QR CodeQR Code

ساس کی ڈائری سے اقتباس

24 Jun 2022 17:38

اسلام ٹائمز: میں جب بھی کسی کو ساس کے بارے برا بھلا کہتے ہوئے سنتی تو مجھے اچھا نہیں لگتا، کیونکہ میں نے اپنی ماں کو سسرالی گھر میں بھی پایا۔ پھر سوچتی کاش ساری ساسیں ایسی ہوتیں، جیسے اللہ نے مجھے عطاء کی۔ جو وہ اپنی بیٹیوں کیلئے پسند کرتی تھیں، وہی میرے لیے بھی۔ ساتھ ساتھ کہتی بھی تھیں کہ حضرت علی ؑ کا قول ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، دوسروں کیلئے وہی پسند کرو۔ *الحمدللہ* مجھ پر خدا کا لطف تھا کہ مجھے ایسا خاندان ملا، جس گھر کی بنیادیں ایسی ہوں، وہاں سے تربیت یافتہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر گھر میں آنیوالی بہو یہ باتیں اور احساسات نوٹ کر لے کہ جب مجھ جیسی اس گھر میں آئے تو اسے نہ زبان سے تکلیف پہنچے اور نہ عمل سے۔


تحریر: مقدر عباس

شادی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ گھر میں پرسکون تھی۔ ایک دن ساس صاحبہ نے یادوں اور تجربات سے وابستہ ایک ڈائری مجھے دی اور کہا یہ تمہارے کام آئے گی۔ ابتدا میں ساس نے اپنی ٹیچر کی وہ نصیحت لکھی تھی کہ جب ٹیچر نے بچیوں سے کہا تھا: جو ہم میں نقائص نظر آئیں، ان کی تکرار نہ کرنا۔ اس کے بعد زندگی کے تلخ و شیریں لمحات درج تھے۔ لکھا تھا! میں اپنے ماں باپ کی لاڈلی بیٹی تھی۔ دھوم دھام سے مجھے سسرال نے خوش آمدید کہا۔ میرے شوہر نے جو پہلی بات مجھے کہی، وہ اب تک یاد ہے۔ اس زندگی کے سفر میں ہماری مثال گاڑی کے دو پہیوں جیسی ہے۔ اگر دونوں بہترین کام کریں گے تو زندگی کا سفر کامیاب رہے گا۔ ہم ایک دوسرے کا لباس ہیں اور لباس کا کام انسان کو معیوب ہونے سے بچانا ہے۔ ہمیں اپنے نقائص کسی تیسرے بندے سے ڈسکس نہیں کرنے بلکہ ہمارا ایک دوسرے پر اعتماد اس قدر ہو کہ کوئی تیسرا فرد جگہ نہ بنا سکے۔ میرے والدین کو اپنے والدین جیسا سمجھنا اور اسی طرح میں بھی۔

دن گزرتے گئے، روزمرہ کے کاموں میں مصروفیت رہتی، آہستہ آہستہ کاموں پر نکتہ چینی شروع ہوئی۔ سوتی زیادہ ہو، میکے کم جایا کرو، ہر وقت بن سنور کر کیوں رہتی ہو اور بھی بہت کچھ۔۔ شوہر کی نصیحت یاد تھی۔ بجائے اس کے کہ بحث و تکرار کرتی، ٹیچر کی بات یاد آئی اور میں نے ڈائری پر یادیں اور احساسات کو منتقل کرنا شروع کیا۔ لکھا تھا کہ جب ایک بہو گھر میں آتی ہے تو پیچھے ایک بستا ہوا آنگن چھوڑ کر آتی ہے۔ دلی وابستگی کھینچ کر میکے گھر لے جاتی ہے۔ لہذا میں اپنی بہو کے اس حق کا خیال رکھوں گی، اس لحاظ سے حق بنتا ہے کہ وہ میکے چکر لگائے اور میں دیکھتی اور سنتی تھی، مجھے میکے جانے سے روکتے اور اپنی بیٹیوں سے کہتے ہر روز چکر لگاتی رہا کرو۔ شوہر کے لیے بیوی کا سنورنا، جس کی دین بھی تاکید کرتا ہے، لکھا تھا ضروری ہے کہ بیوی شوہر کیلئے ملکہ بن کے رہے، لیکن اعتدال کیساتھ۔ گھر کے دوسرے کاموں میں خلل واقع نہ ہو۔

