0
Tuesday 20 Sep 2011 21:28

نیا علاقائی اتحاد ابھرنے کے امکانات

نیا علاقائی اتحاد ابھرنے کے امکانات
تحریر:حبیب الرحمان
افغانستان میں قومی جنگ آزادی کے زور پکڑنے کے ساتھ امریکہ کی جھنجھلاہٹ بھی زور پکڑتی جا رہی ہے اور اس نے افغانستان کے اندر طالبان حملوں کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان کے اندر کارروائی کی کھلی دھمکی دیدی ہے اس حقیقت میں شک نہیں کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ کا رویہ ہمیشہ دوستی اور فرنٹ لائن اتحادی کی آڑ میں مخاصمت اور معاندت پر مبنی رہا ہے اور اب یہ راز بھی آشکار ہو گیا ہے کہ امریکہ بظاہر افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے لیکن در پردہ اس نے افغانستان میں مستقل قیام کی منصوبہ بندی کی ہے۔
امریکہ میں مقیم ممتاز پاکستانی نژاد تجزیہ کار مواحد حسین شاہ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ نیو یارک ٹائمز نے 14 ستمبر کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان پر قریبی نظر رکھنے کے لئے افغانستان میں اڈہ بنانے کا خواہاں اور اس کے لئے کوشاں ہے، چنانچہ افغانستان سے امریکی فوجیں نکلنے کے بعد پاکستان کے لئے کڑی آزمائش کا وقت آنے والا ہے کیونکہ 2014ء کے بعد امریکہ کی تمام تر توجہ کا محور پاکستان ہو گا، افغانستان میں امریکہ کے سابق فوجی کمانڈر جنرل پیٹریاس کی بحیثیت سربراہ سی آئی اے اور سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر لیون پنیٹا کی بحیثیت وزیر دفاع تعیناتی اسی طویل المیعاد منصوبہ بندی کا حصہ ہے، وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے قومی ادارے امریکہ کے ان عزائم اور منصوبہ بندی کی پوری خبر رکھتے ہیں، کچھ عرصے سے خاص طور پر دو مئی کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان وفود کے تبادلوں میں تیزی، صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ایک سے زائد بار ایران کے دوروں اور چین، سعودی عرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو تقویت دینے کی سنجیدہ کوششوں کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
وزیراعظم گیلانی نے گیارہ اور بارہ ستمبر کو تہران کا تازہ ترین دورہ کیا ہے، جس میں دونوں ملکوں کے مابین قریبی تعاون بڑھانے کے لئے اہم فیصلے ہوئے ہیں اس سے قبل 9 اور 10 ستمبر کو ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی اسلام آباد میں تھے جہاں وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد وہ صدر آصف علی زرداری سے ملنے کے لئے بلاؤل ہاؤس کراچی گئے تھے، وزیراعظم گیلانی کے ساتھ مذاکرات میں صدر احمدی نژاد نے وعدہ کیا تھا کہ ایران اپنی ضرورت کی تمام اشیاء اور مصنوعات پاکستان سے درآمد کرنے کو ترجیح دے گا۔ مذاکرات میں ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے اور ایران سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی کی درآمد کے منصوبوں پر عملدر آمد تیز کرنے سے اتفاق کیا گیا، دونوں لیڈروں نے افغانستان سمیت خطے کے مسائل کا کسی بیرونی مداخلت کے بغیر علاقائی حل تلاش کرنے پر زور دیا۔ صدر حامد کرزئی بھی جو طالبان اور حزب اسلامی کے ساتھ مصالحت اور انہیں حکومت میں شریک کرنے کے لئے سنجیدگی سے کوشاں ہیں، پاکستانی اور ایرانی رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں اسی مؤقف کا اظہار کر چکے ہیں، جبکہ چین، سعودی عرب اور ترکی بھی یہی چاہتے ہیں، اس سے یہ مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد خطے پر تسلط جمائے رکھنے کے لئے امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کی غرض سے خطے کے ممالک دبے پاؤں علاقائی اتحاد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان قربت و تعاون امریکہ کو کیسے ہضم ہو سکتا ہے، چنانچہ وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے میں جسے چین تک توسیع دی جا سکتی ہے روڑے اٹکانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے، اس سلسلے میں پاکستان کی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کی غرض سے امریکہ نہ صرف تاجکستان اور کرغستان سے گیس پائپ لائن بچھانے کا ڈول ڈال رہا ہے بلکہ اس نے پاکستان کو ایران سے گیس اور بجلی درآمد کرنے سے باز رکھنے کے لئے توانائی کا ایک اعلٰی سطح کا وفد بھی اسلام آباد بھیجا، جس نے پاکستان میں پن بجلی کی پیداوار کے بڑے منصوبوں کے لئے فنی و مالی امداد کی پیشکش کی، امریکی دباؤ کے تحت بھارت ایران پاکستان گیس پائپ لائن سے خود کو الگ کر چکا ہے اور اس کی جگہ چین اس میں شامل ہونا چاہتا ہے، لیکن آفرین ہے پاکستان حکومت پر کہ اس نے شدید امریکی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نہ صرف ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں بلکہ منصوبے پر عملدر آمد تیز کرنے اور ایران سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی درآمد کرنے میں بھی پر عزم ہے۔
 تجزیہ کار اس وقت افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد مستقبل کے ممکنہ علاقائی و عالمی منظر نامے پر نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور امریکی عزائم کی راہ روکنے کے لئے پاک ایران قریبی تعاون کو نئے علاقائی اتحاد کا پیش خیمہ تصور کر رہے ہیں۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل کرنے میں کلیدی کردار جنرل کیانی کا ہے، صدر زرداری نے ویسے بھی خارجہ پالیسی سے متعلق جملہ امور جنرل کیانی اور آئی ایس آئی سربراہ کو سونپ رکھے ہیں چنانچہ پاک امریکہ تناؤ کے تناظر میں معروضی حالات کے پیش نظر خارجہ پالیسی کو نئی شکل دینے کی راہ میں فوج اور آئی ایس آئی کے قدموں کے نشانات صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 100075
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش