QR CodeQR Code

کیا نیٹو براہ راست یوکرین جنگ میں شامل ہو گا؟

23 Jun 2022 18:18

اسلام ٹائمز: روس کی جانب سے اپنی فوجی اسٹریٹجی میں یہ تبدیلی اس کی حتمی فتح اور یوکرین کی شکست کے مترادف قرار دی جا رہی ہے۔ دوسری طرف کم از کم امریکہ اور برطانیہ کسی قیمت پر یہ نتائج دیکھنا نہیں چاہتے۔ لہذا ان کی نظر میں یوکرین جنگ میں روس کو حتمی فتح سے محروم کرنے کا ایک طریقہ مغربی فوجی اتحاد نیٹو کی اس جنگ میں براہ راست شامل کرنا ہے۔ امریکی تجزیہ کار راغدہ درغام کی نظر میں یہ فیصلہ عنقریب منعقد ہونے والے میڈریڈ میں نیٹو سربراہی اجلاس کا ایک سرپرائز بھی ہو سکتا ہے۔ وہ نیٹو میں اپنے باخبر ذرائع کے بقول دعوی کرتی ہیں کہ نیٹو فورسز یوکرین میں "اسپشل فوجی آپریشن" انجام دینے کی تیاری کر رہی ہیں۔


تحریر: سید رحیم نعمتی
 
اگلے ہفتے بدھ اور جمعرات، 29 اور 30 جون کے دن اسپین کے دارالحکومت میڈریڈ میں مغربی فوجی اتحاد نیٹو کا سربراہی اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرین جنگ اور یوکرین پر روس کا فوجی حملہ اس اجلاس میں زیر بحث آنے والے موضوعات میں سرفہرست رہے گا۔ جیسا کہ ابھی تک یہ فوجی اتحاد گذشتہ چند ماہ کے دوران یوکرین جنگ کے بارے میں متعدد ہنگامی اجلاس منعقد کر چکا ہے۔ یہ ہنگامی اجلاس سربراہان مملکت یا وزرائے دفاع کی سطح پر منعقد ہوئے ہیں۔ ان اجلاس میں یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی جانب سے روس کے خلاف یوکرین کی مدد کے مختلف طریقہ کار زیر بحث لائے گئے ہیں۔ نیٹو اس وقت بھی انٹیلی جنس شعبے سے لے کر فوجی سازوسامان اور جدید ہتھیاروں تک یوکرین کی مدد کرنے میں مصروف ہے۔
 
امریکہ اور مغربی ممالک روس کے خلاف یوکرین کو زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد تک مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یوکرین کی جانب سے روس کو زیادہ سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ گذشتہ چار ماہ کے دوران امریکہ اور نیٹو کے رکن ممالک نے یوکرین کی ہر طرح سے مدد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مختلف حلقوں کی جانب سے یوکرین جنگ کو امریکہ کی پراکسی وار قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن اب تک نہ تو آمریکا اور نہ ہی نیٹو نے یوکرین جنگ میں براہ راست مداخلت کے بارے میں نہیں سوچا۔ یہ وہ پالیسی تھی جس کا اعلان نیٹو کے جنرل سیکرٹری اسٹالٹبرگ حتی یوکرین جنگ شروع ہونے سے پہلے کر چکے تھے اور جب اس جنگ کا آغاز ہوا تب بھی ان سمیت اعلی سطحی مغربی رہنماوں نے اسی پالیسی پر زور دیا تھا۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک جنگ پھیل جانے اور حتی جوہری جنگ شروع ہو جانے کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر اب تک روسی افواج کے ساتھ براہ راست ٹکراو اختیار کرنے سے کتراتے آئے ہیں۔ لیکن تبدیل ہوتے زمینی حقائق ایسی صورتحال جنم دے سکتے ہیں جس میں مغربی فوجی اتحاد نیٹو مختلف قسم کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہو جائے۔ یہ امکان اس وقت زیادہ قوی ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ یوکرین جنگ میں روس نے بھی اپنی فوجی حکمت عملی میں تبدیلی لائی ہے۔ جنگ کے آغاز پر روس کی فوجی حکمت عملی وسیع پیمانے پر ابتدائی فوجی حملہ انجام دینے پر استوار تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے اور اس وقت وہ مرحلہ وار فوجی اقدامات انجام دینے کی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے۔
 
