1
Friday 24 Jun 2022 22:57

غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کی بھرپور تیاری

غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کی بھرپور تیاری
تحریر: جہاد ایوب (لبنانی تجزیہ کار)
 
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ "صہیونی رژیم" ایک دہشت گرد، نسل پرست، منظم اور غاصب مسلح گروہ ہے جس کے تمام تر اقدامات اور سرگرمیوں کا مقصد امریکہ اور برطانیہ کے مفادات کی تکمیل کرنا ہے۔ اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ غاصب اور جعلی رژیم زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے۔ غاصب صہیونی رژیم شدید انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہو چکی ہے اور وہ اپنی اس افسوسناک صورتحال پر قابو پانے کیلئے جو اقدامات بھی انجام دیتی ہے، چاہے وہ غدار عرب حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات اور سازباز کی صورت میں ہوں یا فوجی جارحیت کی شکل میں ہوں، سب کے سب بے سود ثابت ہو رہے ہیں۔ البتہ یہ سب کچھ حق پرست قوتوں کی جانب سے اس رژیم کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا نتیجہ ہے۔
 
غاصب صہیونی رژیم نے لبنان کے پانیوں میں یونانی صہیونی کشتی داخل ہونے سے پہلے یونان کے تعاون سے "آگ کے رتھ" نامی جنگی مشقیں انجام دیں۔ لیکن صہیونی حکمرانوں کو اس وقت شدید صدمے سے دوچار ہونا پڑا جب حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے "آگے کے رتھ" نامی ان جنگی مشقوں کی حقیقت سب کے سامنے فاش کر ڈالی جبکہ صہیونی رژیم نے میڈیا ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی ان جنگی مشقوں کے بارے میں بڑی سطح پر مہم چلا رکھی تھی۔ اسلامی مزاحمت کے اس جرات مندانہ اقدام نے خطے کی مساواتیں ہلا کر رکھ دیں۔ سید حسن نصراللہ نے واضح طور پر صہیونی حکمرانوں کو لبنان کے پانیوں میں ممکنہ جارحیت پر سنگین نتائج کی دھمکی دے ڈالی۔ "کیرش" کے علاقے میں گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی صہیونی کشتی یورپ اور امریکہ کی درخواست پر داخل ہوئی تھی۔
 
اسلامی مزاحمت کی جانب سے شدید ردعمل کے بعد صہیونی حکمرانوں کو معلوم ہوا کہ وہ کس قدر بڑی اسٹریٹجک غلطی کر بیٹھے ہیں۔ اسلامی مزاحمت نے انتہائی پرسکون اور نپے تلے انداز میں لبنان کی سمندری حدود کا دفاع کیا اور میڈیا ذرائع پر جاری مہم کو بھی ناکامی کا شکار کر دیا۔ اس سکون کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلامی مزاحمت، غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں پوری طرح تیار ہے اور ہر سطح پر شروع ہونے والے ممکنہ ٹکراو کا مقابلہ کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اسلامی مزاحمت کے رہنماوں نے حتمی فیصلہ کر لیا ہے اور انہیں اس بات کا پورا یقین ہو چکا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ ٹکراو حتمی ہے۔ اسلامی مزاحمت دشمن کو سکھ کا سانس لینے کی ہر گز اجازت نہیں دیتی اور اسی وجہ سے ہمیشہ ہر ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
 
عین ممکن ہے مستقبل قریب میں اسلامی مزاحمت اور صہیونی دشمن کے درمیان براہ راست اور مرحلہ وار جنگ کا آغاز ہو جائے۔ کیرش کے علاقے میں لنگرانداز ہونے والی صہیونی یونانی کشتی پر فوجی حملہ بھی ممکن ہے اور اس بات کا بھی قوی امکان پایا جاتا ہے کہ اسلامی مزاحمت نے اس اقدام کی منصوبہ بندی بھی کر رکھی ہو۔ البتہ اسے انجام دینے کیلئے مناسب وقت اور موقع کی تلاش میں ہے۔ جی ہاں، جنگ کا آغاز عین ممکن ہے اور اسلامی مزاحمت خود کو بدترین حالات سے دوچار ہونے کیلئے تیار کر رہی ہے۔ اسلامی مزاحمت میں شامل تمام گروہ اپنی تمام تر علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دشمن کی فوجی صلاحیتوں کا سراغ لگانے کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرنے میں بھی مصروف ہیں۔
 
اسلامی مزاحمت نے لبنان کی سمندری حدود میں صہیونی کشتی کے داخلے کے بعد غاصب صہیونی رژیم سے جنگ کی پوری تیاری کر لی ہے۔ اس جنگ کے آغاز کے بعد صورتحال مزید شدید ہو جائے گی اور اس علاقے میں جنگ کرنا کوئی آسان کام ثابت نہیں ہو گا۔ اسی طرح یہ جنگ لبنان میں موجود ایک خاص گروہ تک محدود بھی نہیں رہے گی بلکہ لبنان کی تمام وطن پرست قوتیں اس میں بھرپور انداز میں شرکت کریں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی مزاحمت پہلے سے اس ممکنہ جنگ کی مکمل منصوبہ بندی کر چکی ہے۔ ممکن ہے جنگ کی ابتدا مرحلہ وار اور قدم با قدم ہو۔ یعنی مارنے کے بدلے مارنا، حملے کے بدلے حملہ ور ہونا اور ضرب کے بدلے ضرب لگانا۔ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم کے اندر بھی اس ممکنہ جنگ سے شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور صہیونی فوج عوام کی جانب سے شدید دباو میں ہے۔
 
جنگ شروع ہونے کی صورت میں غاصب صہیونی رژیم کو سیاسی، اقتصادی اور سماجی میدان میں شدید مشکلات اور چیلنجز سے روبرو ہونا پڑے گا اور عین ممکن ہے ان مشکلات کے نتیجے میں یہ رژیم اندر سے ہی ٹوٹ پھوٹ اور تباہی و ویرانی کا شکار ہو جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمت نے خود کو ہر پہلو سے جنگ کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ البتہ اسلامی مزاحمت جنگ کی ابتدا نہیں کرے گی اور صہیونی رژیم کی جانب سے شروع کردہ جنگ کے مقابلے ردعمل ظاہر کرے گی۔ اس ممکنہ جنگ میں تمام فوجی ہتھیار، فوجی اسٹریٹجیز اور اندرونی اور بیرونی قوتیں بروئے کار لائی جائیں گی۔ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں موجودہ صورتحال بنیادی طور پر تبدیلی کا شکار ہو جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 1000934
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش