QR CodeQR Code

آؤ دنیا سدھاریں

4 Jul 2022 14:31

اسلام ٹائمز: کہتے ہیں کہ ایک آدمی بستر مرگ پر تھا۔ چہرے پر ملال عیاں تھا۔ ساتھیوں نے وجہ پوچھی کی تو کہنے لگا کہ میں جوان تھا تو اس جستجو میں رہا کہ دنیا بدلوں گا، دنیا کیا بدلنا تھا، میں تو ایک شخص کو بھی قائل نہ کر پایا۔ پھر شادی ہوئی تو طے کیا کہ گھر والی کو بدلوں گا، اچھا انسان بناؤں گا، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا، الٹا اس نے مجھے بدل دیا۔ پھر بچے ہوئے تو ٹھان لیا کہ اب انہیں انقلابی بناؤں گا، مگر ادھر بھی کامیاب نہ ہوسکا، اب سوچتا ہوں تو پچھتاتا ہوں۔۔۔ میں نے ساری زندگی ضائع کر دی۔۔۔ دوسروں کو بدلنے میں اور جسے بدلنا میرے ہاتھ میں تھا، اس پر میں نے کبھی کوئی محنت نہیں کی۔ اب سمجھ آئی کہ میں کسی کو بدل نہیں سکتا، سوائے اپنے آپ کے اور یہ تبدیلی جب رونما ہوگی تو دنیا بھی بدل جائے گی۔


تحریر: اسماء طارق
trqasma2511@gmail.com 

مجھے شروع سے ہی دوسروں کو اچھا انسان بنانے کا شوق تھا۔ سب کو سدھار کر جنت کمانی تھی. آس پاس ایسا ہی دیکھا تھا۔ یہاں سب کو دوسروں کے نامہ اعمال کی فکر تھی اور اسے سدھارنے کے لیے وہ ہر لمحہ جدوجہد کرتے رہتے تھے۔ عمر اور سٹیٹس کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کا سدھارنے کا رینک بھی بدلتا رہتا ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی شوق ہو چلا کہ ہمیں بھی دنیا سدھارنی ہے۔ اب ہم نے جس سے ملنا اسے اچھائی کی تلقین کرنی۔ کوئی چھوٹا بچہ کہیں مل جائے لیکچر شروع، خیر ہم نے تو بڑوں کو نہیں چھوڑا تھا۔ ایک زمانے میں ہمیں بھی بڑے لیکچر سننا پڑے تھے، مگر پھر جب سے زبان کا استعمال سیکھا، کانوں کا کام کافی کم ہوگیا، اب وہ کام بھی زبان سے ہی لینا شروع کر دیا۔

ہم نے سیکھا تھا کہ آپ کو جہاں بھی کوئی اخلاقی سبق ملے، آپ نے نظر ڈالے بغیر فوراً اسے دوسروں میں بانٹ دینا ہے اور ثواب حاصل کرنا ہے۔ آپ کے سامنے کوئی کچھ بھی کیوں نہ کر رہا ہو، آپکو کبھی اس کی تعریف نہیں کرنی، اسے سراہنا نہیں، بلکہ اس کا غور سے مشاہدہ کریں اور اس میں سے کوئی نہ کوئی غلطی نکالیں اور اگلے کو سکھائیں کہ صحیح طریقہ کیا ہے۔ یہ سمجھنا ہے کہ اگلا کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا اور آپ کبھی غلط نہیں ہوسکتے۔ اسے ثابت کرنے کے لیے آپ کو چاہے کتنی ہی دلیلیں اور وضاحتیں کیوں نہ پیش کرنی پڑیں۔ ریفرنس کے لیے آپ بڑی بڑی کتابیں اور بڑے بڑے لوگوں سے مدد لے سکتے ہیں، بس آپ کو ان کے اقوال کو اپنے ساتھ منسلک کرنا آنا چاہیئے۔

اور پھر آپ کو ہر موقع پر دوسروں کو جج کرنا ہے۔ ہائے یہ ایسے کر رہی، ہائے یہ ایسے کر رہا۔۔۔۔۔ یہ تو شروع سے ایسا تھا۔۔۔۔ یہ تو شروع سے ہی ایسی تھی۔۔۔ سکول میں ہی ہمارے ٹیچرز ہمیں حلیے کی بنا پہلے ہی بتا سمجھا دیتے تھے کہ فلاں اچھی لڑکی نہیں۔۔۔ جو لڑکی سوال کرتی ہے، اچھا تیار ہوتی ہے، اپنے لباس اور شکل کا خیال رکھتی ہے، وہ اچھی لڑکی نہیں ہوسکتی۔۔۔۔ پھر اسی طرح ہر جگہ ہم لوگوں کو جج کرنے لگے اور لوگ ہمیں جج کرنے لگے۔۔۔۔ ہم انہیں تہذیب سکھانے لگے اور وہ ہمیں زندگی جینے کے طور طریقے۔۔۔۔ اور سچ بتاؤں اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا، بس بیچ میں نظریات کی چند دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں، جو ایک دوسرے سے الگ کر دیتی ہیں۔