اس حکمت عملی کے تحت روس اب تک کم رفتار سے آگے بڑھا ہے لیکن مطلوبہ فوجی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ روس کی جانب سے اپنی فوجی اسٹریٹجی میں یہ تبدیلی اس کی حتمی فتح اور یوکرین کی شکست کے مترادف قرار دی جا رہی ہے۔ دوسری طرف کم از کم امریکہ اور برطانیہ کسی قیمت پر یہ نتائج دیکھنا نہیں چاہتے۔ لہذا ان کی نظر میں یوکرین جنگ میں روس کو حتمی فتح سے محروم کرنے کا ایک طریقہ مغربی فوجی اتحاد نیٹو کی اس جنگ میں براہ راست شامل کرنا ہے۔ امریکی تجزیہ کار راغدہ درغام کی نظر میں یہ فیصلہ عنقریب منعقد ہونے والے میڈریڈ میں نیٹو سربراہی اجلاس کا ایک سرپرائز بھی ہو سکتا ہے۔ وہ نیٹو میں اپنے باخبر ذرائع کے بقول دعوی کرتی ہیں کہ نیٹو فورسز یوکرین میں "اسپشل فوجی آپریشن" انجام دینے کی تیاری کر رہی ہیں۔
 
راغدہ درغام کا کہنا ہے کہ نیٹو فورسز یہ آپریشن اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں انجام دیں گی۔ اس قسم کے فوجی آپریشن کیلئے یہ دلیل پیش کی جا رہی ہے کہ یوکرین میں روسی افواج پر حملہ، خود روس پر فوجی حملے سے مختلف ہے لہذا یوں نیٹو ایک طرف روس سے براہ راست ٹکر سے بچ جائے گا جبکہ دوسری طرف یوکرین میں روسی افواج کی پیشقدمی بھی روک دی جائے گی۔ اس امریکی تجزیہ کار کی نظر میں نیٹو فوجی اتحاد کی جانب سے یوکرین جنگ میں اس قسم کی مداخلت کا نتیجہ یوکرین کی فتح کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اسی طرح یوکرین میں روس کی فوجی کاروائی بھی رک جائے گی اور یوکرین جنگ کی صورتحال مکمل طور پر پلٹ جائے گی۔ یہ اقدام مغرب اور روس کے درمیان جاری موجودہ ڈیڈلاک کو بھی ختم کر دے گا۔
 
لیکن یہ فیصلہ مختلف قسم کے چیلنجز سے روبرو ہے۔ پہلا مسئلہ نیٹو کے رکن ممالک کے درمیان اس بارے میں پایا جانے والا اختلاف ہے۔ امریکہ اور برطانیہ، نیٹو کی فوجی مداخلت کے حق میں ہیں جبکہ نیٹو کے دیگر اہم رکن ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور اٹلی اس کے مخالف ہیں۔ جرمنی، فرانس اور اٹلی مذاکرات کے ذریعے یوکرین جنگ کا راہ حل تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں۔ دوسرا بڑا چیلنج روس کی جانب سے وہ دھمکی ہے جس میں روسی حکام نے زور دیا ہے کہ اگر نیٹو اس جنگ میں شامل ہوا تو جوہری جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ اگرچہ نیٹو کی فوجی مداخلت کی صورت میں روس کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کا استعمال یقینی نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی صورت میں یوکرین جنگ مزید شدت اختیار کر لے گی اور صورتحال مزید ییچیدہ ہو جائے گی۔


خبر کا کوڈ: 1000730

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1000730/کیا-نیٹو-براہ-راست-یوکرین-جنگ-میں-شامل-ہو-گا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org