شوہر بیوی کے اکٹھے بیٹھنے پر تبصرہ سننے کو ملتا تھا۔ درج تھا کہ ضروری ہے کہ میاں بیوی اپنے احساسات و جذبات کا ایک دوسرے سے اظہار کریں۔ میری کوشش یہی ہوگی کہ جب میری بہو آئیگی تو اس کو ایک الگ چار دیواری بنا کر دوں گی، تاکہ ان کے ذاتی معاملات میں کوئی مداخلت نہ کرے۔ انہوں نے یہ کرکے بھی دکھایا اور کہا بیٹا دیواریں جدا ہونے سے دل جدا نہیں ہوتے۔ آپ اس قابل ہیں کہ زندگی کے معاملات کو ڈیل کرسکیں۔ لکھا تھا، میرے شوہر نے جو بات مجھے پہلے دن کہی تھی، اس پر خود بھی عمل پیرا تھے۔ انہیں کوئی بھی میرے خلاف بات کرتا تو وہ پہلے مجھ سے آکر معلوم کرتے کہ واقعاً کوئی مسئلہ ہے؟ دوسروں کے سامنے مجھے کبھی تنبیہ نہیں کرتے تھے۔ لکھا تھا کہ میری ساس کیونکہ ایک سادہ اور پڑھی لکھی نہیں تھیں، میں ان کی باتوں پر ناراض ہونے کی بجائے اپنے لیے نصیحتیں سمجھ رہی تھی کہ جب میں اس مرحلے پر پہنچوں تو میرا کردار ایسا نہ ہو۔

ڈائری میرے لیے راہنماء تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے گزرے لمحات، شادی کے پہلے دن سے بچوں کی آمد تک درج کیے تھے۔ صرف لکھا نہیں تھا، اس کو عملی بھی کرکے دکھایا۔ مجھے یاد ہے، گرمیوں کے دن تھے۔ عموماً لوگ آرام کرتے ہیں۔ دروازے پر  دستک ہوئی، کیونکہ بڑی حویلی کے اندر ہی ہماری چار دیواری تھی۔ میں دروازے پر گئی، پوچھا کون؟ ماں جی کی آواز تھی۔ میں نے کہا ماں جی آپ آجاتیں دستک دینے کی کیا ضرورت تھی۔؟ انہوں نے کہا بیٹا، اس وقت آپ کے شوہر گھر ہوتے ہیں اور میں نے قرآن میں پڑھا ہے۔ پھر انہوں نے سورہ نور کی آیت نمبر 58 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دین کا یہی حکم ہے۔ *اے ایمان والو!* ضروری ہے کہ تمہارے مملوک اور وہ بچے جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں تم سے اجازت لے کر آیا کریں، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر، اللہ اس طرح تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

میں جب بھی کسی کو ساس کے بارے برا بھلا کہتے ہوئے سنتی تو مجھے اچھا نہیں لگتا، کیونکہ میں نے اپنی ماں کو سسرالی گھر میں بھی پایا۔ پھر سوچتی کاش ساری ساسیں ایسی ہوتیں، جیسے اللہ نے مجھے عطا کی۔ جو وہ اپنی بیٹیوں کے لیے پسند کرتی تھیں، وہی میرے لیے بھی۔ ساتھ ساتھ کہتی بھی تھیں کہ حضرت علی ؑ کا قول ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، دوسروں کے لئے وہی پسند کرو۔ *الحمدللہ* مجھ پر خدا کا لطف تھا کہ مجھے ایسا خاندان ملا، جس گھر کی بنیادیں ایسی ہوں، وہاں سے تربیت یافتہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر گھر میں آنے والی بہو یہ باتیں اور احساسات نوٹ کر لے کہ جب مجھ جیسی اس گھر میں آئے تو اسے نہ زبان سے تکلیف پہنچے اور نہ عمل سے۔ *ہے کوئی نصیحت لینے والا*؟


خبر کا کوڈ: 1000927

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1000927/ساس-کی-ڈائری-سے-اقتباس

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org