یوں سبھی سکھا رہے ہیں۔۔۔۔۔ اب سیکھنے کےلیے کوئی بچا ہی نہیں۔ ایک وقت مجھے لگتا تھا کہ صرف دو ہی لائنیں ہوتی ہیں، ایک اچھی اور ایک بری، مگر دھیرے دھیرے یہ سمجھ آئی کہ یہ اتنا بھی آسان نہیں۔۔۔۔ اور شاید سفید اور کالا تو بہت کم ہے، زیادہ تر تو گرے ہے۔۔۔۔ جسے پہچاننا اتنا آسان نہیں کہ آپ ایک سیکنڈ میں کوئی فیصلہ سنا سکو اور پھر ہم نے انسانوں کو ان لسٹوں میں ڈالنا شروع کر دیا، حالانکہ مسئلہ نظریات، عقائد اور طور طریقوں کا ہے، جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔۔ مگر ان کی وجہ سے ہم انسانوں کو ہی مٹا ڈالتے ہیں، ختم کر دیتے ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی دوسروں کو سدھارنے کی، جو مجھے بھی کرنا ہے، مگر جب بھی میں بھاشن بانٹنے لگتی ہوں یا بانٹ چکی ہوتی ہوں، اب جو بھی ہو، ہم باز تھوڑا آتے ہیں۔ ہمیشہ اندر سے کوئی سوال اٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ وہ کم بخت مجھے ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ ہاں بھئی تم نے بھی تو ایسا کیا تھا۔ دوسروں کو کیا سکھا رہی ہو؟ پہلے خود تو سیکھ لو۔۔۔ اور یہ آسان نہیں ہے۔۔۔

 دوسروں کو سکھانا پھر ذرا آسان ہے۔۔۔ مگر اس اندر والے کی وجہ سے میری استادی ہمیشہ ادھوری رہ جاتی ہے اور ایسے تھوڑی چینج آئے گا، جب سبھی دوسروں کو بدلنا چاہیں گے۔ کہتے ہیں کہ ایک آدمی بستر مرگ پر تھا۔ چہرے پر ملال عیاں تھا۔ ساتھیوں نے وجہ پوچھی کی تو کہنے لگا کہ میں جوان تھا تو اس جستجو میں رہا کہ دنیا بدلوں گا، دنیا کیا بدلنا تھا، میں تو ایک شخص کو بھی قائل نہ کر پایا۔ پھر شادی ہوئی تو طے کیا کہ گھر والی کو بدلوں گا، اچھا انسان بناؤں گا، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا، الٹا اس نے مجھے بدل دیا۔ پھر بچے ہوئے تو ٹھان لیا کہ اب انہیں انقلابی بناؤں گا، مگر ادھر بھی کامیاب نہ ہوسکا، اب سوچتا ہوں تو پچھتاتا ہوں۔۔۔ میں نے ساری زندگی ضائع کر دی۔۔۔ دوسروں کو بدلنے میں اور جسے بدلنا میرے ہاتھ میں تھا، اس پر میں نے کبھی کوئی محنت نہیں کی۔ اب سمجھ آئی کہ میں کسی کو بدل نہیں سکتا، سوائے اپنے آپ کے اور یہ تبدیلی جب رونما ہوگی تو دنیا بھی بدل جائے گی۔

ہمارے بس میں صرف ہمارا اپنا آپ ہے، جس پر ہم نے روز تھوڑا کام کرنا ہے۔ اسے روز تھوڑا بہتر بنانے کی کوشش کرنی ہے اور ایک دن تھوڑا ہی یہ سب ہوگا۔۔۔۔ روز محنت کرنی پڑے گی۔۔۔۔ کبھی کامیابی ملے گی تو کبھی نہیں۔۔۔۔۔ کبھی سب بہت اچھا ہونے لگے گا تو کبھی بھٹکنے لگے گا، مگر آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔۔۔ کوشش کرنا نہیں چھوڑنا۔۔۔ اور اللہ سے مدد مانگنی ہے۔۔۔۔ اس کی توفیق ملے گی تو سب ہو جائے گا۔۔۔۔ ہاں اچھائی اور بھلائی کا پیغام شیئر کرو، اسے پھیلاؤ۔۔۔۔ اس میں کوئی برائی نہیں۔۔۔بس خود کو بھول نہ جانا۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 1002664

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/1002664/آؤ-دنیا-سدھاریں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org