0
Sunday 3 Jul 2022 09:14

سوشل میڈیا اور جدید پراپیگنڈا

سوشل میڈیا اور جدید پراپیگنڈا
تحریر: اعجاز علی

گذشتہ ایک صدی کا حوالہ دیا جائے تو دنیا بھر میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں بے حد تیزی سے جدت آئی ہے۔ صدیوں قبل لوگ کسی خبر سے متعلق ہفتوں بعد آگاہ ہوتے تھے، آج سیکنڈز میں وہ کام ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ آج کی جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا ہے۔ لوگوں کو کسی دوسرے شہر میں ہونے والے جلسہ، تقریریں یا پھر کسی اور ملک میں ہونے والے واقعات 2 سیکنڈز کے ڈیلے کے ساتھ فیس بک پر لائیو نظر آرہے ہوتے ہے۔ ظاہراً تو ان کمپنیز نے بڑی اچھی چیزیں متعارف کروائی ہیں، مگر سوشل میڈیا کا منفی استعمال کرنے والے بھی اس کا بے تحاشا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ رائے عامہ پر سوشل میڈیا پر چلنی والی خبریں اور کہانیاں شدید حد تک اثرانداز ہوتی ہیں۔ بعض عناصر مسلسل اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کی ذہنیت اور سوچ کو ایک مخصوص سمت کی طرف لے جا کر ان کا موقف تبدیل کیا جا سکے۔

حکومت بلوچستان کی سوشل میڈیا ٹیم میں کام کرنے والے ایک دوست کے مطابق سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کوئٹہ میں ایک کمرے کو سوشل میڈیا ٹیم کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ جس میں سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے 20 کے قریب افراد کام کرتے تھے اور ٹویٹر، فیس بک و دیگر سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر حکومت بلوچستان کا دفاع کرتے تھے۔ ان افراد کو باقاعدہ طور پر حکومت بلوچستان کی جانب سے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ دی جاتی تھی۔ ٹویٹر پر حکومت بلوچستان کے حق میں ٹرینڈ چلانا اور بلوچستان حکومت کے عہدیداروں کے ٹویٹر اکاؤنٹس کو مینٹین رکھنا، انہیں ویریفائی کروانا اور دیگر متعلقہ کام بھی ان کی ذمہ داریاں تھیں۔ بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد کے بعد وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے اس سلسلہ کو فعال رکھا اور وہ آج بھی سوشل میڈیا ٹیم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

جب جام حکومت ختم ہوئی تو اس سوشل میڈیا ٹیم کے بعض افراد کی وفاداریاں حکومت بلوچستان اور وزیراعلیٰ کی کرسی کی بجائے جام کمال خان سے مربوط رہ گئی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جام کمال خان نے ان افراد کو اس ٹیم میں شامل کر رکھا تھا، جن ان کے قریب تھے۔ اس کے علاوہ ان میں سے بعض افراد کو یہ لگا ہوگا کہ شاید نئے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو ان کی نوکری کیلئے خطرہ ہیں۔ وہ اسی لئے جام کمال خان کے حق میں مسلسل کام کرتے رہے اور نتیجتاً انہیں ان کے کام سے فارغ کر دیا گیا۔ ان کی جگہ نئے افراد نے لے لی، جو حکومت بلوچستان کی سوشل میڈیا ٹیم کیلئے کام کرتے ہیں۔ بہرحال صوبائی حکومت آج بھی جام کمال خان کی حکومت میں قائم کردہ سوشل میڈیا ٹیم پر عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کر رہی ہے۔

اسی دوست نے بتایا کہ عین ایسا ہی سیٹ اپ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی بنایا تھا۔ وفاقی سوشل میڈیا ٹیم بڑی افرادی قوت کے ساتھ بڑے پیمانے میں کام کرتی تھی۔ وفاقی حکومت کا دفاع کرنا، سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر اپوزیشن کے خلاف تحریکیں چلانا، مخالف جماعتوں کو سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر شکست دینا اور حکومت کے اقدامات کو عوامی سطح پر سراہنے کی کوشش کرنا وفاقی سوشل میڈیا ٹیم کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ آپ یہ بھی جان کر حیران ہو جائیں گے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ٹویٹر پر راج کرنے والا ٹرینڈ "امپورٹڈ حکومت نامنظور" کا ہیش ٹیگ بھی وزیراعظم ہاؤس سے ہی چلا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو جب اس بات کا علم ہوا، تب تک ان کی کشتی ڈوب چکی تھی۔

دروغ بر گردن راوی، ایک معتبر اور قابل اعتماد شخص نے بلوچستان میں حکومت کی میڈیا ترجیحات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان سماجی رابطہ کی ویب سائٹ میں فعال رہنے والی ایک ٹیم کو بلوچستان کی مثبت تصویرکشی اور مثبت امیج کو قائم رکھنے کیلئے 7 کروڑ سالانہ ادا کرتی ہے۔ اس ٹیم کا کام یہ ہوتا ہے کہ یہ بلوچستان کے مختلف شہروں میں جائے اور سافٹ نیوز کو کوریج دے۔ ان کے چینل میں لوگوں کے مسائل کی بجائے ان کے علاقوں میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں کو دکھایا جاتا ہے۔ لوگوں سے مزاحیہ سوالات پوچھے جاتے ہیں اور عوام کو بہت خوش دکھایا جاتا ہے۔ ظاہراً انٹرٹینمنٹ کے لئے کام کرنے والی اس ٹیم کو ادا کی جانے والی 7 کروڑ کی رقم کہاں سے آتی ہے؟ یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی عوام کے ٹیکس کے پیسے ہوتے ہیں۔ اسی ٹیم سے تعلق رکھنے والے بعض افراد ان لوگوں سے بھی لڑتے ہیں، جو سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر حکومت بلوچستان پر تنقید کرتے ہیں۔ میں خود ان لڑائیوں اور ایک دوسرے کی ذات پر حملوں کا چشم دید گواہ ہوں۔

حکومت بلوچستان کی جانب سے قائم کردہ یہ دو ٹیمیں ظاہراً ہمیں فضول نظر آرہی ہونگی، مگر لوگوں کے ذہنوں پر ان کا اثر الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا وہ آسان ترین ٹول ہے، جس کے ذریعے پروپیگنڈے کو پھیلایا جا سکتا ہے۔ اس کی وجوہات عام لوگوں کی سادگی اور بعض افراد کی چالاکی ہیں۔ لوگوں میں اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی بات کی تحقیق کریں۔ اکثر پڑھے لکھے لوگوں کو بھی یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ فیس بک پر یہ خبر چلی تھی تو یقیناً اس میں صداقت ہوگی۔ متعدد بار پرانی ویڈیوز کو چلا کر غلط افواہیں پھیلائی گئی ہیں۔ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ کن لوگوں کی بات پر یقین کرنا ہے اور کس کی بات پر یقین نہیں کرنا ہے۔ جب تک عوام الناس میں یہ بنیادی شعور پیدا نہیں ہوتا، سوشل میڈیا کو اسی طرح پروپیگنڈا ٹول بنا کر استعمال کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1002422
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش