QR CodeQR Code

کرم میں امن و امان کی صورتحال پر شیعہ سنی جرگہ کی روئیداد

30 Jun 2022 23:11

اسلام ٹائمز: تحریک حسینی کے صدر نے کہا کہ پائیدار امن کیلئے ضروری ہے کہ حکومت قبائل کے مابین زمینی تنازعات کا فوری حل نکالے، کیونکہ کرم میں ہمیشہ زمینی تنازعات ہی قبائلی اور پھر فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرتے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت فریقین میں سے ہر ایک کو اس بات کا پابند کرے کہ ذاتی مسئلے یا قبائلی مسئلے کو کبھی فرقہ وارانہ رنگ نہ دیں اور جو بھی فریق ایسا کرے تو اسے سنگین سزا دی جائے۔


تحریر: ایس این حسینی

مقامی انتظامیہ کے زیر اہتمام گذشتہ روز پاراچنار میں شیعہ سنی امن جرگہ کا انعقاد ہوا، جس میں فریقین کے سرکردہ قومی عمائدین سمیت تحریک حسینی کے صدر علامہ سید تجمل الحسینی اور انجمن حسینیہ کے سیکرٹری عنایت علی طوری نے بھی شرکت کی۔ گذشتہ ایک ماہ سے کرم میں موجود کشیدگی کے خاتمے اور دیرپا امن کے قیام کی غرض سے اس پروگرام کا اہتمام مقامی سول انتظامیہ نے کیا تھا۔ 
جرگے سے اہلسنت کی جانب سے حاجی سلیم خان اور مولانا نیاز بادشاہ جبکہ طوری بنگش قبائل کی جانب سے متفقہ طور پر انجمن حسینیہ کے سیکرٹری عنایت علی طوری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فریقین کے علاوہ ڈی سی کرم نیز کمانڈر پاک فوج نے بھی خطاب کیا۔ ڈی سی کرم نے علاقے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے فریقین کے تعاون کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک فریقین خود مسائل کا حل نکالنے میں مخلص نہ ہوں، ثالث کچھ نہیں کرسکتا۔ اس دوران فریقین نے متفقہ طور پر امن و امان کی برقراری کی بات کی۔

جن نکات پر اتفاق ہوا انکی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1۔ مری معاہدہ کو عملی شکل دی جائے اور اس کے مطابق بے دخل شدہ تمام متاثرین کو اپنے اپنے علاقوں میں آباد کرایا جائے۔
2۔ روڈ میں مسافروں نیز علاقے میں ہر فرد کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہے۔ لہذا متعلقہ ادارے اسے اپنے ذمہ لیں۔
3۔ خلاف ورزی کرنے والوں، امن خراب کرنے والوں خصوصاً گذشتہ دونوں واقعات میں ملوث ملزمان اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں قبائل حکومت کے ساتھ تعاون کرینگے۔

اس حوالے سے تحریک حسینی کے صدر علامہ سید تجمل الحسینی سے بات کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کے لئے ضروری ہے کہ حکومت قبائل کے مابین زمینی تنازعات کا فوری حل نکالے، کیونکہ کرم میں ہمیشہ زمینی تنازعات ہی قبائلی اور پھر فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرتے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت فریقین میں سے ہر ایک کو اس بات کا پابند کرے کہ ذاتی مسئلے یا قبائلی مسئلے کو کبھی فرقہ وارانہ رنگ نہ دیں اور جو بھی فریق ایسا کرے تو اسے سنگین سزا دی جائے۔

اس حوالے سے سیکرٹری انجمن حسینیہ عنایت علی طوری کا کہنا تھا کہ ضروری بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی واقعہ ہو جائے تو فریقین کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیئے۔ ہر ایک کو چاہیئے کہ تحقیقات کرنے سے قبل کوئی بھی قدم از خود نہ اٹھائے، بلکہ متعلقہ اور اصل مجرم پر ایف آئی آر کٹوا کر عدالت کے توسط سے معاملات نمٹائے اور اگر حکومت نے انصاف فراہم نہ کیا تو پھر خود ہی اپنے اصل قاتل اور دشمن سے انتقام بیشک لے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں اصل قاتل اور مجرم کو چھوڑ کر راستے میں بے گناہ مسافروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسی کو لوگ انتقام کا نام دیتے ہیں، جو کہ شرعی لحاظ سے درست ہے، نہ ہی قبائلی روایات کے لحاظ سے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے سب سے بڑی کوتاہی بلکہ غلطی حکومت کی ہے، جو اولاً تو ایسے حالات خود فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، کیونکہ وہ معاملات کو میرٹ کی بنیاد پر بروقت حل نہیں کراتی۔ دوسری بات یہ کہ اصل دشمن یا قاتل کی بجائے بے گناہ افراد خصوصاً مسافروں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف کبھی موثر کارروائی نہیں کی جاتی۔ اگر ایک مرتبہ ایسے افراد کو سزا مل گئی تو پھر کبھی کوئی ایسی جرات نہیں کرسکے گا۔


خبر کا کوڈ: 1001986

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1001986/کرم-میں-امن-امان-کی-صورتحال-پر-شیعہ-سنی-جرگہ-روئیداد

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org