0
Friday 1 Jul 2022 23:55

اے این پی نے حکومتی اتحاد سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا؟

اے این پی نے حکومتی اتحاد سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی

تحریک انصاف حکومت کی برطرفی کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال ہر گزرتے دن کیساتھ بدلتی جا رہی ہے، کبھی عمران خان ملک کے سیاسی منظر نامے پر حاوی نظر آتے ہیں تو کبھی اتحادی حکومت اپنے اقتدار کو درست ثابت کرنے کی کوششوں میں رہتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی مسلم لیگ نون کی سربراہی میں قائم اس مخلوط حکومت کا حصہ ہے، تاہم تازہ خبریں یہ ہیں کہ اے این پی شہباز حکومت سے ’’ناراض‘‘ ہوگئی ہے۔ اے این پی خیبر پختونخوا کے صدر اور پارٹی سربراہ اسفندیار ولی کے صاحبزادے ایمل ولی خان کی زیرصدارت اے این پی کی مرکزی قیادت کا اجلاس گذشتہ روز منعقد ہوا، جس میں حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدوں اور ان پر عملدرآمد نہ ہونے پر کھل کر بات چیت کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اے این پی رہنماوں نے حکومت سے علیحدگی کی تجویز دے دی ہے، ایمل ولی خان نے حتمی فیصلہ کیلئے مرکزی قیادت کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا ہے، جبکہ شرکائے اجلاس نے حکومت سے علیحدگی کا اختیار پارٹی سربراہ اسفندیار ولی کو دیا ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں رہنماوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوسکا، ہمیں کسی بھی حکومتی فیصلوں پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار محمد ابراہیم خان نے اس حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اے این پی حکومتی اتحاد میں رہنے پر آصف علی زرداری کی وجہ سے مجبور ہے، کیونکہ آصف زردای نے پی پی کے حکومت کے دوران صوبہ کا نام تبدیل کیا اور ان کے بقول کالا باغ ڈیم کے معاملہ کو ہمیشہ کیلئے دفن کیا، ان دونوں ایشوز پر ہی عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست کئی عشروں سے چل رہی تھی۔ لہذا آصف علی زرداری کی وجہ سے یہ دونوں معاملات حل ہوئے، آصف زرداری کے کہنے پر ہی وہ اتحاد کا حصہ بنے۔ ان کی ترجیح وزارت مواصلات تھی، اس سے قبل یہ وزارت اے این پی رہنماء اعظم خان ہوتی کے پاس رہی ہے، اعظم ہوتی کے بیٹے حیدر ہوتی کی خواہش تھی کہ اگر انہیں کوئی وزارت دی جاتی ہے تو وہ وزارت مواصلات ہی لیں گے۔

ابراہیم خان نے مزید بتایا کہ اے این پی کو اپنی پسند کی وزارت مواصلات نہیں مل سکی، کیونکہ اس وزارت پر مولانا فضل الرحمان نے پاوں رکھ دیا تھا۔  لہذا اے این پی کو یہ شکوہ تھا کہ انہیں اپنی پسند کی وزارت نہیں ملی۔ اے این پی کو جب دوسری وزارت کی آفر کی گئی تو اس میں بھی انہیں کوئی دلچسپی نظر نہیں آئی، اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کی گورنرشپ پر بات ضرور ہوئی، لیکن معاملات آگے نہ بڑھ سکے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت اے این پی ایک بند گلی میں آگئی ہے، اگر آپ صوبے کے مستقبل کی بات کریں تو میرے خیال میں اس وقت بھی تحریک انصاف ہی حاوی نظر آئے گی، اس کی کارکردگی پر سوال بھی اٹھتے ہیں، لیکن اس کی پوزیشن مضبوط ہے۔ میرا خیال ہے کہ اے این پی اسی تنخواہ پر کام کرے گی، کہیں نہیں جائے گی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کے شہباز شریف کے ساتھ معاملات خراب ہوئے تو اس صورت میں اگر پی پی حکومتی اتحاد سے باہر نکلتی ہے تو یقینی طور پر اے این پی بھی حکومتی ساتھ چھوڑ دے گی۔

دوسری جانب اطلاعات یہ ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری سے اتحادیوں کو منانے کی درخواست کر دی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف سے آصف زرداری اور وزیر خارجہ بلاول کی ہونے والی ملاقات میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال، خاص طور پر حکومتی اتحادیوں کے گلے شکووں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے آصف زرداری سے درخواست کی کہ وہ اے این پی کو ’’ساتھ رکھنے‘‘ پر ان کا ساتھ دیں اور کوشش کی جائے کہ اس کے تحفظات دور ہوں، اس طرح شہباز شریف نے ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کی بھی درخواست کی اور کہا کہ ایم کیو ایم سے جو وعدے کیے گئے ہیں وہ پورے ہونے چاہیئں۔ سابق صدر مملکت نے وزیراعظم کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ جو بھی مسائل ہیں، ان سے جلد نکل آئیں گے۔
خبر کا کوڈ : 1002052
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش