہ کو اقتدار میں شامل رکھا جاتا ہے، حالانکہ یہ سیاسی پارٹیاں بھی معاشی دہشت گرد ہی ہیں۔ ایسے میں اقتدار میں شراکت اور مین اسٹریمنگ کا کیا مطلب ہے۔؟ یہی کہ مل بانٹ کر زندگی کے مزے لیں۔ افغان طالبان، کالعدم ٹی ٹی پی کو اپنا حصہ اور احسان مند سمجھتے ہیں، وہ پاکستان کیخلاف کالعدم ٹی ٹی پی کو لیورج کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، ورنہ افغان طالبان کو بھارت کیساتھ افواج کی ٹریننگ کرنیکی کی کیا ضرورت تھی، حالانکہ بھارتی جنتیا پارٹی ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہے اور ان کے گھر مسلمان ہونیکی وجہ سے منہدم کیے جا رہے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین اور تضحیک کی جا رہی ہے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کو جس آپریشن کی وجہ سے ضرب لگی، وہ اے پی ایس پشاور واقعہ کے بعد انتقام کا عمل تھا، کیا وہ واپس آتے ہیں تو اے پی ایس پشاور میں شہید ہونیوالے بچوں کے وارثین انہیں برداشت کرینگے۔؟ ہاں کر لیں گے، جیسا کہ کر رہے ہیں اور کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ چونکہ ان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونیوالے ریاست کے وفادار ہیں، مفاد پرست نہیں۔ افغان جہاد میں مذہبی سیاسی جتھوں کی شمولیت کس بنیاد پر تھی۔؟ ملا عمر کے ذریعے افغان طالبان کی بنیاد کس مقصد کے تحت رکھی گئی۔؟ کالعدم سپاہ صحابہ کو کس بنیاد پر مین اسٹریم میں جگہ دی گئی۔؟ بالکل یہی اقتدار میں شراکت کا فارمولا، جیسا کہ کرپٹ سیاسی اشرافیہ کو ایک بار پھر اقتدار میں شامل کیا گیا ہے۔ افغان جنگ میں شمولیت کے جو بدتر معاشی اور سیاسی نتائج برآمد ہوئے، کیا کرپٹ سیاسی اشرافیہ کو اقتدار میں لانے اور رکھے جانے کے اثرات اس سے کم ہیں، ملک دیوالیہ ہونے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔ جس طرح ہماری اشرافیہ افغانستان میں سیاسی اور عسکری مداخلت کو یہ کہہ جواز فراہم کرتی رہی کہ ریاست کا مفاد اسی میں ہے، اسی طرح افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی اب پاکستان میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے طاقت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ ان کی پشت پناہی استعماری طاقتیں کر رہی ہوں، جیسے جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی کر رہی تھیں، جس سے پاکستان بھی کمزور ہوا اور افغانستان کو بھی امن نصیب نہیں ہوا۔ پاکستان رہیگا، لیکن نہیں معلوم کب تک اشرافیہ اسے لوٹتی رہیگی۔
خبر کا کوڈ : 1000704
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش